لاہور  (ویب نیوز)

پاکستان کارپٹ مینو فیکچررز اینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن نے اسٹیٹ بینک کی جانب سے برآمدکی گئی مصنوعات کی بیرون ملک سے پے منٹ کی مقررہ مدت کے بعدوصولی پر 3سے 9فیصد تک کٹوتی کے فیصلے پر انتہائی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس طرح کے سخت قواعد و ضوابط سے پہلے سے نا مساعد حالات سے دوچار ہاتھ سے بنے قالینوں کی صنعت کی بقاء خطرے میں پڑ جائے گی ،برآمد ی معاہدوں پر بیرون ملک سے 120دن میں لازمی پے منٹ کی ادائیگی کی شرط ختم کر کے ہاتھ سے بنے قالین کی صنعت کی حیثیت کوخصوصی صنعت کے طو رپر بحال کیا جائے جس میں 180 سے270 دنوں تک کی رعایت ہے ۔پاکستان کارپٹ مینو فیکچررز اینڈ ایکسپورٹر ز ایسوسی ایشن کے سینئر وائس چیئرمین عثمان اشرف نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے ریلائزیشن آف ایکسپورٹ پروسیڈز کے حوالے سے جاری سرکلر پر گورنر اسٹیٹ بینک کو لکھے گئے خط میں کہا ہے کہ پاکستان کارپٹ مینوفیکچرر اینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کئی دہائیوں سے پاکستانی قالین کو دنیا بھر میں فروغ دینے کے لیے کام کر رہی ہے تاہم اسٹیٹ بینک کے سخت ہوتے ہوئے قواعد و ضوابط ،دیگر مسائل اور رکاوٹوں نے اس صنعت کی برآمد کرنے کی صلاحیت کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ ہاتھ سے بنے قالینوں کی صنعت پہلے ہی شدید بحران سے دوچار ہے اور اس طرح کے سرکلر جاری کرکے اس کیلئے مزید مشکلات پیدا کی جارہی ہیں۔انہوںنے سرکلر پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس میں برآمد کنندگان کوبرآمدی رقم کی تاخیر سے وصولی سے متعلق کٹوتی تجویز کی گئی جو اس صنعت کیلئے زہر قاتل ثابت ہو گی۔ایکسپورٹ پروسیڈ کی تاخیر میں 30دنوں تک 3فیصد،31سے60دنوں کی تاخیر پر6فیصد اور60روز سے زائد پر 9فیصد کٹوتی برآمدی صنعتوں پر بوجھ ہے ۔خط میں کہا گیا ہے کہ غیر استعمال شدہ پیشگی ادائیگیوں کا مسئلہ بھی ایک چیلنج بنا ہوا ہے اس لئے مطالبہ ہے کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار، وزیر تجارت نوید قمر اور گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد ملاقات کے لئے وقت دیں۔خط میں مزید کہا گیا ہے کہ طویل عرصے کے بعد ہماری صنعت کی برآمدات بہتری کی جانب گامزن ہوئی ہیں جس سے پاکستان کیلئے قیمتی زر مبادلہ حاصل کرنے میں مدد ملے گی ۔ہاتھ سے بنے قالین لگژری آئٹم ہیں جن کی نہ صرف تیار ی میں مختلف مراحل سے گزرنا پڑتا ہے بلکہ اس کی برآمد اور پے منٹ کی وصولی کے لئے وقت درکار ہوتا ہے ۔ مزید کہا گیا ہے کہ ہماری صنعت کو دوسرے قالین برآمد کرنے والے ممالک جیسے کہ بھارت اور نیپال سے مقابلہ کرنے کے لیے انتھک محنت کرنی پڑتی ہے کیونکہ وہاں پر حکومتیںمراعات اور سہولیات فراہم کرتی ہیں ۔یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ ہاتھ سے بنے قالین کی صنعت ملک کی غریب ترین آبادی خصوصاًدیہی علاقوں کو روزگار کے مواقع فراہم کرتی ہے اس لئے اس صنعت کو سہولتیں اور مراعات دی جائیں جس سے یہ صنعت اربنائزیشن کو روکنے میں بھی معاون ثابت ہو سکتی ہے ۔