17 دسمبر کو پنجاب، خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل کرنے کی تاریخ دوں گا، عمران خان

پی ٹی آئی اراکین استعفوں کی تصدیق کیلیے اسپیکر کے سامنے پیش ہوں گے

کسی سے کوئی مدد نہیں مانگ رہا، میں یہ چاہ رہا ہوں کہ اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل ہو اور ان کا وقار اوپر جائے

جنرل(ر) باجوہ کے دور میں اسٹیبلشمنٹ اور عوام کے درمیان فاصلے بڑھے

سابق آرمی چیف نے پاکستان کے ساتھ وہ کیا جو دشمن بھی نہیں کر سکتا تھا،مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو این آر او ٹو جنرل(ر) باجوہ نے دیا

سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین کا نوجوانوں سے ویڈیو خطاب

لاہور(صباح نیوز)سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ میں نے مشاورت مکمل کر لی ہے، انشا اللہ 17 تاریخ کو لبرٹی چوک پر پارٹی کا بڑا اجتماع ہو رہا ہے، وہاں پر اپنے خطاب میں تاریخ دوں گا کہ ہم کب پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیاں تحلیل کریں گے، اور انتخابات کا اعلان کریں گے۔کسی سے کوئی مدد نہیں مانگ رہا، میں یہ چاہ رہا ہوں کہ اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل ہو اور ان کا وقار اوپر جائے، جنرل(ر) باجوہ کے دور میں اسٹیبلشمنٹ اور عوام کے درمیان فاصلے بڑھے، سابق آرمی چیف نے پاکستان کے ساتھ وہ کیا جو دشمن بھی نہیں کر سکتا تھا، مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کو این آر او ٹو جنرل(ر)باجوہ نے دیا۔نوجوانوں سے ویڈیو خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ غالبا ہمارے 125 ارکین قومی اسمبلی ہیں، جن کے استعفے انہوں نے ابھی تک قبول نہیں کیے، ہم قومی اسمبلی میں اسپیکر کے سامنے کھڑے ہو کر کہیں گے کہ ہمارے استعفے قبول کرو تاکہ ہم قومی اسمبلی سے بھی نکلیں، پھر تقریبا 70 فیصد پاکستان میں انتخابات ہوں گے۔ان کا کہنا تھا کہ قانون کہتا ہے کہ اسمبلیاں تحلیل کرنے کے 90 دن کے بعد انتخابات ہوں گے، یہ سمجھ لیں کہ 17 دسمبر کو تاریخ دوں گا، اس کے بعد ہمارے 70 فیصد پاکستان الیکشن میں چلا جائے گا۔عمران خان نے ایک بار پھر اپنی بات دہراتے ہوئے کہا کہ عقل کہتی ہے کہ اگر 70 فیصد ملک میں الیکشن ہو رہا ہے تو پھر ملک میں انتخابات کروا دیں، لیکن بدقسمتی ہے کہ جرائم پیشہ لوگ بیٹھے ہوئے ہیں، انہیں قوم کی فکر نہیں ہے، ان کی دولت ملک سے باہر پڑی ہوئی ہے، روپیہ گرتا ہے تو ان کی دولت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ جب بھی مشکل وقت آئے گا، یہ پھر بوریا بستر اٹھا کر باہر چلے جائیں گے، جدھر یہ بڑے آرام سے زندگی گزار رہے ہیں، ان کا مقصد صرف یہ ہے کہ ان کے کرپشن کیسز معاف ہوں، جیسے جنرل (ر) پرویز مشرف نے سلیٹ صاف کی تھی، اب سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کی بدولت ان کی سلیٹ صاف ہو گی۔عمران خان نے کہا کہ اس کے بعد پھر یہ امید لگا کر بیٹھے ہوئے ہیں کہ ملک کو لوٹنے کے لیے ان کا راونڈ تھری آئے گا، اس لیے ان کو الیکشن کروانے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے، انہیں ڈر ہے کہ اگر الیکشن کروائے تو یہ ہار جائیں گے، پھر سے ان کے کرپشن کیسز سامنے آ جائیں گے، اس لیے ان کے مفادات اور پاکستان کے مفادات مختلف ہیں، قوم کا مفاد یہ ہے کہ ملک میں فوری طور پر الیکشن کروائے جائیں۔انہوں نے کہا کہ آج میں نے اپنی سینئر رہنماوں کا اجلاس کیا ہے، ہم نے بڑے اہم مسائل پر تبادلہ خیال کیا ہے کہ ہمارا ملک کدھر جا رہا ہے۔عمران خان نے کہا کہ ایشوز اس سطح پر پہنچ چکے ہیں کہ اگر ہم نے ان کے اوپر ایکشن نہ لیے تو آگے ہمارے ملک کو بہت بڑا نقصان ہوسکتا ہے، سب سے پہلا ایشو یہ ہے کہ جو آج پاکستان میں ہو رہا ہے، جس شرمناک طریقے سے بڑے بڑے ڈاکوں کے کیسز معاف کیے جارہے ہیں، ایسی چیزیں بنانا ری پبلک میں بھی ایسی چیزیں نہیں دیکھیں۔سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ کوئی دنیا میں ایسا ملک بتا دیں، جس میں قانون کی حکمرانی نہ ہو اور وہ خوشحال ہو، اور کوئی ملک ایسا بتا دیں کہ جدھر انصاف اور قانون کی حکمرانی ہو اور وہ غریب ہو، یہ دنیا میں کہیں نہیں ملے گا۔انہوں نے کہا کہ ہماری معیشت اسی لیے تباہی کی طرف جا رہی ہے کیونکہ ہمارے ملک میں انصاف نہیں ہے، میں نے اپنی زندگی میں اس طرح کا ظلم نہیں دیکھا جو آج ہو رہا ہے، جن پر کرپشن کے کیسز تھے اور وہ ملک سے بھاگے ہوئے تھے، آج وہ باری باری واپس آ رہے ہیں، ان کے سارے کیسز ختم ہو رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ جیو گروپ کے خلاف دبئی، امریکا اور برطانیہ میں بھی مقدمہ کرنے کے جارہے ہیں۔عمران خان نے الزام عائد کہا کہ بیرون ملک کی متعدد کتابوں میں ان لوگوں کی کرپشن پر لکھا گیا ہوا ہے، بی بی سی نے شریف اور زرداری خاندان کی چوری پر ڈاکومینٹریز بنائی ہوئی ہیں، ان ساروں کو این آر او (2) دے کر پاک کیا جا رہا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ افسوس کی بات ہے کہ سلمان شہباز واپس آتا ہے، اس کو ہار پہنائے جاتے ہیں، اس کے بعد وہ پریس کانفرنس کرتا ہے کہ سلمان شہباز پر کتنا ظلم ہو گیا، سلمان شہباز، پہلے تو یہ بتا کہ رمضان شوگر ملز میں نوکروں کے بینک اکانٹ میں کیسے 16 ارب روپے آ گئے تھے۔عمران خان نے سلمان شہباز کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ پھر یہ بتاو کہ 4 گواہ دل کا دورہ پڑنے سے مرے ہیں، اور جو ڈاکٹر رضوان اس کیس کی تفتیش کررہا تھا وہ بھی ہارٹ اٹیک سے مرا، نیٹ فلکس پر پروگرام دیکھ لیں، اس میں بتایا گیا ہے کہ کیسے ایک نرس نے کتنے لوگوں کو مارا تھا، جو ہسپتال میں داخل تھے، صرف ان میں انسولین انجیکٹ کرتے تھے، اس سے ہارٹ اٹیک ہو جاتا تھا اور پتا بھی نہیں چلتا تھا، پتا کرنے کی کوشش تو کریں کہ کیسے ایک دم سارے لوگوں کو دل کا دورہ پڑا، اور جب وہ لوگ مر گئے ہیں تو یہ سارے واپس آگئے، اور پھر کہتے ہیں کہ بہت بڑا بے قصور آدمی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ بڑا افسوس ہوا کہ آصف زرداری کی بہن فریال تالپور کے کیس بھی معاف ہو گئے، اب یہ سب لوگ بچ جائیں گے۔چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ پاکستان میں اس لیے قبضہ گروپس ہیں کیونکہ قانون کی حکمرانی نہیں ہے، اسی طرح لندن، امریکا و دیگر ممالک میں قبضے نہیں ہوتے کیونکہ وہاں پر قانون کی حکمرانی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ معیشت کا سب سے پہلا اصول ہے کہ سیاسی استحکام ہو، معیشت کبھی بھی اس معاشرے میں نہیں چل سکتی، جب لوگوں کو اعتماد ہی نہ ہو کہ اگر میں آج پیسا لگاتا ہوں تو کل، پرسوں، 6 مہینے بعد کیا ہوگا، جب معاشرے میں غیر یقینی کی صورتحال ہوگی، تو سرمایہ کاری نہیں آتی۔عمران خان نے دعوی کیا کہ پاکستان کا کریڈٹ رسک کا 100 فیصد ہو چکا ہے، اگر کوئی پاکستان کو کوئی قرضہ دے گا تو اس کے واپس ادا نہ کرنے کے چانسز 100 فیصد تک پہنچ گیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اگر کسی پر قرضہ ہے تو وہ آمدنی بڑھا کر واپس کرتاہے، جب آمدنی سکڑتی جا رہی ہے تو ہم نے قرضے کیسے واپس کرنے ہیں، حکومت کے پاس تو کوئی پلان نہیں ہے۔چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ میں آج پاکستان کے سارے اداروں سے بات کررہا ہوں، یہ جو ہونے جارہا ہے، یہ آپ سب پر اثر ڈالے گا، کوئی ادارہ جزیرہ نہیں ہے کہ ملک نیچے جارہا ہو، وہ جزیرہ بچ جائے گا، سارا ملک ہی نیچے جائے گا۔ان کا کہنا تھا کہ مجھے ایسا لگتا ہے کہ ہمارے ملک سے یہ ایک سازش کے تحت ہوا ہے، جس طرح کوئی پلان کرکے ہمارے ملک کو اس طرف لے کر جارہا ہے، اگر خدانخواستہ ملک ڈیفالٹ کر جائے، اس کے بعد سب سے پہلے ملک کی قومی سلامتی متاثر ہوگی، سب جانتے ہیں کہ ہمارا پڑوسی ملک جو ہم سے 7 گنا بڑا ملک ہے، جس کے ساتھ ہماری تین جنگیں ہو چکی ہیں۔سابق وزیراعظم نے کہا کہ ہمیں اعتماد یہ ہے کہ ہمارے پاس ایسا ہتھیار ہے کہ جس کی وجہ سے کوئی ہم پر حملہ نہیں کرے گا، اگر ملک ہی بینک کرپٹ ہو گیا تو جو لوگ ہمیں بیل آٹ کریں گے، وہ کیا قیمت مانگیں گے؟ ہم سب جانتے ہیں کہ وہ کیا قیمت مانگیں گے۔عمران خان نے مزید کہا کہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ تاثر دیا جارہا ہے کہ جناب ہم چاہتے ہیں کہ ملک کی اسٹیبلشمنٹ ہماری مدد کرے، جب ہمارے خلاف دھرنے دیے جارہے تھے، تو پی ڈی ایم کی جماعتیں کہہ رہی تھیں کہ ہماری مدد کریں، میں کسی سے کوئی مدد نہیں مانگ رہا، میں قطعی یہ نہیں کہہ رہا ہے کہ اسٹیبشلمنٹ ہماری مدد کرے، میں یہ چاہ رہا ہوں کہ اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل ہو۔ان کا کہنا تھا کہ میں اس لیے چاہتا ہوں کہ اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل ہو کہ اسٹیبلشمنٹ کا وقار اوپر جائے، اس ملک کو مضبوط فوج کے ادارے کی ضرورت ہے، میں آزاد آدمی ہوں، آزاد ملک میں رہنا چاہتا ہوں، کسی صورت یہ نہیں چاہتا کہ فوج کمزور ہو اور ہماری آزادی چلی جائے، پاکستان کے مفاد میں ہے کہ فوج کا ادارہ مضبوط ہو، اور وہ اس وقت ہوگا، جب وہ نیوٹرل ہو، وہ مداخلت نہ کرے، جنرل (ر) باجوہ نے جس طرح بے دردی سے ہماری سیاست میں کیا۔عمران خان نے کہا کہ ہمارے ساتھ کھلی دشمنی کی گئی، جو ہماری حمایت کرتا تھا، اس کے خلاف ایکشن کیا جاتا تھا، لوگوں کو کہا کہ عمران خان کے خلاف بیانات دو، توشہ خانہ کیس کے پیچھے کون تھا؟ کون لوگوں کو پکڑ پکڑ کے بیانات دلوا رہا تھا۔اعظم سواتی کو ٹویٹ پر اتنی بڑی سزا دی گئی، ان کو برہنہ کیا گیا۔  انہوں نے کہا کہ ہم مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں تو یہاں کیا ہورہا ہے، اعلی عدلیہ اگر ہمارے انسانی حقوق کی حفاظت نہیں کرے گی تو کون کرے گا؟ میں اور ارشد شریف کی والدہ اپنی ایف آئی آر نہیں کٹوا سکتے، ہم مشرف پر تنقید کرتے تھے تو مطلب فوج پرتنقید نہیں تھی، جنرل باجوہ پر تنقید کا مطلب فوج پر تنقید نہیں، عوام فوج سے پیار کرتے ہیں، باجوہ نے پاکستان کے ساتھ وہ کیا جو دشمن نہیں کر سکتا تھا، آج پاکستان کی معیشت زمین پر چلی گئی، میرا منہ بند کرنے کے لیے قاتلانہ حملہ ہوا، جب تک زندہ ہوں آواز بلند کرتا رہونگا، اگر ادارے کے اندر کوئی کالی بھیڑیں ہوں تو ان کے خلاف ایکشن سے ادارے کا وقار بلند ہوتا ہے۔سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ 26 سالہ سیاسی زندگی میں چیف الیکشن کمشنر اور سندھ الیکشن کمشنر جیسا شخص نہیں دیکھا، سندھ کا الیکشن کمشنر سندھ حکومت کا ملازم ہے، سپریم جوڈیشل کونسل میں ہمارے کیس کو نہیں سنا جارہا، چیف الیکشن کمشنرکا ون پوائنٹ ایجنڈا مجھے نا اہل کرنا ہے، توشہ خانہ میں ہر چیز اخلاقی اور قانونی طور پر جائز کی، دوسرا فارن فنڈنگ کیس میں صحیح معنوں میں ہم نے فنڈ ریزنگ کی، پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) کے فارن فنڈنگ کے کیس پر چار سال سے کوئی فیصلہ نہیں ہورہا۔پی ٹی آئی چیئرمین نے کہا کہ تحریک انصاف نے چالیس ہزار ڈونرز کا حساب دیا، ہم انتظار کر رہے ہیں (ن) لیگ، پیپلز پارٹی فنڈنگ کیس کے فیصلے کا، توشہ خانہ کیس میں کسی قسم کا میں نے کوئی قانون نہیں توڑا، نواز شریف، زرداری نے توشہ خانہ میں ڈاکہ مارا، زرداری نے توشہ خانہ سے 3 اور ایک گاڑی نواز شریف نے نکالی، چیف الیکشن کمشنر توشہ خانہ سے گاڑیوں کا کیس کیوں نہیں کھولتا، کیا وجہ ہے چیف الیکشن کمشنر ہمارے خلاف فیصلہ دیتا ہے، توشہ خانہ سے گاڑیاں لینے کی اجازت نہیں ہے۔ان کا کہنا تھا کہ چیف الیکشن کمشنر کیخلاف ہم عدالت گئے ہمارے کیس ہی نہیں سنے جاتے، اگر پاکستان میں فری اینڈ فیئر الیکشن نہ کرائے گئے تو انتشار ہوگا، ملک کے حالات پہلے ہی بہت برے ہیں، چور میچ نہیں کھیل سکتے اور کسی طرح مجھے نا اہل کروانا چاہتا ہے، فوج، عدلیہ کو اگر ملک کی فکر ہے تو خدا کے واسطے ملک کو صاف اور شفاف الیکشن کی طرف لیکر جائیں اس کے علاوہ کوئی حل نہیں، کسی بھی ماہرین سے پوچھ الیکشن کے علاوہ راستہ نہیں۔

#/S