وفاق کے وکیل کی کیس کی سماعت کیلئے لاہور ہائی کورٹ سے لارجر بینچ بنانے کی استدعا
اگر تاریخ کا اعلان ہو جائے اور الیکشن کمیشن اس پر عمل درآمد نہ کر سکے تو کیا ہو گا ؟، وکیل وفاقی حکومت
لاہور (ویب نیوز)
لاہور ہائیکورٹ نے پنجاب میں انتخابات کرانے کی درخواست میں گورنر پنجاب اور الیکشن کمیشن کو جمعہ کو جواب جمع کرانے کا حکم دے دیا،عدالت نے ریمارکس دئیے کہ کیس کا فیصلہ 13 فروری کی رات گئے تک سنا دیں گے۔وفاقی حکومت نے لاہور ہائی کورٹ سے پنجاب میں صوبائی اسمبلی کے الیکشن کی تاریخ کے لئے دائر درخواستوں کی سماعت کے لیے لارجر بینچ بنانے کی استدعا کردی۔لاہور ہائیکورٹ میں پنجاب میں انتخابات کروانے کی درخواست پر سماعت ہوئی، پی ٹی آئی رہنما اسد عمر، شہباز گِل، فواد چوہدری، سبطین خان اور اسلم اقبال کمرہ عدالت میں موجود تھے۔گورنر پنجاب بلیغ الرحمان کی جانب سے جمع کرائے گئے جواب میں کہا گیا ہے کہ جب گورنر اسمبلی تحلیل کرے تو الیکشن کی تاریخ دینا اس کی آئینی ذمے داری ہے، گورنر نے الیکشن کمیشن کے اختیار میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی۔گورنر پنجاب نے درخواست جرمانے کے ساتھ خارج کرنے کی استدعا کرتے ہوئے اپنے جواب میں مزید کہا ہے کہ درخواست گزار متاثرہ فریق نہیں ہے، گورنر آئین اور قانون کے مطابق فرائض انجام دے رہے ہیں۔ جسٹس جواد حسن نے ریمارکس میں کہا کہ ہمیں منطق سے چلنا ہوگا، پہلے دیکھنا ہو گا کہ لارجر بینچ کی ضرورت ہے یا نہیں۔ الیکشن کمیشن کے وکیل نے جواب جمع کرانے کے لئے عدالت سے وقت مانگ لیا۔ الیکشن کمیشن کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ میرا بطور وکیل کل ہی تقرر ہوا ہے، میں نے عدالت کے حکم بھی نہیں دیکھے اور جواب بھی تیار نہیں کیا۔ جسٹس جواد حسن نے کہا کہ الیکشن 90 دن میں کرانے سے متعلق عدالتی نظائر بھی ہیں۔ الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ الیکشن ہم نے کرانے ہیں لیکن تاریخ گورنر نے دینی ہے، ضمنی الیکشن کی تاریخ الیکشن کمیشن نے دینی ہوتی ہے، لیکن جنرل الیکشن کی تاریخ دینے کے اختیار میں قانون مختلف ہے۔ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ اگر گورنر اور الیکشن کمیشن تاریخ نہ دیں تو صدر الیکشن کی تاریخ دے سکتے ہیں۔ الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ اس میں عمل درآمد میں رکاوٹیں ہیں۔ جسٹس جواد حسن نے ہدایت کی کہ الیکشن کمیشن بتا دے کیونکہ گورنر کو تو میں نہیں کہوں گا۔ وفاقی حکومت کے وکیل نے سوال کیا کہ اگر تاریخ کا اعلان ہو جائے اور الیکشن کمیشن اس پر عمل درآمد نہ کر سکے تو کیا ہو گا ؟۔ جسٹس جواد حسن نے ہدایت کی کہ آرٹیکل 105 کی تشریح کرنا ہو گی۔ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ یہ نہیں ہو سکتا کہ کوئی تاریخ نہ دے، آرٹیکل 218 کہتا ہے کہ الیکشن کمیشن نے الیکشن کرانا ہوتے ہیں، اگر گورنر الیکشن نہیں کراتے تو الیکشن کمیشن نے آرٹیکل 218 کے تحت الیکشن کرانا ہی ہیں، صوبائی اسمبلی کا الیکشن جنرل الیکشن ہی ہو گا، اگر الیکشن کمیشن بھی انکار کرے تو صدر تاریخ دے سکتے ہیں۔ جسٹس جواد حسن نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے تو انکار نہیں کیا، جبکہ کیس میں صدرِ مملکت تو فریق ہی نہیں۔ پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری نے کہا کہ 28 دن گزر گئے، آئینی حد کسی کو بھی پار نہیں کرنی چاہیئے، الیکشن 90 دن کے اندر کروانا ضروری ہیں۔رانا مشہود نے کہا کہ الیکشن بالکل ہوں گے لیکن ان کی مرضی اور منشا سے نہیں، جس پر فواد چوہدری نے جواب دیا کہ الیکشن آئین کی منشا کے مطابق ہونے ہیں۔وفاقی حکومت کے وکیل نے درخواستوں کی سماعت کے لیے لارجر بینچ بنانے کی استدعا کردی۔ انہوں نے کہا کہ اگر تاریخ دے دی جاتی ہے اورکمیشن کسی وجہ سے الیکشن نہ کرا سکا تو پھر کیا ہوگا۔ جسٹس جواد حسن نے کہا کہ میں آج بھی اور کل بھی بیٹھنے کے لئے تیارہوں، میں چاہتا ہوں کہ سب کو تفصیل سے سنوں، کسی کا اعتراض نہ رہے کہ فیصلہ یکطرفہ ہوا۔ پی ٹی رہنما اسد عمر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو تیاری کے لئے 54 دن درکار ہیں جواب جلد منگوایا جائے۔ عدالت نے الیکشن کمیشن اورگورنرپنجاب کو کل جواب جمع کرانیکی ہدایت کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ کیس کو 13 فروری تک سن کررات گئے تک فیصلہ سنا دیاجائے گا۔ عدالت نے الیکشن کمیشن کے وکلا سے مزید دلائل طلب کرتے ہوئے سماعت آج (جمعہ )تک کے لئے ملتوی کردی۔