- امریکا میں آمدنی کو چھپانا منی لانڈرنگ میں نہیں آتا،سینیٹرسعدیہ عباسی
- چوری جرم، اس میں گرفتاری اور سزا ہے لیکن اس کو منی لانڈرنگ نہیں کہا جا سکتا ہے،فاروق ایچ نائیک
- اگر اینٹی منی لانڈرنگ والے قانون اپلائی ہوتے رہے تو ہم مزید نیچے چلے جائیں گے،چیئرمین سلیم مانڈوی والا
اسلام آباد (ویب نیوز)
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے ٹیکس کرائم کو منی لانڈرنگ میں شامل کرنے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی زیر صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس ہوا جس میں چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ایک کروڑ روپے کی ٹیکس چوری کو اینٹی منی لانڈرنگ میں ڈالنا درست نہیں ہے، ہم نے اس وقت بھی اس قانون سازی کی مخالفت کی تھی۔ڈی جی ایف اے ٹی ایف نے کہا کہ کرائم پروسیڈ کا فیصلہ کرنا متعلقہ ادارے کا کام ہے، فیٹف کی جانب سے کی گئی سفارشات کی روشنی میں یہ قانون سازی کی گئی ہے، منی لانڈرنگ پروسیڈ آف کرائم سے ہوگی جو ویانا کنونشن کے تحت منی لانڈرنگ میں آتا ہے، ایف بی آر کے 400 کیسز پر عدالتوں نے 200 کیسز کو اپ ہولڈ کیا، ستمبر میں ایف اے ٹی ایف کی ٹیم آئی وہ ممالک آپ کے حق میں نہیں تھے انہوں نے سراہا۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ٹیکس گزاروں کو یہ خوف ہوگا کہ ان کو منی لانڈرنگ کا نوٹس آسکتا ہے تو ٹیکس پیئرز میں کمی ہوگی۔ سینیٹر سعدیہ عباسی نے کہا کہ امریکا میں آمدنی کو چھپانا منی لانڈرنگ میں نہیں آتا۔سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ٹیکس چوری جرم ہے اس میں گرفتاری اور سزا ہے لیکن اس کو منی لانڈرنگ نہیں کہا جا سکتا ہے، منی لانڈرنگ کالے دھن کو سفید کرنا ہے اور ٹیکس چوری منی لانڈرنگ نہیں بنتی، اغوا کے معاملات کو بھی منی لانڈرنگ میں لایا جاتا ہے، جس پر سینیٹر سعدیہ عباسی نے کہا کہ پھر تو لاپتہ افراد کے کیسز کو بھی منی لانڈرنگ کے تحت ڈیل کرنا چاہیے۔ڈی جی فیٹف نے کہا کہ ہم بہت مشکل سے فیٹف گرے لسٹ سے نکلے ہیں، کوئی بھی ایسی سفارش جو عالمی ذمہ داریوں سے متضاد ہوگی اس سے ملک 10 سال پیچھے چلا جائے گا۔ سینیٹر سعدیہ عباسی نے کہا کہ آپ نے ضرور اس ملک کے لیے جہاد کیا ہوگا ہم بھی عوامی نمائندے ہیں، ہمیں بھی ملکی مفادات کا پتہ ہے اسی کے لیے ہم کام کر رہے ہیں، ہمیں ملکی مفادات پر لیکچر نہ دیا جائے۔ڈی جی فیٹف نے کہا کہ فیٹف قوانین پر عملدرآمد کے لیے ہم نے ان تھک محنت کی، ہم ایک سال تک سوئے نہیں، اگر اب دوبارہ معمولی سی بھی غلطی کرتے ہیں تو فیٹف کی گرے لسٹ میں چلے جائیں گے۔چیئرمین کمیٹی سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ ٹیکس ٹو جی ڈی پی کے اعتبار سے پاکستان پہلے سے ہی بہت پیچھے ہے، اگر اینٹی منی لانڈرنگ والے قانون اپلائی ہوتے رہے تو ہم مزید نیچے چلے جائیں گے، میرا ماننا ہے کہ ہم ٹیکس پیئر کو سہولیات دیں، اگر کسی کے اینٹی منی لانڈرنگ میں ملوث ہونے کے شواہد ملیں تب آملہ ایکٹ لاگو کرنا چاہیے۔چیئرمین ایف بی آر نے بتایا کہ 60 لاکھ روپے سے زائد کی ٹیکس چوری پر یہ قانون لاگو ہوتا ہے، اس ایکٹ کے تحت گزشتہ چھ سال میں 254 کیسز بنائے گئے۔ ڈی جی فیٹف نے کہا کہ 179 کیسز لاہور ہائیکورٹ میں گئے جس میں سے صرف 29 کیسز واپس ہوئے۔