- بظاہر لانگ مارچ کے معاملے میں عدالت کی مداخلت قبل از وقت ہو گی، اگر آئینی خلاف ورزی کا خطرہ ہو تو عدلیہ مداخلت کرے گی،چیف جسٹس عمر عطا بندیال
- احتجاج کا حق لامحدود نہیں، آئینی حدود سے مشروط ہے، اگر صوبے اور وفاق کا رابطہ منقطع ہو جائے تو کیا عدالت مداخلت کر سکتی ہے؟،چیف جسٹس سپریم کورٹ
- غیر معمولی حالات میں ہی عدلیہ مداخلت کرسکتی ہے، کیا عدلیہ کی مداخلت سے انتظامیہ اور پارلیمنٹ کمزور نہیں ہو گی؟،جسٹس اطہرمن اللہ
- کیا آپ یہ سمجھتے ہیں انتظامیہ اتنی کمزور ہو گئی کہ لانگ مارچ کنٹرول نہیں کر سکتی؟اگر کوئی خلاف ورزی کرتا ہے تو ایگزیکٹیو کے پاس وسیع اختیارات ہیں، ریمارکس
- کیا کبھی باقی احتجاجوں کیخلاف آپ عدالتوں میں گئے ہیں؟ ایک مخصوص جماعت کے لانگ مارچ میں ہی عدالت کی مداخلت کیوں درکار ہے؟جسٹس عائشہ ملک
- پی ٹی آئی کو روات میں جلسے کا کہا تھا، انتظامیہ نے پی ٹی آئی سے بیانِ حلفی مانگا جو اب تک پر نہیں ہوا،ایڈیشنل اٹارنی جنرل
- وزیرآباد واقعہ سے پہلے پی ٹی آئی نے خون ریزی کی باتیں کیں، ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد جہانگیر جدون
اسلام آباد (ویب نیوز)
سپریم کورٹ آف پاکستان نے پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین، سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے لانگ مارچ کے خلاف سینیٹر کامران مرتضی کی درخواست غیر موثر ہونے پر نمٹا دی اور حکم دیا کہ اگر حالات خراب ہوئے تو نئی درخواست دائر کی جا سکتی ہے،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ بظاہر لانگ مارچ کے معاملے میں عدالت کی مداخلت قبل از وقت ہو گی، اگر آئینی خلاف ورزی کا خطرہ ہو تو عدلیہ مداخلت کرے گی،احتجاج کا حق لامحدود نہیں، آئینی حدود سے مشروط ہے، اگر صوبے اور وفاق کا رابطہ منقطع ہو جائے تو کیا عدالت مداخلت کر سکتی ہے؟ ۔چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں، جسٹس عائشہ ملک اورجسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے لانگ مارچ کے خلاف کامران مرتضیٰ کی درخواست کی سماعت کی ۔سپریم کورٹ کی جانب سے دورانِ سماعت استفسار کیا گیا کہ کیا عمران خان کے لانگ مارچ کے لئے جگہ کا تعین کیا گیا ہے؟ اس بارے میں انتظامیہ سے پوچھ کر عدالت کو آگاہ کیا جائے۔سپریم کورٹ نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو آدھے گھنٹے میں انتظامیہ سے پوچھ کر بتانے کا حکم دیا۔جمعیت علمائے اسلام پاکستان کے سینیٹر و ایڈووکیٹ کامران مرتضیٰ نے عدالت کو بتایا کہ 2 ہفتے سے عمران خان کا لانگ مارچ جاری ہے۔ فواد چوہدری کے مطابق جمعے یا ہفتے کو لانگ مارچ اسلام آباد پہنچے گا جس سے معاملاتِ زندگی متاثر ہو سکتے ہیں، لانگ مارچ پی ٹی آئی کا حق ہے لیکن اس سے عام آدمی کے حقوق متاثر نہیں ہونے چاہئیں۔جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ کیا حکومت نے احتجاج کو ریگولیٹ کرنے کا کوئی طریقہ کار بنایا ہے؟۔جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ انتظامیہ اتنی کمزور ہو گئی ہے کہ لانگ مارچ کنٹرول نہیں کر سکتی؟ یہ ایگزیکٹیو کا معاملہ ہے، ان سے ہی رجوع کریں، غیر معمولی حالات میں ہی عدلیہ مداخلت کر سکتی ہے، جب انتظامیہ کے پاس صورتِ حال کنٹرول کرنے کے وسیع اختیارات ہیں تو عدالت مداخلت کیوں کرے؟۔ سینیٹر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ بات اب بہت آگے جا چکی ہے، پی ٹی آئی کے لانگ مارچ پر فائرنگ سے ایک شخص کی جان گئی۔جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ پی ٹی آئی کا لانگ مارچ تو کافی دنوں سے چل رہا ہے، کیا آپ نے انتظامیہ سے رجوع کیا ہے؟ لانگ مارچ کے معاملے میں جلدی کیا ہے اور انتظامیہ کی غفلت کیا ہے؟۔چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ آپ نے درخواست میں ماضی کی خلاف ورزیوں کا ذکرکیا ہے، لانگ مارچ سیاسی مسئلہ ہے جس کا سیاسی حل ہو سکتا ہے، اس قسم کے مسائل میں مداخلت سے عدالت کے لیے عجیب صورتِ حال پیدا ہو جاتی ہے، آپ نے اپنی درخواست میں ایک آڈیو کا ذکر کیا ہے، اس آڈیو میں ہتھیار لانے کا ذکر ہے، آڈیو سچ ہے یا غلط لیکن اس سے امن و امان کی صورتِ حال خراب ہو سکتی ہے، کیا 25 مئی کے لانگ مارچ کے لوگوں کے پاس اسلحہ تھا؟ احتجاج کا حق لامحدود نہیں، آئینی حدود سے مشروط ہے، آپ کہہ رہے ہیں کہ لانگ مارچ ابھی پنجاب کی حدود میں ہے، کیا آپ نے پنجاب حکومت سے رابطہ کیا ہے؟ اگر صوبے اور وفاق کا رابطہ منقطع ہو جائے تو کیا عدالت مداخلت کر سکتی ہے؟۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ ایک سینیٹر ہیں، پارلیمنٹ کو مضبوط کریں۔سینیٹر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ میں ذاتی حیثیت میں عدالت آیا ہوں۔جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ کیسے مان لیں کہ آپ حکومت کا حصہ بھی ہیں اور ذاتی حیثیت میں آئے ہیں؟۔سینیٹر کامران مرتضیٰ نے جواب دیا کہ بظاہر لگتا ہے کہ انتظامیہ صورتِ حال کو کنٹرول نہیں کر سکتی۔چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ بظاہر لانگ مارچ کے معاملے میں عدالت کی مداخلت قبل از وقت ہو گی۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ چاہ رہے ہیں کہ سپریم کورٹ ڈپٹی کمشنر کا کردار ادا کرے؟۔جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ توہینِ عدالت کا معاملہ لارجر بینچ میں زیرِ التوا ہے، فریقین نے یقین دہانی کی خلاف ورزی پر جواب دینا ہے، کیا آپ چاہتے ہیں کہ یہ بینچ الگ سے لانگ مارچ کے معاملے میں مداخلت کرے؟۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ لانگ مارچ کا معاملہ تو اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھی زیرِ التوا ہے۔چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے کامران مرتضیٰ سے سوال کیا کہ پی ٹی آئی کے 25 مئی کے جلسے کے لئے ایچ نائن گرائونڈ کے لئے درخواست دی گئی تھی، انتظامیہ نے ایچ نائن گرائونڈ دینے سے انکار کیا تو سپریم کورٹ نے مداخلت کی، ایچ نائن گرائونڈ مختص ہونے کے باوجود ہجوم ڈی چوک چلا آیا، کیا آپ اس بات سے خائف ہیں کہ 25 مئی والا واقعہ دوبارہ ہو سکتا ہے؟۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اگر کوئی خلاف ورزی کرتا ہے تو ایگزیکٹیو کے پاس وسیع اختیارات ہیں۔چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ آپ کے مطابق تو ایگزیکٹیو کے اختیارات 27 کلومیٹر تک محدود ہیں۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کیا عدلیہ کی مداخلت سے انتظامیہ اور پارلیمنٹ کمزور نہیں ہو گی؟۔جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ انتظامیہ کو متحرک کریں کہ وہ اپنا کردار ادا کرے، آئے روز اسلام آباد میں پارلیمنٹ سمیت کئی جگہوں پر احتجاج ہوتے ہیں، کیا کبھی باقی احتجاجوں کے خلاف آپ عدالتوں میں گئے ہیں؟ ایک مخصوص جماعت کے لانگ مارچ میں ہی عدالت کی مداخلت کیوں درکار ہے؟۔کامران مرتضیٰ نے جواب دیا کہ لانگ مارچ کی وجہ سے ایک پورا صوبہ مفلوج رہا ہے۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ مفروضے کی بنیاد پر ہمارے پاس آئے ہیں، کیا انتظامیہ نے پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کے لئے جگہ کے حوالے سے کوئی فیصلہ کیا ہے؟۔عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمن کو روسٹرم پر بلا لیا۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمن نے عدالت کو بتایا کہ انتظامیہ نے پی ٹی آئی کو روات میں جلسے کا کہا تھا، انتظامیہ نے پی ٹی آئی سے بیانِ حلفی مانگا جو اب تک پر نہیں ہوا، اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھی یہ معاملہ چل رہا ہے، آدھا گھنٹہ دیں تو انتظامیہ سے معلومات لے لیتا ہوں۔چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمرعطابندیال نے کہا کہ اگر واضح طور پر آئینی خلاف ورزی کا خطرہ ہو تو عدلیہ مداخلت کرے گی۔کامران مرتضیٰ نے کہا کہ درخواست میں ماضی کی آئینی خلاف ورزیوں کا حوالہ بھی موجود ہے۔چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ خلاف ورزیوں پر دوسرے فریق کا اپنا موقف ہو، سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی پر عدالت کے لئے معاملہ پیچیدہ ہو جاتا ہے، اس موقع پر ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد جہانگیر جدون سپریم کورٹ میں آگئے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ لانگ مارچ کے حوالے سے انتظامیہ نے کیا کیا ہے؟ ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ انتظامیہ کو اسلام آباد میں لانگ مارچ کے لئے پی ٹی آئی کا خط موصول ہوا تھا۔ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ انتظامیہ نے پی ٹی آئی سے تاریخ، وقت اور جگہ کے متعلق پوچھا تھا جس کا جواب نہیں دیا گیا۔ وزیرآباد واقعہ سے پہلے پی ٹی آئی نے خوں ریزی کی باتیں کیں۔ وزیرآباد واقعہ کے بعد انتظامیہ نے پی ٹی آئی کو اسلام آباد داخلے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ اسلام آباد میں جلسے کی اجازت پر کیس اسلام آباد ہائیکورٹ میں زیر التوا ہے۔عدالت کے حکم عمل درآمد کے لئے ہوتے ہیںجس کے بعد عدالت نے سماعت میں مختصر وقفہ کر دیا۔ وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو جسٹس اطہر من اللہ نے کامران مرتضیٰ کوکہا کہ آپ کی درخواست غیر موثر ہو چکی ہے۔ کامران مرتضی نے کہا کہ جو جے یو آئی کے ساتھ رویہ تھا، وہی رویہ چاہتے ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ حکومت احتجاج کو کسی بھی جگہ روک سکتی ہے ۔مختصر وقفہ ختم ہونے کے بعد سپریم کورٹ آف پاکستان نے دوبارہ سماعت کرتے ہوئے عمران خان کے لانگ مارچ کے خلاف درخواست غیر موثر ہونے پر نمٹا دی اور حکم دیا کہ اگر حالات خراب ہوئے تو نئی درخواست دائر کی جا سکتی ہے۔