عدالت کو ڈرا نہیں رہا لیکن اگر 10 ارب ڈالر کا جرمانہ پڑگیا تو قوم ہی بھگتے گی،ایڈیشنل اٹارنی جنرل
دوبارہ ریکوڈک منصوبے کو تباہ ہونے نہیں دینا چاہتے،چیف جسٹس عمرعطا بندیال کے ریمارکس
اسلام آباد (ویب نیوز)
ریکوڈک صدارتی ریفرنس میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے کہا ہے کہ بلوچستان حکومت کوئی مضبوط اتھارٹی نہیں، حکومت ریکوڈک منصوبے کی نگرانی کے لیے سی پیک طرز کی اتھارٹی تشکیل دے، ریکوڈک منصوبے کو دوبارہ تباہ ہونے نہیں دینا چاہتے۔ جمعرات کو سپریم کورٹ میں ریکوڈک صدارتی ریفرنس پر چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ نے سماعت کی۔ چیف جسٹس نے حکومت کو ریکوڈک منصوبے پر باقاعدہ اتھارٹی بنانے اور حکومتی پالیسی وضع کرنے کا حکم دے دیا۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ریکوڈک منصوبے کا پچھلا معاہدہ مخصوص کمپنی کے لیے رولز میں نرمی دینے پر کالعدم ہوا، ریکوڈک منصوبے میں دی جانے والی چھوٹ اور رولز میں نرمی کو پالیسی کا حصہ بنایا جاسکتا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ اگر ایک بار پالیسی بن جائے گی تو عدالت کے لیے فیصلہ کرنے میں آسانی ہو گی، تمام بین الاقوامی سرمایہ کاروں کے لیے ملک کی یکساں پالیسی سے شفافیت آئے گی۔ایڈشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے کہا کہ ریکوڈک منصوبے میں 10 ارب ڈالر کی ملک کی سب سے بڑی سرمایہ کاری ہو رہی ہے، ریکوڈک منصوبے سے بین الاقوامی سرمایہ کاروں کی ہچکچاہٹ ختم ہوگی اور ملک میں سرمایہ آئے گا۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ابھی تک عدالت کو مطمئن نہیں کرسکے کہ ایک مخصوص کمپنی کے لیے حکومت نئی قانون سازی کیوں کر رہی ہے؟۔بار بار یہ کہہ کر ڈرایا جا رہا ہے کہ ریکوڈک منصوبہ 15 دسمبر تک طے نہ ہوا تو 10 ارب ڈالر کا بوجھ(جرمانہ)پڑ جائے گا۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت کو ڈرا نہیں رہا لیکن اگر 10 ارب ڈالر کا جرمانہ پڑگیا تو قوم ہی بھگتے گی، حکومت بلوچستان اس معاہدے میں برابر کی حصہ دار ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت بلوچستان کوئی بہت مضبوط اتھارٹی نہیں ہے، ریکوڈک معاہدہ اور اس کے بعد پورے منصوبے کی نگرانی کون کرے گا؟ سی پیک کی طرز کی ایک اتھارٹی بنائیں جو ریکوڈک منصوبے کا جائزہ لیتی رہے، دوبارہ ریکوڈک منصوبے کو تباہ ہونے نہیں دینا چاہتے۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ریکوڈک معاہدے میں ملک پر ابھی بھی 4.5ارب ڈالر کا بوجھ ہے، آپ ایک معاہدے کی آسانی کے لیے رولز میں نرمی کر سکتے ہیں لیکن اپنا معیار نہیں گرا سکتے، ریکوڈک سے ملحقہ علاقوں میں آبادی کے حقوق بھی متاثر نہیں ہونے چاہئیں۔بعد ازاں کیس کی سماعت 14 نومبر تک ملتوی کردی گئی۔