اسلام آباد (ویب نیوز)
- آڈیو لیکس پر تحقیقات کرنیوالے جوڈیشل کمیشن نے مزید اپنی کارروائی روک دی
- سپریم کورٹ نے کمیشن کو مزید کارروائی سے روک دیا ہے،اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان
- انکوائری کمیشن کو سماعت سے قبل نوٹس نہیں دیا توکام سے کیسے روک دیا،جسٹس فائز عیسیٰ
- دوران سماعت اٹارنی جنرل نے گزشتہ روز کا عدالتی حکم کمیشن کے سامنے پڑھ کرسنایا
- سپریم کورٹ رولز کے مطابق فریقین کو سن کر حکم جاری کیا جاتا ہے،جسٹس فائز عیسیٰ
- کمیشن کے ارکان نے اٹارنی جنرل سے چیف جسٹس کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ کے حکم کی مصدقہ کاپی طلب کر لی
- بڑے ، بڑے لوگ آئین اورقانون کا بھاشن دیتے ہیںلیکن یہاں پر آکر کوئی یہ نہیں بتاتا کہ حکم امتناع جاری ہو گیا،جسٹس فائز عیسیٰ
- کمیشن نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر عابد زبیری کی عدم پیشی پر برہمی کااظہار بھی کیا
- بطور جج ہم نے حلف اٹھارکھا ہے کہ صرف آئین اورقانون کا دفاع کرنا ہے اور ہم اللہ تعالیٰ کے غلام ہیں ،جسٹس فائز عیسیٰ
سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں قائم تین رکنی آڈیو لیکس کمیشن نے چیف جسٹس عمر عطابندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ کے حکم کے بعد کمیشن کی مزید کاروائی روک دی ۔ہفتہ کو سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں چیف جسٹس بلوچستا ن ہائی کورٹ جسٹس نعیم اخترا فغان اور چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس عامر فاروق پر مشتمل تین رکنی آڈیو لیکس کمیشن کادوسرا اجلاس ہفتہ کے روز سپریم کورٹ میں شروع ہوا تو سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے بتایا کہ سپریم کورٹ نے کمیشن کو مزید کارروائی سے روک دیا ہے ۔اس پرجسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل صاحب میراخیال ہے کوئی عدالتی حکم آیا ہے، کیا عدالتی حکم کی کاپی ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ انکوائری کمیشن کو سماعت سے قبل نوٹس نہیں دیا توکام سے کیسے روک دیا ۔دوران سماعت اٹارنی جنرل نے گزشتہ روز کا عدالتی حکم کمیشن کے سامنے پڑھ کرسنایا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ رولز کے مطابق فریقین کو سن کر حکم جاری کیا جاتا ہے، اٹارنی جنرل گزشتہ روز عدالت میں کیوں موجود تھے کوئی نوٹس ہوا تھا یا ویسے ہی بیٹھے تھے۔ اس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ انہیں زبانی طور پر عدالت میں پیش ہونے کا کہا گیا تھا جبکہ سماعت کے بعد گزشتہ رات حکمنامہ آیا تواس میں انہیں نوٹس کیا گیا ہے۔کمیشن کے ارکان نے اٹارنی جنرل سے چیف جسٹس کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ کے حکم کی مصدقہ کاپی طلب کر لی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا انکوائری کمیشن ان درخواستوں میں فریق ہے۔ اس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ کمیشن کو سیکرٹری کے ذریعے فریق بنایا گیا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ تھوڑا بہت آئین میں بھی جانتا ہوں،اٹارنی جنرل نے گزشتہ روزعدالت کو بتایا کیوں نہیں کہ اعتراضات والے نکات کی ہم پہلے ہی وضاحت کر چکے ہیں،کمیشن نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر عابد شاہد زبیری کی عدم پیشی پر برہمی کااظہار بھی کیا۔کمیشن کا کہنا تھا کہ عابد زبیری اور شعیب شاہین نے آج آنے کی زحمت بھی نہیں کی،کیاانہوں نے آکر بتانا نہیں تھا کہ گزشتہ روز کیا آرڈر ہوا، شام کو ٹی وی چینلز پر لیکچرچل پڑتے ہیں اوربڑے ، بڑے لوگ آئین اورقانون کا بھاشن دیتے ہیںلیکن یہاں پر آکر کوئی یہ نہیں بتاتا کہ حکم امتناع جاری ہو گیا ہے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ ججوں کے خلاف ایسی درجنوں شکایات آتی ہیں ،کیا ا س کی ساکھ اورصداقت جانچے بغیرکسی جج کے خلاف براہ راست سپریم جوڈیشل کونسل میں شکایت درج کردی جائے اور سپریم جوڈیشل کونسل اس پر کارروائی شروع کردے تواس جج پر کیا گزرے گی، یہ سارا جائزہ لیئے بغیر کیسے سپریم جوڈیشل کونسل میں جایا جاسکتا ہے۔ آڈیو کی صداقت جانے بغیر کیا کسی کی زندگی تباہ کر دیں،کس نے آڈیو ریکارڈ کی وہ بعد کی بات ہے،کیا مجھے کوئی مرضی کے فیصلے کے لیے رقم آفر کرے تو کیا یہ گفتگو بھی پرائیویسی میں آئے گی ؟پرائیویسی ہمیشہ گھر کی ہوتی ہے،کسی کے گھر میں جھانکا نہیں جاسکتا، باہر سڑکوں پر جو سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہیں کیا یہ بھی پرائیویسی کے خلاف ہیں؟کیا بینک کے سی سی ٹی وی کیمرے میں قتل کی واردات آجائے تو کیا فوٹیج استعمال نہیں ہوسکتی؟ جو پرائیویسی ہوتی ہے وہ صرف اورصرف انسان کی ذات اوراس کے گھر کی ہوسکتی ہے، پبلک ڈومین میں کسی کی کوئی پرائیویسی نہیں ہوتی یہ آئین کے آرٹیکل14میں واضح طور پر لکھا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ کمیشن نہ کسی کے خلاف کارروائی کررہا ہے نہ یہ فوجداری کارروائی ، یہ صرف اورصرف حقائق جاننے کی کوشش ہے لیکن اس کوشش کو کیسے روک دیا گیا۔جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کا کہنا تھا کہ یہ جو کمیشن بنایا گیا ہے یہ کسی کی ذاتی خواہش پر نہیں بنایا گیا اورنہ ہی کسی کے کہنے پر بنایا گیا ہے، یہ آئین اورقانون کے مطابق بنایا گیا ہے، یہ باقاعدہ انکوائریز اینڈ کمیشن ایکٹ کے تحت بنایا گیا ہے اور بطور جج ہم نے حلف اٹھارکھا ہے کہ ہم نے صرف اور صرف آئین اورقانون کا دفاع کرنا ہے اور ہم اللہ تعالیٰ کے غلام ہیں ، ہم نے کسی اورشخص کی ہدایات پر نہیں چلنا، بلکہ صرف اورصرف آئین اورقانون کے مطابق کام کرنا ہے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید کہا کہ ابھی وہ مرحلہ ہی نہیں آیا تھا نہ ہم وہ کر رہے تھے، ہوسکتا ہے انہیں کمیشن کی کارروائی پر اعتراض نہ ہو، ان کے دوسرے فریق نے ہمیں درخواست بھیجی ہے، دوسرے فریق نے کہا ہے کہ وہ طبی معائنے کیلئے لاہور ہیں، کمیشن جب لاہور آئے تو ان کا بیان بھی لے لے۔سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں قائم تین رکن آڈیو لیکس کمیشن نے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطابندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ کے حکم کے بعد کمیشن کی مزید کاروائی روک دی۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا اٹارنی جنرل منصور عثمان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل صاحب ہم معذرت خواہ ہیں، سپریم کورٹ کورٹ کا جوڈیشل آرڈر ہے اس لئے مزید کام جاری نہیں رکھ سکتے، اب مزید کوئی کاروائی نہیں ہوسکتی، ہم مزید آگے نہیں بڑھ سکتے۔جب تک سرکاری طور پر بتایا نہیں جاتا یا نوٹیفائی نہیں ہوتا میٹنگ نہیں ہوگی، ٹی وی کی خبر پر ہم نہیں چلتے، سرکاری طور پر بتانے تک اجلاس نہیںہو گا۔میں لیو گرانٹنگ آرڈر کررہا ہوں اس کے بعدچھٹی پر جائوں گا۔گزشتہ روز کے حکمنامہ میں میرے کیس کا ذکر بھی ہوا، میرے کیس میں معاملہ الگ تھا۔دوسروں کی عزت ہے توتھوڑی ہماری بھی ہونی چاہیے۔