- یقین دہانی عمران خان کی جانب سے وکلا نے دی تھی،چیف جسٹس عمرعطابندیال
- بابر اعوان، فیصل چوہدری نے یقین دہانی کرائی تھی سڑکیں بلاک ہوں گی نہ مختص مقام سے آگے جائینگے، ایڈیشنل اٹارنی جنرل
- عمران خان کے جواب کا جائزہ لے کر طے کریں گے کہ توہین عدالت کا نوٹس جاری کرنا ہے نہیں،چیف جسٹس ، 31سماعت اکتوبر تک ملتوی
اسلام آباد (ویب نیوز)
سپریم کورٹ آف پاکستان نے وفاقی حکومت کی پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی جانب سے جہاد قرار دیئے گئے منظم لانگ مارچ سے روکنے کے لیے عبوری حکم جاری کرنے کی درخواست ایک بار پھر مسترد کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم سے توہین عدالت کیس میں جواب طلب کرلیا۔ عمران خان کے خلاف آزادی مارچ کے حوالے سے عدالتی حکم کی مبینہ خلاف ورزی کرنے پر وفاقی حکومت کی جانب سے دائر توہین عدالت کی درخواست پر سپریم کورٹ میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمرعطابندیال کی سر براہی میں 5 رکنی بنچ نے درخواست پر سماعت کی ۔ سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمن نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ پولیس اور حساس اداوں کی رپورٹس کا جائزہ لیا ہے پولیس آئی ایس آئی اور آئی بی رپورٹس پر ہی سب اداروں کا انحصار ہے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت کا پہلا سوال تھا کہ عمران خان نے ڈی چوک آنے کی کال کب دی تھی، عدالتی حکم 25 مئی کو شام 6 بجے آیا تھا، عمران خان کے 6 بجکر 50 منٹ پر ڈی چوک کا اعلان کیا،عمران خان نے دوسرا اعلان 9 بجکر 54 منٹ پر کیا، پی ٹی آئی نے سرینگر ہائی وے پر دھرنے کی درخواست دی تھی۔عامر رحمن نے کہا کہ عمران خان نے عدالتی حکم سے پہلے بھی ڈی چوک جانے کا اعلان کیا تھا، عمران خان کے بعد شیری مزاری،فواد چوہدری،صداقت عباسی نے بھی ڈی چوک کی کال دی، عثمان ڈار ،شہباز گل اور سیف اللہ نیازی نے بھی ڈی چوک کی کال دی، عمران خان کی ڈی چوک کال توہین عدالت ہے۔عامر رحمن نے اپنے دلائل میں کہا کہ 26 مئی کو صبح جناح ایونیو پر 6 بجے ریلی ختم کی گی، عمران خان مختص جگہ سے گزر کر بلیو ایریا آئے اور ریلی ختم کی، مختص مقام ایچ نائن سے چار کلومیٹر آگئے آکر عمران خان نے ریلی ختم کی۔اس دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یقین دہانی عمران خان کی جانب سے وکلا نے دی تھی، عمران خان کے بیان سے لگتا ہے انہیں عدالتی حکم سے آگاہ کیا گیا، عمران خان نے کہا سپریم کورٹ نے رکاوٹیں ہٹانے کا کہا ہے، عمران خان کو کیا بتایا گیا اصل سوال یہ ہے، عمران خان آکر عدالت کو واضح کردیں کس نے کیا کہا تھا۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ بابر اعوان فیصل چوہدری نے عمران خان کی طرف یقین دہانی کروائی تھی، یقین دہانی کرائی گی تھی سڑکیں بلاک ہوں گی نہ مختص مقام سے آگے جائیں گے۔اس موقع پر سپریم کورٹ نے ریمارکس دیے کہ فی الحال توہین عدالت کا یا شوکاز نوٹس جاری نہیں کر رہے، عمران خان کا جواب آ جائے پھر جائزہ لینگے توہین عدالت ہوئی یا نہیں۔اس دوران سپریم کورٹ نے عمران خان، بابر اعوان اور فیصل چوہدری کو بھی نوٹس جاری کر تے ہوئے تحریری جواب طلب کرلیا۔سپریم کورٹ کی جانب سے دونوں رہنمائوں کو نوٹس عمران خان کی جانب سے 25 مئی کو یقین دہانی پر جاری کئے گئے ہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جائزہ لینا ہے کیا یقین دہانی ڈی چوک نہ آنے کی کرائی گئی تھی یا نہیں، حکومتی الزامات پر بھی عمران خان کا موقف سننا چاہتے ہیں۔عدالت عظمی نے توہین عدالت کا نوٹس جاری کرنے کی حکومتی استدعا مسترد کردی، اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ عمران خان کے جواب کا جائزہ لے کر طے کریں گے کہ توہین عدالت کا نوٹس جاری کرنا ہے نہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جائزہ لینا ہے کیا یقین دہانی ڈی چوک نہ آنے کی کرائی گئی تھی یا نہیں، حکومتی الزامات پر بھی عمران خان کا موقف سننا چاہتے ہیں۔اس دوران عدالت نے آئی ایس آئی، آئی بی اور اسلام آباد پولیس کی رپورٹ بھی فراہم کرنا کا حکم دیا، عدالت نے کہا کہ رپورٹ کی روشنی میں جواب جمع کروایا جائے۔عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کی عمران خان کو طلب کرنے کی استدعا بھی مسترد کردی، چیف جسٹس نے کہا کہ ہیڈ لائنز نہیں بنوانا چاہتے، مقاصد قانون کی حکمرانی قائم کرنا ہے۔ اس دوران بینچ کے ممبر جسٹس یحییٰ آفریدی نے بینچ کے دیگر ممبران سے اختلاف کیا، 4 ججز نے سابق وزیراعظم سے جواب طلب کیا جب کہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے عمران خان کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا۔اس کے ساتھ ہی عدالت نے درخواست پر مزید 31 اکتوبر تک ملتوی کردی۔