پولیس جبر کی علامت بن کر رہ گئی ہے۔ سینیٹ کمیٹی داخلہ
حراستی تشدد و موت کے نئے قانون رولز بنانے کے لئے وزارت داخلہ نے تاحال کام ہی شروع نہیں کیا، قائمہ کمیٹی میں انکشاف
2022کے پولیس آرڈرپر عملدرآمد کی بجائے برطانوی دور کے قوانین پر عمل کیا جارہا ہے کمیٹی
تھانوں میں بنیادی حقوق سمیت حراستی تشدد کی سزا کے قانون کو اردومیں آویزاں کرنے کی ہدایت کردی ،
کم عمر قیدیوں کے جونئیل جسٹس ایکٹ پر عملدرآمد نہ ہونے کا بھی اانکشاف
اسلام آباد (ویب نیوز)
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی انسانی حقوق میں انکشاف ہوا ہے کہ حراستی تشدد اور موت سے متعلق نئے قانون پر علمدرآمدکے لئے وزارت داخلہ نے تاحال رولز بنانے کا کام ہی شروع نہیں کیا، 2022کے پولیس آرڈرپر عملدرآمد کی بجائے برطانوی دور کے قوانین پر عمل کیا جارہا ہے، بعض ارکان نے کہا ہے کہ پولیس جبر کی علامت بن کر رہ گئی ہے جب کہ اسلام آباد پولیس کو تو ،رول ماڈل ہونا چاہیئے تھا یہاں تو خود پولیس اہلکار کم عمر بچوں کی غیر قانونی گرفتاری اور تشدد میں ملوث ہیں، قائمہ کمیٹی نے فوری طور پر آئی جی پولیسکو اصلاح احوال اور تھانوں میں عوام کے بنیادی حقوق سمیت حراستی تشدد کی سزا کے قانون کو اردومیں آویزاں کرنے کی ہدایت کردی ،جب کہ جونئیل جسٹس ایکٹ پر عملدرآمد نہ ہونے کا بھی انکشاف ہو ا ہے ، کم عمر بچوں پر تشدد کرنے والے ایس ایچ او کی کمیٹی میں پیشی ہوگئی اس کی تنزلی کردی گئی ہے۔ سینیٹر ولید اقبال کی زیر صدارت پیر کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کا اجلاس پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا۔ ایمان زینب حاضر اور سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر کی جانب سے 7-10-2022 کو تھانہ G-9 کے ایس ایچ او کی جانب سے دو کمسن لڑکوں کو غیر آئینی اور غیر قانونی پولیس حراست میں رکھنے کے دوران تشدد کا نشانہ بنانے کے حوالے سے موصول ہونے والی عوامی پٹیشن پر غور کیا گیا ۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ کمیٹی ہر صورت درخواست گزار کی شکایات کو سنے گی تاکہ ادارہ جاتی بحالی اور ایسے معاملات کو روکنے کے لیے پالیسی گائیڈ لائن دی جا سکے۔کمیٹی نے زیر حراست تشدد کے بارے میں قومی کمیشن انسانی حقوق کی تجویز کردہ سفارشات کا جائزہ لیا۔ کمیٹی کے اراکین نے این سی آر سی، ایف آئی اے اور محکمہ پولیس کے ساتھ مل کر بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے خاتمے کے لیے اپنی تجاویز اور تجاویز پیش کیں۔ چیئرپرسن این سی آر سی نے سینیٹ کمیٹی پر زور دیا کہ وہ بچوں کے حقوق سے متعلق قومی کمیشن کی انکوائری رپورٹ کا جائزہ لے ۔ سینیٹ کمیٹی کی جانب سے رپورٹ کے نتائج، سفارشات اور اصلاحات پر عمل درآمد کے لیے بالخصوص آئی جی آفس کو ہدایات دے دیں۔ یہ سفارشات وزارت انسانی حقوق کو بااختیار بنانے اور قوانین کو زیادہ مضبوط طریقے سے نافذ کرنے اور فراہم کرنے کے لیے دی گئی ہیں۔ کمیٹی نے ہدایت کی کہ نیا نافذ کردہ قانون "ٹارچر اینڈ کسٹوڈیل ڈیتھ (روک تھام اور سزا) ایکٹ، 2022” کے فوری طورپر رولز بنائے جائیں ۔کمیٹی نے خاص طور پر پولیس آرڈر 2002 کے اطلاق نہ ہونے پر اظہار تشویش کیا ہے اور عمل درآمد کے سیکرٹری داخلہ، قانون و انصاف کو ہدایات جاری کردیں ہیں یہ بھی ہدیات کی گئی ہے کہ ایگزیکٹو کو عدلیہ سے الگ کرنے کے لیے اقدامات کرتے ہوئے اس ضمن میں کوڈ آف کرمنل پروسیجر (ترمیمی) ایکٹ کا نوٹیفکیشن پیش کیا جائے ۔ جووینائل جسٹس سسٹم ایکٹ 2018 کے قواعد بنانے اور ان کوتھانوں میں آویزاں کرنے کی ہدایت کی گئی ہے کمیٹی نے تنزلی پانے والے اے ایس آئی کی طرف سے کم عمر بچوں پر تشدد سے متعلق ایمان زینب حاضر سے دونوں وڈیوز بھی آئندہ اجلاس میں پیش کرنے کی ہدایت کی ہے اور کہا ہے کہ ایسے لوگوں کو پولیس نہیں رکھنا چاہیے اسلام آباد پولیس کی تھانوں میں انسانی حقوق کی پائمالی کے معاملے میں کاروائی کے زیروٹالرنس پالیسی ہونی چاہیئے ۔ سینیٹر محمد اعظم خان سواتی کی سابقہ گرفتاری کے موقع پر وفاقی تحقیقاتی ادارے کی تحویل میں ہونے کے دوران ان پر لگائے گئے الزامات کے معاملے کو موخر کر دیا اور ہدایت کی کہ یہ معاملہ سینیٹر کی موجودگی میں اٹھایا جائے گا جو اس وقت زیر حراست ہیں۔پمزکے ڈائریکٹر میڈیک بورڈ کے ارکان کے ہمراہ پیش ہوئے اور انکشاف کیا کہ ہمیں ہمیں اعظم سواتی کے طبی معائنہ کے لئے بورڈ بنانے کے ضمن میں صرف پانچ منٹ دیئے گئے پمزمیں سب سے زیادہ مشکل کام بورڈ کی تشکیل رہ گیا جس کو نامزدکریں وہ معذرت کرتا ہے ا س کو گھر سے لاناپڑتا ہے کیونکہ ارکان کو پھر جگہ جگہ پیش ہونا پڑتا ہے ۔ ڈائریکٹر انتظامیہ پمز نے بتایا کہ گزشتہ روز بھی پمز انتظامیہ کے علم میں لائے بغیر طبی معائنہ کروایا گیا جب کہ پہلے سئینیرترین ڈاکٹرز سے نہ صرف معائنہ کیا بلکہ سر سے پاوں تک اعظم سواتی کے ایکسرے بھی کئے گئے ۔اور وہ جسمانی زہنی طورپر صحت مند پائے گئے ، کمیٹی رکن ڈاکٹر سینیٹر ہمایوں خان اور ڈاکٹرمہرتاج روغانی نے کہا کہ اعظم سواتی کے جسم کے تمام حصوں کا معائنہ ضروری تھا کمیٹی نے اس معاملے کو کمیٹی میں اعظم سواتی کے پیش ہونے تک موخرکردیا۔