سپریم کورٹ نے وزیر اعلی کے انتخاب کیس میں فل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا مسترد کردی

موجودہ تین رکنی بنچ ہی آج (منگل کو) سماعت کرے گا، چودھری شجاعت حسین اور پیپلز پارٹی کی فریق بننے کی درخواستیں سماعت کے لئے منظور

چودھری شجاعت کے وکیل صلاح الدین احمد اور پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک کومیرٹ پر دلائل دینے کی ہدایت

پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک کی جمعرات تک سماعت ملتوی کرنے کی استدعا مسترد

 آئینی اور عوامی مفاد کے مقدمات کو لٹکانا نہیں چاہیے،ہر شہری کی طرح معیشت کی صورتحال سے ہم بھی پریشان ہیں،چیف جسٹس

کیا معیشت کا یہ حال عدالت کی وجہ سے ہے یا عدم استحکام کی وجہ سے؟ آج زیادہ ووٹ لینے والا باہر اور کم لینے والا وزیراعلی ہے

حمزہ شہباز کو وزیراعلی برقرار رکھنے کیلئے ٹھوس بنیاد درکار ہے، ریاست کے کام چلتے رہنے چاہییں،دوران سماعت ریمارکس

اسلام آباد( ویب  نیوز)

سپریم کورٹ نے وزیر اعلی پنجاب کے انتخاب کے دوران ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ کے خلاف درخواست سننے کے لیے فل کورٹ کی تشکیل سے متعلق درخواستوں کی سماعت کے دوران حکومتی اتحادیوں اور پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کی جانب سے فل کورٹ بنانے کی استدعا کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ تین رکنی بنچ ہی سماعت کرے گا عدالت نے مسلم لیگ ق کے سربراہ چودھری شجاعت حسین اور پیپلز پارٹی کی فریق بننے کی درخواستیں سماعت کے لئے منظورکرلی ہیں اور چودھری شجاعت کے وکیل صلاح الدین احمد اور پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک کومیرٹ پر دلائل دینے کی ہدایت کی ہے۔ عدالت نے پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک کی جمعرات تک سماعت ملتوی کرنے کی استدعا مستردکردی ہے ۔ دوران سماعت ریمارکس میں چیف جسٹس عمر عطابندیال کا کہنا تھاکہ آئینی اور عوامی مفاد کے مقدمات کو لٹکانا نہیں چاہیے،ہر شہری کی طرح معیشت کی صورتحال سے ہم بھی پریشان ہیں، کیا معیشت کا یہ حال عدالت کی وجہ سے ہے یا عدم استحکام کی وجہ سے؟ آج زیادہ ووٹ لینے والا باہر اور کم لینے والا وزیراعلی ہے،حمزہ شہباز کو وزیراعلی برقرار رکھنے کیلئے ٹھوس بنیاد درکار ہے، ریاست کے کام چلتے رہنے چاہییں،چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل 3 رکنی بینچ  نے اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہی کی درخواست پر سماعت کا آغاز کیا تو عدالتی طلبی پر سابق صدر سپریم کورٹ بار لطیف آفریدی روسٹرم پرآئے تو عدالت نے استفسار کیاکہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ بار کے کافی صدور یہاں موجود ہیں۔لطیف آفریدی نے جواب دیا کہ آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کی نظرثانی درخواستیں زیر التوا ہیں، موجودہ سیاسی صورتحال بہت گھمبیر ہے، سپریم کورٹ ایک آئینی عدالت ہے، ہمارے سابق صدور نے اجلاس کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ بار کی نظرثانی درخواست بھی زیرالتوا ہے، دستیاب ججز پر مشتمل فل کورٹ تشکیل دے کر تمام مقدمات کو یکجا کرکے سنا جائے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ذرا کیس کو سیٹ اپ تو کر لینے دیں۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اس کیس کا براہ راست تعلق ہمارے فیصلے سے ہے، ہم چاہیں گے فریقین ہماری رہنمائی کریں جو اسٹیک ہولڈرز ہیں ان سب کو سنا جائے گا،۔تاہم پرویز الہی کے وکیل ایڈووکیٹ علی ظفر نے سابق صدور سپریم کورٹ بار کے مطالبے پراعتراض اٹھا دیا اور کہا کہ ہمارے کسی سوال کا جواب نہیں دیا گیا۔اس دوران چیف جسٹس کا پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک سے مکالمہ ہوا، جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ کے پاس کرسی تو ہے ناں۔فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ سر کرسی کی کوئی بات نہیں، کرسی کی پرواہ نہیں کرتا، ہم نے صبح درخواست جمع کروائی تھی اسے بھی سنا جائے۔عبداللطیف آفریدی نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف اپیلیں بھی زیر التوا ہیں، آئینی بحران سے گریز کے لیے فل کورٹ تشکیل دیا جائے۔انہوں نے کہا کہ بحران گہرے ہوتے جارہے ہیں، پورا نظام دا پر لگا ہوا ہے، سسٹم کا حصہ عدلیہ اور پارلیمان بھی ہیں۔ڈپٹی اسپیکر کے وکیل عرفان قادر نے بھی دلائل کا آغاز کرتے ہوئے عدالت سے فل بینچ بنانے کی استدعا کی تو عدالت نے استفسار کیا کہ کن نکات پر فل کورٹ سماعت کرے۔عرفان قادر نے کہا کہ آئین کی دفعہ 63 اے کے حوالے سے آپ اپنے حکم نامے کا پیرا گراف نمبر 1 اور 2 پڑھ لیں جس سے سب باتیں کلیئر ہوجائیں گی۔چیف جسٹس نے کہاکہ ڈپٹی اسپیکر نے رولنگ میں ہمارے فیصلے کے کس حصے کا حوالہ دیاعرفان قادر نے کہا کہ صدر مملکت نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کا ریفرنس بھیجا، آرٹیکل 63 اے کو الگ کر کے نہیں پڑھا جاسکتا، سیاسی جماعت کو ہدایات پارٹی سربراہ دیتا ہے، پارلیمانی جمہوریت میں سیاسی جماعتوں کا اہم کردار ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ سیاسی جماعتوں کی کمزوری سے جمہوری نظام خطرے میں آسکتا ہے، پارٹی پالیسی سے انحراف نظام کے لیے کینسر کے مترادف ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جو ارکان اسمبلی میں موجود ہوتے ہیں صرف وہ پارلیمانی پارٹی کا حصہ ہوتے ہیں، سیاسی جماعت اور پارلیمانی پارٹی میں فرق ہے، کیا ڈیکلریشن اور پارلیمانی پارٹی کو ہدایات ایک ہی شخص دے سکتا ہے؟وکیل حمزہ شہباز نے کہا کہ میں نے اپنا جواب عدالت میں جمع کروا دیا ہے، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ہمیں بتائیں ڈپٹی اسپیکر نے رولنگ میں ہمارے فیصلے کے کس حصے کا حوالہ دیا، ڈپٹی اسپیکر نے ہمارے جس پیراگراف پر انحصار کیا وہ کہاں ہے؟جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ آئین ڈائریکشن اور ڈیکلریشن پر واضح ہے، پارٹی سربراہ اور پارلیمانی پارٹی کا کردار الگ الگ ہے۔حمزہ شہباز کے وکیل نے غیر متعلقہ جواب دیا تو ججز نے انہیں پہلے بنیادی سوال کا جواب دینے کی ہدایت کی۔جسٹس منیب اختر نے وکیل سے کہا کہ جو نقطہ آپ اٹھانا چاہ رہے ہیں وہ ہم سمجھ چکے ہیں، مناسب ہوگا اب کسی اور وکیل کو موقع دیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ پارٹی ہدایت اور ڈیکلریشن دو الگ الگ چیزیں ہیں، ڈپٹی اسپیکر نے عدالتی فیصلے کے جس نقطے کا حوالہ دیا وہ بتائیں۔حمزہ شہباز کے وکیل منصور اعوان نے کہا کہ پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ مسترد ہوجائے گا، یہی نقطہ ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا پارٹی سربراہ پارلیمانی پارٹی کا سربراہ ہو سکتا ہے؟ فیصلے کے کون سے حصے پر ڈپٹی اسپیکر نے انحصار کیا اس کابتائیں۔حمزہ شہباز کے وکیل نے بتایا کہ ڈپٹی اسپیکر نے فیصلے کے پیراگراف نمبر تین پر انحصار کیا۔جسٹس منیب اخترنے کہاکہ 18ویں ترمیم کے بعد پارٹی لیڈر کو پارلیمانی پارٹی سے بدل دیا گیا، 14ویں ترمیم میں آرٹیکل 63 اے شامل کیا گیا، آپ کے سیاسی پارٹی کے سربراہ کے بارے میں کیا قانونی دلائل ہیں؟منصور اعوان ایڈووکیٹ نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے، 14ویں ترمیم سے آئین میں شامل کیا گیا لیکن 18ویں ترمیم کے ذریعے آرٹیکل 63 اے کی مزید وضاحت کی گئی۔دلائل دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جسٹس شیخ عظمت سعید کے 8 رکنی فیصلے کے مطابق پارٹی سربراہ ہی سارے فیصلہ کرتا ہے۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ پارٹی پالیسی میں ووٹ کاسٹ کرنے سے متعلق دو الگ اصول ہیں، 18ویں ترمیم سے قبل آرٹیکل 63 اے پارٹی سربراہ کی ہدایات کی بات کرتا تھا، 18ویں ترمیم کے بعد پارٹی لیڈر کو پارلیمانی پارٹی سے بدل دیا گیا۔انہوں نے مزید کہا کہ پہلے پارلیمانی پارٹی اور پارٹی سربراہ کے اختیارات میں ابہام تھا، ترمیم کے بعد آرٹیکل 63 اے میں پارلیمانی پارٹی کو ہدایت کا اختیار ہے، عدالتی فیصلہ خلاف آئین قرار دینے کے نقطے پر رولز موجود ہیں۔وکیل حمزہ شہباز نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے پر فیصلہ ماضی کی عدالتی نظیروں کے خلاف ہے، سپریم کورٹ آرٹیکل 63 اے کے معاملے پر فل کورٹ تشکیل دے، اگر پانچ رکنی بینچ کو لگتا ہے ماضی کا عدالتی فیصلہ غلط تھا تو فل بینچ ہی فیصلہ کر سکتا ہے۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ صدارتی ریفرنس میں ارکان پارلیمنٹ کو پارٹی سربراہ کی ڈکٹیٹرشپ سے بچایا، چیف جسٹس نے کہا کہ اس عدالت میں سینئر پارلیمینٹرینز نے مقف اختیار کیا تھا کہ پارٹی سربراہ آمر ہوسکتا ہے، اس کے کردار کو کم کرنے کے لیے پارلیمانی پارٹی کے لیڈر کو کردار بھی دیا گیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ پاکستان میں موروثی پارٹیاں ہیں، ایک سربراہ باہر بیٹھ کر کیسے ہدایات دے سکتا ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ پارلیمانی نمائندوں کو آئین میں اختیارات دیئے گئے ہیں، اسمبلی میں کس کو ووٹ دینا ہے اس کا فیصلہ پارلیمانی پارٹی کرتی ہے، صدارتی ریفرنس میں ارکان پارلیمنٹ کو پارٹی سربراہ کی ڈکٹیٹرشپ سے بچایا۔چیف جسٹس نے کہا کہ پارٹی سربراہ کی ڈکٹیٹرشپ سے متعلق کئی ارکان نے شکایات کیں، پارٹی سربراہ کو بھی پارلیمانی پارٹی کی رائے سننی ہوگی۔وکیل حمزہ شہباز نے کہا کہ 4 سیاسی جماعتوں کے سربراہ پارلیمانی پارٹی کا حصہ نہیں ہیں، جے یو آئی (ف) پارٹی سربراہ کے نام پر ہے لیکن مولانا فضل الرحمن پارلیمانی پارٹی کا حصہ نہیں ہیں، عوام میں جواب دہ پارٹی سربراہ ہوتا ہے پارلیمانی پارٹی نہیں۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ سیاسی جماعت اصل میں وہی ہوتی ہے جو پارلیمانی پارٹی ہو، پارٹی سربراہ کا کردار بہت اہم ہے، منحرف رکن کے خلاف پارٹی سربراہ ہی ریفرنس بھیجنے کا فیصلہ کرتا ہے، ووٹ کس کو ڈالنا ہے ہدایت پارلیمانی پارٹی دے گی اور ریفرنس سربراہ بھیجے گا۔انہوں نے مزید کہا کہ سیاسی جماعت اصل میں وہی ہوتی ہے جو پارلیمانی پارٹی ہو، عوام جسے منتخب کر کے اسمبلی میں بھیجتے ہیں ان ارکان کے پاس ہی مینڈیٹ ہوتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ برطانیہ میں تمام اختیارات پارلیمانی پارٹی کے پاس ہوتے ہیں، برطانیہ میں پارلیمان کے اندر پارٹی سربراہ کا کوئی کردار نہیں ہوتا۔انہوں نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر نے عدالتی فیصلہ درست مانتے ہوئے ہی رولنگ میں اس کا حوالہ دیا تھا۔اس پر ڈپٹی اسپیکر کے وکیل نے کہا کہ ووٹ مسترد کرنے کی حد تک فیصلے کا حوالہ دیا گیا تھا۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ یعنی ووٹ مسترد ہونے کی حد تک عدالتی فیصلہ تسلیم شدہ ہے، سوال صرف ڈپٹی اسپیکر کی تشریح کا ہے کہ درست کی یا نہیں۔انہوں نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر نے ہمارے فیصلے پر انحصار کر کے فیصلے سے آگے بڑھ کر رولنگ دی۔ان کا کہنا تھا کہ سوال یہ ہے کہ ڈپٹی اسپیکر نے ہمارے فیصلہ کہ درست تشریح کی، سوال یہ بھی ہے کہ کیا ڈپٹی اسپیکر نے ہمارے فیصلے کی غلط تشریح تو نہیں کی۔ساعت کے دوران وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کارروائی میں ایک بات پھر مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ منصور اعوان نوجوان ہیں اور ان کے کندھوں پر بہت بوجھ ہے۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ منصور اعوان بہت بہترین دلائل دے رہے ہیں، اس موقع پرعدالت نے منصور اعوان کو وزیر قانون سے ہدایات لینے سے روک دیا۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ منصور اعوان وزیر اعلی پنجاب کے وکیل ہیں، وہ وزیر قانون سے کیسے ہدایات لے سکتے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ سوالات سے پریشان نہ ہوں، دلائل جاری رکھیں۔منصور اعوان نے کہا کہ عمران خان کی ہدایات کو الیکشن کمیشن نے تسلیم کیا، الیکشن کمیشن نے اس معاملے پر فیصلہ کیا، جس پر جسٹس اعجاز الااحسن نے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن کا اس معاملے سے تعلق کیا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ بھی دیا ہے، آپ الیکشن کمیشن کا فیصلہ بھی پڑھ لیں۔وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ تمام پارٹی اراکین کو چوہدری شجاعت کا خط اجلاس شروع ہونے سے پہلے موصول ہو گیا تھا۔منصور اعوان نے کہا کہ وزیر اعلی پنجاب کے پہلے انتخابات میں پی ٹی آئی کو ہدایات عمران خان نے دی تھیں، الیکشن کمیشن نے عمران خان کی ہدایات پر ارکان کو منحرف قرار دیا، منصور اعوان نے عمران خان کی ایم پی ایز کو ہدایت بھی عدالت میں پیش کر دی۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ وزیر اعلی پنجاب انتخاب کے پہلے اور اب کے کیس میں فرق ہے، الیکشن کمیشن میں ارکان کا مقف تھا کہ انہیں پارٹی ہدایت نہیں ملی، موجودہ کیس میں ارکان کہتے ہیں پارلیمانی پارٹی نے پرویز الہی کو ووٹ دینے کا فیصلہ کیا تھا۔انہوں نے ریمارکس دیئے کہ پارلیمانی پارٹی ہدایت کے نقطے پر کسی فریق نے اعتراض نہیں کیا، منحرف ارکان اور اس کیس کے حقائق مختلف ہیں، منحرف ارکان کا مقف تھا کہ ہمیں شوکاز اور ہدایات نہیں ملیں، یہاں پر ایشو مختلف ہے۔ان کا کہنا تھا کہ تمام 10 اراکین نے ووٹ کاسٹ کیا، کسی رکن نے دوسری طرف ووٹ نہیں دیا، تمام ارکان نے ایک طرف ووٹ ڈالا، دس ارکان میں میں کسی نے نہیں کہا کہ پارلیمانی پارٹی کا اجلاس نہیں ہوا۔چیف جسٹس نے اسپیکر پنجاب اسمبلی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر سے مکالمے میں کہا کہ مقدمے کے میرٹ پر دلائل نہ دیں، فل کورٹ کی تشکیل پر دلائل دیں، دوسری سائیڈ نے فل کورٹ پر دلائل دیے ہیں، آپ بتائیں فل کورٹ کیوں نہ بنائی جائے، آپ دوسری سائیڈ کی فل کورٹ کی استدعا کے خلاف کیا موقف اپنائیں گے؟بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے بڑا کلیئر ہے، پارٹی سربراہ کو پارلیمنٹیرین پارٹی کی ہدایات کے مطابق ڈکلئیریشن دینی ہوتی ہے، آرٹیکل 63 اے پر عدالت پہلے ہی مفصل سماعتوں کے بعد رائے دے چکی ہے، پارلیمانی پارٹی کی ہدایت تسلیم کرنا ہی جمہوریت ہے۔وکیل پرویز الہی نے کہا کہ پارٹی اجلاس میں مختلف رائے دینے والا بھی فیصلے کا پابند ہوتا ہے۔بیرسٹر علی ظفر نے موقف اپنایا کہ سیاسی جماعت کے سربراہ کی آمریت کی آئین میں کوئی گنجائش نہیں، آرٹیکل 63 اے اور اس کی عدالتی تشریح بالکل واضح اور غیر مبہم ہے۔علی ظفر نے کہا کہ فل کورٹ بنانے کا اختیار چیف جسٹس کا ہے، 15 مقدمات میں چیف جسٹس نے فل کورٹ بنانے سے انکار کیا ہے، فل کورٹ سے عدالت کو دوسرا سارا کام روکنا پڑتا ہے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا 2015 کا عدالتی فیصلہ غیر آئینی ہے، جس پر علی ظفر نے کہا کہ عدالت پر مکمل اعتماد ہونا چاہیے، فل کورٹ تشکیل دینا چیف جسٹس کی صوابدید ہے، کیا تمام عدالتی کام روک کر فل کورٹ ایک ہی مقدمہ سنے؟ گزشتہ 25 سال میں فل کورٹ صرف 3 یا 4 کیسز میں بنا ہے، گزشتہ سالوں میں فل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا 15 مقدمات میں مسترد ہوئیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ فل کورٹ نہ بنانے سے دیگر مقدمات پر عدالت کا فوکس رہا، مقدمات پر فوکس ہونے سے ہی زیر التوا کیسز کم ہو رہے ہیں۔علی ظفر نے کہا کہ حکومت چاہتی ہے کہ حمزہ شہباز عبوری وزیر اعلی زیادہ سے زیادہ دیر رہیں، عدالت نے تحریک عدم اعتماد کیس چار دن میں ختم کر دیا تھا، دیگر مقدمات اس کیس کے ساتھ نتھی کرنے سے صرف وقت ضائع ہوگا، سابق بار صدور کا آنا اور دلائل دینا سمجھ سے بالاتر تھا۔انہوں نے موقف اپنایا کہ منحرف ارکان کی اپیلیں اور نظرثانی اس کیس سے منسلک کرنا زیادتی ہوگی، بحران ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ جلد فیصلہ کیا جائے، ان کا کہنا تھاکہ الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف اپیلیںاورنظرثانی کی درخواستیں صرف 5 رکنی بینچ ہی سن سکتا ہے، عدالت کے سامنے بڑا سادہ مقدمہ ہے، عدالت پر ہمیں اور پوری قوم کو پورا یقین ہے۔چیف جسٹس نے علی ظفر سے کہاکہ جسٹس منیب اختر کے سوال کا جواب دیں کہ چوہدری شجاعت حسین کا خط کب اراکین تک پہنچا؟ علی ظفر کا کہنا تھاکہ چوہدری شجاعت حسین کا خط ق لیگ کے اراکین تک نہیں پہنچا تھا، علی ظفر کے دلائل مکمل ہوئے تو پاکستان تحریک انصاف کے وکیل امتیازصدیقی نے دلائل مں موقف اپنایا کہ ڈپٹی سپیکر کی رولنگ میں لکھا گیا کہ مجھے ابھی چوہدری شجاعت کا خط ملا ہے،چیف جسٹس نے کہاکہ ڈپٹی سپیکر کو خط کسی نے آ کر نہیں دیا تھا،ڈپٹی سپیکر اجلاس کیلئے آئے تو خط انکی جیب میں تھا،جسٹس منیب اختر نے امتیاز صدیقی سے کہاکہ  وہ فی الحال اپنے دلائل کو فل کورٹ کے نقطے تک محدود رکھیں، امتیاز صدیقی ایڈووکیٹ کا کہنا تھاکہ ووٹنگ کے بعد دروازے بند ہوجاتے ہیں کوئی آ یا جا نہیں سکتا، ڈپٹی سپیکر نے کہا میرا فیصلہ چیلنج کر دیں، حمزہ شہباز سے پہلے حلف سپیکر قومی اسمبلی نے لیا تھا،حلف کیخلاف لاہور ہائیکورٹ کے فل بنچ نے فیصلہ دیا،جسٹعدالت عظمی نے  ڈپٹی اسپیکر کے وکیل عرفان قادر سے کہاکہ ابھی وقفہ کررہے ہیںاور ہم مشاورت کرینگے کہ کیس یہی بینچ سنے گا یا معاملہ فل بینچ کوبھیجیں ساڑھے 5 بجے  اس معاملے پر آپ سے پھر بات کرینگے۔عدالتی وقفے کے بعد کیس کی سماعت دوبارہ شروع ہوئی تووفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ہمیں اس حوالے سے یہ ہی احکامات ہیں، معاملہ فل کورٹ میں سنا جائے۔ میں نے استدعا کی فل کورٹ بنچ بنانے سے عدالتی تکریم میں اضافہ ہو گا۔ اگر نظر ثانی منظور ہوئی تو بات پہلے والی صورتحال پر چلی جائے گی۔  چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے آئین کو دیکھنا ہے۔ آرٹیکل 63 اے کا طویل سفر ہے، سپریم کورٹ کے 5 رکنی بنچ نے وزیر اعظم کو گھر بھیجا، آپ نے پہلے کبھی بنچ پر اعتراض نہیں کیا۔ اس پر وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ہم معذرت کرتے ہیں۔ اس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ معذرت نہیں کرتے آپ مٹھائیاں بانٹتے ہیں۔ اس عدالت نے ضمیر کے ساتھ فیصلہ کرنا ہے، اگر یہ معاملہ تجاوز کا ہوا تو ممکن ہے فل کورٹ میں جائے۔اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ووٹ کے نہ گننے کی تشریح درست نہیں کے نتیجے پر رن اف الیکشن ہی ختم ہوجائے گا، 12 کروڑ کے وزیراعلی کا مسئلہ ہے۔چیف جسٹس نے مزید کہا کہ قانونی سوال پر آپ تیاری کرلیں۔ اس پر ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری کے وکیل نے کہا کہ اگر آپ نے سننا ہے تو سب کو موقع دیں، میں نے تحریری جواب تیار کیا ہے، اتنا وقت تو دیں مقدمہ کہ تیاری کر سکیں۔اس پرچیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ فل کورٹ پر ہم نے سوچا ہے، فل کورٹ پیچیدہ کیسز میں بنائے جاتے ہیں، یہ پیچیدہ کیس نہیں ہے، آرٹیکل 63 اے پر ہمارا فیصلہ آ چکا ہے، ہم نے 2015 کے فیصلے کا مطالعہ کیا ہے، اگر آپ تیار نہیں تو منصور اعوان سے سوال کر لیتے ہیں۔ ملک میں گورننس بہت بڑا ایشو ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ابھی ہم مزید فریقین کو سننا چاہتے ہیں، آپ کیا کہنا چاہ رہے ہیں آپ کے کہنے پر ابھی فل کورٹ بنا دیں۔ آپ شاید چاہتے ہیں آپ کے کہنے پر فل کورٹ بنا دیں تو ٹھیک ہے ورنہ نہیں، میرٹ پر دلائل سن کر فیصلہ کریں گے فل کورٹ بنانی ہے یا نہیں۔اسی دوران عرفان قادر نے کہا کہ مجھے اپنے موکل سے ہدایات لینے کا وقت دیا جائے۔ میرٹ پر دلائل دینے کے لیے وقت درکار ہوگا، ہمارے تمام دلائل فل کورٹ سے متعلق ہیں۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ اس سوال کا جواب دے چکے ہیں پارٹی سربراہ ہدایات دے سکتا ہے، کیس میں لمبا کرنے کی کوئی بات نہیں ہے، عدم اعتماد والے کیس میں عدالت نے سوموٹو لیا تھا، موجودہ کیس میں کوئی سوموٹو نہیں لیا، آپ کے ہر لفظ کو سنا جائے گا، ہم نے وکیل منصور عثمان کو تفصیلی سنا ہے، لمبے سفر کے بعد 63 اے بنی ہے، استدعا ہے فل کورٹ سے عدالت کی توقیر میں اضافہ ہوگا، وزیراعظم کو گھر بھیجنے کے فیصلے پر اپ نے مٹھائیاں بانٹیں۔عرفان قادر نے کہا کہ میرے دلائل فل کورٹ کی تشکیل پر ہے، آپکی اجازت سے بات کرونگا، اگر فل کورٹ پر عدالت نہیں سننا چاہتی تو میں چلا جاتا ہوں، جب وہی جج صاحبان بنچ میں آتے تو تاثر ملتا ہے، ججز کی ساکھ پر میرا کوئی سوال نہیں ہے، ابھی تک کوشش کررہے ہیں قانون سوالات طے کرلئے جائیں، علی ظفر نے بھی تسلیم کیا کوئی آئینی سوال شامل ہی نہیں، ساڑھے گیارہ بجے اپ نے حکم دیا میرے پاس تو پیپر بک بھی نہیں تھی، میں نے پہلی سماعت پر بھی کوشش کی عدالت کی معاونت نہ دوں، اپ نے سابقہ سماعت کے حکم میں لکھ دیا میری تیاری نہیں، ڈپٹی سپیکر کا جواب بھی ساتھ لایا ہوں آخری گزارش ہے بہتر معاونت کیلئے ٹائم دیا جائے۔ عدالتی فیصلے کی روشنی میں ہی وزیراعلی کا دوبارہ الیکشن ہوا، منحرف ارکان کے ووٹ اگر مسترد کرنے کا فیصلہ بدل گیا تو دوبارہ پولنگ کی ضرورت نہیں ہوگی، کیس کی بنیاد ہی عدالتی فیصلہ ہے جس کی نظرثانی پر پہلے فیصلہ ضروری ہے، یہ سپریم کورٹ جتنی اپکو عزیز ہے اتنی ہی مجھے عزیز ہے، ہم آئے ہیں چلے جائیں گے ادارے موجود رہیں گے۔چیف جسٹس نے کہا کہ میرٹس پر ہمارے سامنے سوال تھا پارٹی ہیڈ ہدایات دے سکتے ہے یا نہیں، منصوراعوان کا موقف ہے سپریم کورٹ کے فیصلوں کے تناظر میں فل کورٹ تشکیل دیا جائے، یہ مسئلہ اتنا پیچیدہ نہیں، سپریم کورٹ کا پہلا فیصلہ آچکا ہے، دیکھنا ہے کیا سپریم کورٹ کے پہلے فیصلوں سے کوئی تضاد ہے، دیگر وکلا نے کیس تیار کیا ہوا انکو سن لیں گے، ہمارے ملک میں حکومت بڑا ایشو ہے، ائین کے شرائط کو کئی دفعہ نظر انداز کیا جاتا ہے، وفاقی حکومت کے کیس میں ہم نے از خود نوٹس لیا، دن اور شام کو سن کر چار روز میں فیصلہ کیا، اس کیس پر تو از خود نوٹس بھی نہیں لیا۔ جسٹس منیب اختر کاکہناتھا کہ پارلیمانی پارٹی میں تمام ارکان کی اہمیت ہے، پارلیمانی پارٹی میں پارٹی سربراہ کی آمریت نہیں ہونی چاہئے،پارلیمانی پارٹی کی مشاورت سے فیصلے ہوتے ہیں، جسٹس اعجازالاحسن نے پیپلزپارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک کومخاطب کرتے ہوئے کہاکہ آپ دوسری جانب کھڑے ہیں تو کہتے ہیں عدالت کا اختیار نہیں،فارق ایچ نائیک نے کہاکہ اب وقت اور حالات تبدیل ہو چکے ہیں، اس لئے عدالت جمعرات تک کیس ملتوی کرے، عدالت نے ان کی استدعا مسترد کردی عدالت کا کہنا تھاکہ آج ہی دلائل دیںجسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ بات دو دن کی نہیں ہے، عدالت نے تعین کرنا ہے وزیراعلی کا انتخاب درست تھا یا نہیں،سوال بس اتنا ہے کہ اگر ڈپٹی اسپیکر نے ہمارے فیصلے کو غلط سمجھا ہے تو ہم اس کو درست کریں،کیسز کا پنڈورا باکس نہیں کھول سکتے، فاروق ایچ نائیک نے کہاکہ سپریم کورٹ کو دیکھنا چاہئے کہ وہ پارلیمنٹ کی اندرونی کارروائی میں مداخلت نہیں کر سکتی،جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ آپ حقائق کی بات کر رہے ہیںلیکن عدالت کے سامنے ایک قانونی سوال ہے ۔چوہدری شجاعت حسین کے وکیل بیرسٹر صلاح الدین نے کہاکہ  عدالت نے یہ سوال پوچھے تھے کہ خط کب لکھے گئے؟ ارکان کو کب ملے ؟جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ عدالت نے صرف سمجھنے کیلئے سوال پوچھا تھا،، بیرسٹر صلاح الدین کا کہنا تھاکہ کئی جماعتیں کہتی ہیں کاغذوں میں نام کسی کا بھی ہو ہمارا قائد فلاں ہے، اصل فیصلہ پارٹی سربراہ کا ہی ہوتا ہے قائد کوئی بھی ہو، کسی جماعت کا سینیٹر ہو تووہ کس پارلیمانی پارٹی سے ہدایت لے گا؟ ، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ سپیکر نے فیصلہ خط ملنے کے وقت پر نہیں بلکہ عدالتی حکم کی روشنی میں دیا،، صلاح الدین ایڈووکیٹ نے کہاکہ ہر سیاسی جماعت کا ایک منشور ہوتا ہے۔تھرڈ ورلڈ ممالک میں پارٹی سربراہ کی اپنی شخصیت ہوتی ہے۔جسٹس منیب اختر نے کہاکہ پارلیمانی پارٹی میں تمام ارکان کی اہمیت ہے، پارٹی سربراہ کی آمریت نہیں ہونی چاہیے،پارلیمانی پارٹی کی مشاورت سے فیصلے ہوتے ہیں،وکیل صلاح الدین کا کہنا تھاکہ ایم پی ایز اور ڈپٹی اسپیکر کو بھیجے خطوط کا ریکارڈ جمع کرائوں گا،حقائق سے متعلق کچھ ایسے  سولات ہیں جو عدالت میں اٹھائے گئے ان کا جواب  دینا ضروری ہے،اس میں پارلیمنٹری پارٹی کی ڈائریکشن کا معاملہ ہے کہ کون کیسے یہ ڈائریکشن دے سکتا ہے، ووٹ کا فیصلہ پارٹی سربراہ اور پارٹی کا ہوتا ہے۔فل کورٹ کی بصیرت سے فائدہ اٹھانا چاہئے، جسٹس منیب اختر نے کہاکہ بار بار فل کورٹ کا ذکر کیوں کر رہے ہیں؟  آپ 8 ججز کے فیصلے کا حوالہ دے رہے ہوں تو 9 ججز بھی سماعت کرسکتے ہیں، آپ اکیسویں ترمیم کیس کا حوالہ دے رہے ہیں لیکن  یہ دیکھیں اکیسویں ترمیم میں فیصلہ کس تناسب سے آیا تھا؟ بینچ کے رکن جتنے بھی ہوں فیصلے کا تناسب بدلتا رہتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ آئینی اور عوامی مفاد کے مقدمات کو لٹکانا نہیں چاہیے،ہر شہری کی طرح معیشت کی صورتحال سے ہم بھی پریشان ہیں، کیا معیشت کا یہ حال عدالت کی وجہ سے ہے یا عدم استحکام کی وجہ سے؟آج زیادہ ووٹ لینے والا باہر اور کم لینے والا وزیراعلی ہے،حمزہ شہباز کو وزیراعلی برقرار رکھنے کیلئے ٹھوس بنیاد درکار ہے، ریاست کے کام چلتے رہنے چاہیے،حمزہ شہباز کا الیکشن غلط قرار دیاہم نے حمزہ شہباز کو یکم جولائی کو وزارت اعلی نے نہیں ہٹایا۔چوہدری شجاعت کے وکیل کا کہنا تھاکہ ہم معاملہ کو طول نہیں دینا چاہتے۔چیف جسٹس نے کہاکہ وزیراعلی کے الیکشن سے پہلے بھی فریقین کو بلا کر متفق کیا تھا،حمزہ شہباز کو ضمنی الیکشن تک بطور وزیراعلی  برقرار رکھا تھا،حمزہ شہباز نے پرامن اور بہترین ضمنی الیکشن میں کردار ادا کیا،اب وزیراعلی کے الیکشن کا جو نتیجہ آیا اس کا احترام کرنا چاہیے، عدالت کے فیصلے پر انتخابات  ہوئے اور پر امن طریقے سے ہوئے، ہمیں یہ ڈھونڈ کر دے دیں کہ کہاں لکھا ہے کہ پارٹی ہیڈ غیر منتخب بھی ہو تو اس کی بات ماننا ہوتی ہے، چیف جسٹس  پاکستان نے کہاکہ آج جس شخص نے 186 کے مقابلے میں 179 ووٹ لئے وزیراعلی ہے ایسے وزیراعلی کو جاری رکھنے کیلئے ٹھوس قانونی وجوہات چاہئیں ،ہم یکم جولائی کو فیصلہ دیتے ہوئے بھی موجود وزیراعلی کو کام سے نہیں روکا تھا چیف جسٹس نے کہاکہ الیکشن کے نتائج کا احترام ہونا چاہیے آپ کہہ رہے ہیں پارٹی ہیڈ کا کنٹرول ہوتا ہے آپ خود سے سوال سے پوچھیں کہ آئین کے مطابق کس نے ہدایات دینی ہیں، چوہدری شجاعت کے وکیل نے کہاکہ ہم کیس کو بالکل طویل نہیں کرنا چاہتے  چیف جسٹس نے کہاکہ ہمارے علاوہ صرف دو ججز ہی یہاں دستیاب ہیں کوشش کر رہے ہیں جہاں عدالت انے والوں کو سہولیات دیں، صلاح الدین ایڈووکیٹ نے کہاکہ امریکہ میں ججز سیاسی جماعتیں اور حکومت تعینات کرتی ہیں، شکر ہے پاکستان میں ایسا نظام نہیں ہے، فاضل بنچ رات کے 7 بجے بھی موجود ہے تو باقی ججز بھی خوشی سے اپنی ذمہ داری نبھائیں گے، چیف جسٹس نے کہاکہ ججز دستیاب نہیں ہیں، چوہدری شجاعت کے وکیل نے کہاکہ جو ججز دستیاب ہیں وہ بھی بیٹھ کر فیصلہ کر سکتے ہیں، چیف جسٹس نے کہاکہ ہم تین ججز کے علاوہ صرف دو مزید ججز شہر میں ہیں،  وکیل صلاح الدین نے کہاکہ وڈیو لنک کے ذریعے بھی ججز شریک ہو سکتے ہیں،چیف جسٹس نے کہاکہ وڈیو لنک شکایت کنندگان کی سہولت کے لیے ہے،وزیراعلی  کے انتخاب کا جو نتیجہ آیا اس کا احترام کرنا چاہیے،وکیل صلاح الدین کا کہنا تھاکہ عدالت نے اسپیکر کے ووٹ مسترد کرنے کے اختیار پر واضح فیصلہ دے رکھا ہے،جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ اگر آپ کی بات مان لی جائے تو کیا اراکین اسمبلی ڈمی ہیں؟وکیل صلاح الدین نے کہاکہ اگر جلسے میں اراکین بیٹھے ہیں اور کہا جاتا ہے فلاں کو اسپورٹ کرنا ہے تو کیا یہ پارلیمانی پارٹی کا اجلاس تصور ہو گا؟ عوام ماڈل ٹان کے شریفوں کے معجزے  اور گجرات کے چوہدری کا شاندار ماضی دیکھ چکے،حمزہ وزیراعلی بنیں یا پرویز الہی،آسمان نہیں گرے گا، بیرسٹر صلاح الدین نے کہاکہ عوام میں تاثر گیا کہ اہم سیاسی معاملات پر چند جج فیصلہ کرتے ہیں تو آسمان لازمی گرے گااس لئے استدعا ہوگی عدالت 63 اے سے متعلق معاملات پر فل کورٹ بنا دے۔ فل کورٹ معاملے سے متعلق دلائل کااختتام ہوا تو عدالت نے سماعت میں 15 منٹ کادوسرا وقفہ کر دیاوقفے کے بعد سماعت کا آغاز ہواتو سپریم کورٹ نے وزیر اعلی پنجاب کے انتخاب پر ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے خلاف سماعت کے لیے فل کورٹ کی تشکیل دینے کی حکومتی اتحاد کی درخواستیں مسترد کردیں۔عدالت نے مختصر فیصلہ سناتے ہوئے عدالت نے کہا کہ فل بینچ بنانے کی تمام درخواستیں مسترد کی جاتی ہیں اور تین رکنی بینچ آج منگل دن 11:30 بجے سماعت کرے گا ۔