عمران خان کو وزیرِ اعظم بنوانے میں جنرل باجوہ کا بڑا کردار تھا، ان پر تنقید مناسب نہیں: چودھری سرور
قمر جاوید باجوہ نے بجٹ منظوری سے لے کر اعتماد کے ووٹ تک ہر موقع پر عمران خان کی بھرپور مدد کی تھی
بزدار اور ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری عمران اسٹیبلشمنٹ اختلافات کی بنیاد بنے،عمران خان بغیر مشاورت فیصلے پارٹی پر مسلط کرتے ہیں
قبل از وقت عام انتخابات کا امکان نہیں ، الیکشن اپنے مقررہ وقت پر ہوں گے
سیاسی جماعت یا الگ دھڑا بنانے کا نہیں سوچ رہا،سابق گورنر پنجاب کا امریکی نشریاتی ادارے کو انٹرویو
پنجاب کے سابق گورنر کا سیاسی منظر نامے پر متحرک ہونا ‘رجیم چینج آپریشن’ کی ایک کڑی ہے،زلفی بخاری کا ردعمل
اسلام آباد ( ویب نیوز)
سابق گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور نے کہا ہے کہ عمران خان کے وزیرِ اعظم بننے میں سابق آرمی چیف کا بہت بڑا کردار رہا ہے۔ لہذا پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ پر تنقید مناسب نہیں ہے،قمر جاوید باجوہ نے بجٹ منظوری سے لے کر اعتماد کے ووٹ تک ہر موقع پر عمران خان کی بھرپور مدد کی تھی،’بزدار اور ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری عمران، اسٹیبلشمنٹ کے درمیان اختلافات کی بنیاد بنے،عمران خان بغیر مشاورت فیصلے پارٹی پر مسلط کرتے ہیں۔اسلام آباد میں امریکی نشتریاتی ادارے( وائس آف امریکہ) کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میںسابق گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور کا کہنا تھا کہ یہ مناسب رویہ نہیں ہے کہ میں کل تک عمران خان کے ساتھ تھا اور آج جب میں گورنر نہیں رہا تو ان کی ذات پر تنقید شروع کردوں۔ چوہدری سرور کا کہنا تھاکہ "میں سمجھتا ہوں کہ ٹکر اس وقت لینی چاہیے جب آپ اقتدار میں ہوں اور جب آپ اقتدار میں نہیں تو لڑائی ختم کردینی چاہیے۔”چوہدری سرور نے کہا کہ عمران خان نے انہیں گورنر شپ سے ہٹا دیا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ عمران خان کی ذات پر حملے شروع کردیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ مسائل پر بات کرتے ہیں اور پی ٹی آئی کی خامیوں کو بھی سامنے لاتے ہیں لیکن ذاتی حملے نہیں کیے جانے چاہئیں۔سابق گورنر کا کہنا ہے کہ جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ نے بجٹ منظوری سے لے کر اعتماد کے ووٹ تک ہر موقع پر عمران خان کی بھرپور مدد کی۔ انہوں نے کہا کہ سعودی عرب سے تعلقات میں تنا وپیدا ہوا تو فوج نے ہی دونوں ملکوں کے تعلقات کو بحال کروایا۔اسٹیبلشمنٹ کے سیاست میں کردار کے حوالے سے چوہدری سرور نے کہا کہ حالیہ عرصے میں فوج کا سیاست میں کردار دکھائی نہیں دیا۔ ان کے بقول "ایسی چیز نہیں دیکھی کہ کہہ سکوں کہ وہ (فوج) کردار ادا کررہی ہے۔ میرے خیال میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار ختم ہوگیا ہے اور ہونا بھی چاہیے۔”عمران خان اور جنرل(ر) قمر باجوہ کے درمیان اختلافات کی وجوہات پر بات کرتے ہوئے چوہدری سرور کہتے ہیں کہ ان کی نظر میں عمران خان کے فوجی اسٹیبلشمنٹ سے اختلافات کی دو وجوہات تھیں۔ ان میں وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار کی خراب کارکردگی کے باوجود ان کو برقرار رکھنا اور انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سربراہ کی تعیناتی کو تاخیر میں ڈالتے ہوئے متنازع بنانا شامل ہیں۔سابق گورنر نے کہا کہ ان کے علم میں ہے کہ عثمان بزدار کے وزیر اعلی بننے کے چند ماہ بعد ہی اسٹیبلشمنٹ کی عمران خان سے دوریاں پیدا ہونا شروع ہو گئی تھیں۔چوہدری سرور کا کہنا تھا کہ فوج بھی عثمان بزدار کی کارکردگی سے مطمئن نہیں تھی لیکن اس کے باجود انہیں ہٹایا نہیں گیا جس کی بنیاد پر فاصلے پیدا ہونا شروع ہوگئے۔انہوں نے کہا کہ یہ فاصلے اختلافات میں اس وقت بدل گئے جب عمران خان نے ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی میں تاخیر برتی جس سے وہ معاملہ متنازعہ بن گیا۔اس سوال پر کہ عمران خان تو کہتے ہیں کہ جنرل (ر) باجوہ کے ساتھ اختلافات بدعنوانی کے خلاف اقدامات لینے کی وجہ سے پیدا ہوئے؟ چوہدری سرور نے کہا کہ ساڑھے تین سال بطور گورنر کسی ایک اجلاس میں بھی یہ ذکر نہیں ہوا کہ سابق آرمی چیف بدعنوان افراد کے خلاف کارروائی میں رکاوٹ ہیں۔سابق گورنر پنجاب چوہدری سرور کہتے ہیں کہ پنجاب اسمبلی تحلیل نہیں ہو گی کیوں کہ وزیرِ اعلی اور صوبائی وزرا یہ نہیں چاہتے۔انہوں نے کہا کہ سب سے بڑا مسئلہ تحریکِ انصاف میں یہ ہے کہ عمران خان بغیر مشاورت کے فیصلہ کرلیتے ہیں اور پھر اسے جماعت پر نافذ کردیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کیوں کہ جماعت کے لوگوں کا ذہن وہ نہیں ہوتا جو عمران خان فیصلہ کرتے ہیں تو اس بنا پر اس پر عمل درآمد نہیں ہوپاتا ہے۔چوہدری سرور نے کہا کہ قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے کا فیصلہ ہو یا پنجاب اسمبلی کی تحلیل کا، اراکین اسمبلی کی اکثریت اس فیصلے کے خلاف تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ پارٹی رہنما عمران خان کے مزاج کو سمجھ گئے ہیں۔ لہذا وہ ان کے کسی فیصلے کی مخالفت تو نہیں کرتے لیکن ایسا راستہ اپناتے ہیں کہ اس پر عمل درآمد نہ ہو پائے۔چوہدری سرور نے کہا کہ پنجاب میں بلدیاتی نظام کے حوالے سے عمران خان براہ راست انتخابات چاہتے تھے لیکن چونکہ پی ٹی آئی کے رہنما یہ نہیں چاہتے تھے تو انہوں نے اس بارے میں اب تک قانون سازی ہی نہیں ہونے دی ہے۔اس سوال پر کہ کیا چوہدری پرویز الہی اسمبلی تحلیل کرنے کے فیصلے پر عمران خان کے ساتھ نہیں کھڑے ہوں گے؟ چوہدری سرور نے کہا کہ وزیر اعلی پنجاب کا موقف واضح ہے کہ وہ پنجاب اسمبلی کی تحلیل نہیں چاہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انہیں معلوم نہیں کہ پرویز الہی کیا راستہ لیں گے تاہم بظاہر وہ کہتے ہیں کہ اسمبلی تحلیل نہیں ہونی چاہیے۔چوہدری سرور نے کہا کہ ان کی نظر میں قبل از وقت عام انتخابات کا امکان نہیں ہے اور الیکشن اپنے مقررہ وقت پر ہوں گے۔اپنے سیاسی مستقبل کے حوالے سے بات کرتے ہوئے چوہدری سرور نے کہا کہ وہ سیاسی دوستوں کے ساتھ مشاورت میں ہیں کہ کسی سیاسی جماعت میں شامل ہونا ہے یا سیاست میں حصہ نہیں لینا ہے۔چوہدری سرور نے کہا کہ وہ الگ جماعت یا پی ٹی آئی کے ناراض اراکین کا دھڑا بنانے کا نہیں سوچ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ ان کے ہم خیال لوگ کسی ایک پلیٹ فارم یا سیاسی جماعت میں کام کریں جس سے ملک کی بہتری ہوسکے۔انہوں نے کہا کہ وہ اقتدار کے لیے پی ٹی آئی میں شامل نہیں ہوئے تھے بلکہ چاہتے تھے کہ جو تجربہ انہوں نے دنیا کی سب سے پرانی جمہوریت سے حاصل کیا اسے پاکستان کی سیاست میں منتقل کرسکیں تاہم وہ کہتے ہیں کہ بدقسمتی سے وہ اس میں ابھی تک کامیاب نہیں ہوسکے ہیں۔چوہدری سرور برطانوی ہاوس آف کامنز کی تاریخ کے پہلے مسلمان اور جنوب ایشائی رکن رہے ہیں اور وہ اپنی برطانوی شہریت ترک کر کے 2013 میں مسلم لیگ(ن )کے دورِ حکومت میں پہلی مرتبہ پنجاب کے گورنر بنے تھے۔البتہ وزیرِ اعلی پنجاب سے اختلافات کے باعث وہ جنوری 2015 میں گورنر شپ سے مستعفی ہو گئے تھے۔ بعدازاں انہوں نے پاکستان تحریکِ انصاف میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔ وہ کچھ عرصہ پنجاب سے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر سینیٹر رہنے کے بعد 2018 میں دوبارہ پنجاب کے گورنر بن گئے تھے۔لیکن گزشتہ برس تین اپریل کو عین اس روز جب قومی اسمبلی میں اس وقت کے وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد پر ووٹنگ ہونا تھی۔ عمران خان نے چوہدری سرور کو بطور گورنر برطرف کر دیا تھا۔چوہدری سرور کے انٹرویو پر ردِعمل دیتے ہوئے رہنما تحریکِ انصاف زلفی بخاری کا کہنا تھا کہ پنجاب کے سابق گورنر کا سیاسی منظر نامے پر متحرک ہونا ‘رجیم چینج آپریشن’ کی ایک کڑی ہے۔ایک بیان میں زلفی بخاری کا کہنا تھا کہ چوہدری سرور کو وہی بیانیہ زندہ کرنے کی ذمے داری سونپی گئی ہے جسے قوم رد کر چکی ہے۔زلفی بخاری کا مزید کہنا تھا کہ ردی کی ٹوکری میں سے نکال کر سیاست میں اتاری جانے والی کٹھ پتلیوں کا حال باہر سے بلوا کر حکومت میں بٹھائے جانے والے مجرموں سے مختلف نہیں ہوگا۔
#/S