آئندہ مالی سال2023-24 کا 1450 کھرب کا وفاقی بجٹ قومی اسمبلی میں پیش ، کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا
سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 30 سے 35 فیصد، پنشن میں 17.5 فیصد اضافہ کا اعلان
ترقیاتی پروگرام کا حجم 1150 ارب روپے ہو گا،ترقی کا ہدف صرف 3.5 فیصد رکھا گیا ہے
آئندہ سال افراط زر کی شرح اندازا 21 فیصد تک ہو گی، بجٹ خسارہ 6.54 فیصد اور پرائمری سرپلس جی ڈی پی کا 0.4 فیصد ہو گا
ملک کو صحیح معنوں میں ڈیفالٹ سے بچا کر، بحرانوں سے نکال کر استحکام کی راہ پر لے آئے ہیں، اسحاق ڈار
مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے ماضی میں بھی ملک کو مشکلات سے نکالا اور اب بھی ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لئے کوشاں ہے
وفاقی وزیر خزانہ کی قومی اسمبلی میں بجٹ تقریر کا متن
اسلام آباد( ویب نیوز)
قومی اسمبلی میں آئندہ مالی سال 2023-24 کا 1450 کھرب کا وفاقی بجٹ پیش کر دیا گیا،بجٹ میں نئے ٹیکسز لگانے سے گریز کیا گیا ہے، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 30 سے 35 فیصد جبکہ پنشنرز کی پنشن میں 17.5 فیصد اضافہ کا اعلان کیا گیا، سرکاری شعبہ کے ترقیاتی پروگرام کا حجم 1150 ارب روپے رکھا گیا ہے، ترقی کا ہدف صرف 3.5 فیصد رکھا گیا ہے، آئندہ سال افراط زر کی شرح اندازا 21 فیصد تک ہو گی، بجٹ خسارہ 6.54 فیصد اور پرائمری سرپلس جی ڈی پی کا 0.4 فیصد ہو گا، برآمدات کا ہدف 30 ارب ڈالر جبکہ ترسیلات زر کا ہدف 33 ارب ڈالر رکھا گیا ہے، ایف بی آر محاصل کا تخمینہ 9200 ارب روپے ہے جس میں صوبوں کا حصہ 5276 ارب روپے ہو گا، وفاقی نان ٹیکس محصولات 2963 ارب روپے، وفاقی حکومت کی کل آمد 6887 ارب روپے ہو گی، وفاقی حکومت کے کل اخراجات کا تخمینہ 14460 ارب روپے ہے جس میں سود کی مد میں ادائیگی پر 7303 ارب روپے خرچ ہوں گے۔ملکی دفاع کے لئے 1804 ارب روپے، سول انتظامیہ کے اخراجات کے لئے 714 ارب روپے مختص کئے جا رہے ہیں، پنشن کی مد میں 761 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں، بجلی گیس اور دیگر شعبہ جات کے لئے 1074 ارب روپے کی رقم بطور سبسڈی مختص کی گئی ہے۔ آزاد کشمیر گلگت بلتستان، خیبرپختونخوا میں ضم شدہ اضلاع، بی آئی ایس پی، ایچ ای سی، ریلویز اور دیگر محکموں کے لئے 1464 ارب روپے کی گرانٹ مختص کی گئی ہے، جمعہ کو قومی اسمبلی میں وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحق ڈار نے آئندہ مالی سال 2023-24 کا وفاقی بجٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ مسلم لیگ(ن) کی حکومت نے ماضی میں بھی ملک کو مشکلات سے نکالا اور اب بھی اپنی اتحادی جماعتوں کے ساتھ مل کر ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لئے کوشاں ہے، حکومت نے سیاست نہیں ریاست بچائو پالیسی پر عمل کیا، اپنی سیاسی ساکھ کی قربانی دے کر معیشت کی بحالی کو ترجیح دی۔
اسپیکر راجا پرویز اشرف کی زیر صدارت قومی اسمبلی کے اجلاس میں وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحق ڈار نے آئندہ مالی سال 2023-24 کا وفاقی بجٹ پیش کیا۔ انہوں نے بجٹ کے آغاز پر 2013 سے 2017 تک کے مسلم لیگ (ن) کے دور حکومت اور تحریک انصاف کے 2018 سے 2022 کے دور کا تقابلی جائزہ پیش کیا۔ انہوں نے بتایا کہ مالی سال 2016-17 میں وزیراعظم محمد نواز شریف کی قیادت میں پاکستان کی معیشت کی شرح نمو 6.1 فیصد پر پہنچ چکی تھی۔ افراط زر کی شرح 4 فیصد جبکہ فوڈ انفلیشن میں سالانہ اوسطا اضافہ صرف دو فیصد تھا۔ بجلی کے نئے منصوبوں سے ملک میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم کی۔ ضرب عضب اور رد الفساد آپریشنز اور افواج پاکستان کی قربانیوں کی مرہون منت ملک بھر میں دہشت گردی کے ناسو ر پر قابو پایا گیا۔پاکستان میں امن و امان اور سیاسی استحکام تھا، ان حالات میں منتخب جمہوری حکومت کے خلاف سازشوں کے جال بچھا دیئے گئے جس کے نتیجہ میں اگست 2018 میں ایک سلیکٹڈ حکومت آئی جس کی معاشی ناکامیوں پر اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ جو ملک 2017 میں دنیا کی 24 ویں بڑی معیشت بن چکا تھا وہ 2022 میں 47 ویں نمبر پر آ گیا۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ اس وقت پاکستان معاشی تاریخ کے مشکل ترین مرحلے سے گزر رہا ہے، اس معاشی صورتحال کی خرابی کی اصل ذمہ دار پاکستان تحریک انصاف کی سابق حکومت ہے۔ موجودہ حالات گزشتہ حکومت کی معاشی بدانتظامی، بدعنوانی، عناد پسندی اور اقربا پروری کا شاخسانہ ہیں۔وزیر خزانہ نے کہا کہ تحریک انصاف حکومت کی غلط معاشی پالیسی کی وجہ سے کرنٹ اکائونٹ خسارہ 17.5 ارب ڈالر سے تجاوز کر گیا، زرمبادلہ کے ذخائر میں تیزی سے کمی ہوئی، آئی ایم ایف پروگرام کی تکمیل پاکستان کے لئے انتہائی اہم تھی لیکن تحریک انصاف کی حکومت نے اس نازک صورتحال میں حالات کو جان بوجھ کر خراب کیا، پٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں سبسڈی کے ذریعے کمی کر دی، ایسے اقدامات اٹھائے جو کہ آئی ایم ایف کی شرائط کی خلاف ورزی تھی، سابقہ حکومت کے وزیر خزانہ نے فون کر کے دو صوبائی وزرائے خزانہ پر شدید دبائو ڈالا کہ وہ اپنا قومی فریضہ انجام نہ دیتے ہوئے آئی ایم ایف کے پروگرام کو سبوتاژ کریں، یہ اقدامات نئی حکومت کے لئے بارودی سرنگیں بچھانے کے مترادف تھے جن سے مالی خسارے میں اضافہ ہوا اور پاکستان اور آئی ایم ایف کے تعلقات کو شدید نقصان پہنچایا جبکہ چور مچائے شور کے مترادف ان تمام حالات کی ذمہ داری نئی حکومت پر ڈالنے کی کوشش کی، انہیں یقین تھا کہ معاشی حالات اتنے خراب ہو جائیں گے کہ کوئی پاکستان کو ڈیفالٹ سے نہیں بچا سکے گا،
یہ انتہائی غیر ذمہ دارانہ طرز عمل تھا، تاہم وزیراعظم شہباز شریف اور اتحادی جماعتوں کے بھرپور تعاون سے ایسے معاشی فیصلے کئے جا رہے ہیں جن کی وجہ سے ان ملک دشمن لوگوں کے عزائم پورے نہیں ہو پا رہے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ موجودہ اتحادی حکومت نے اقتدار میں آتے ہی آئی ایم ایف پروگرام کو بحال کرنے کی کوشش کی، حکومت کو علم تھا کہ پاکستان کو معاشی بحالی کے لئے انتہائی مشکل اقدامات اٹھانا پڑیں گے جس کی وجہ سے عوام کو مہنگائی اور غربت میں اضافے کا سامنا کرنا پڑے گا، روپے کی قدر میں کمی اور شرح سود میں تیزی سے اضافے کے نتیجہ میں معاشی مشکلات میں اضافہ ہوا، حکومت نے سیاست نہیں ریاست بچائو پالیسی پر عمل کیا، اپنی سیاسی ساکھ کی قربانی دے کر معیشت کی بحالی کو ترجیح دی۔ انہوں نے کہا کہ جون 2018 میں پاکستان کا سرکاری قرضہ تقریبا 25 ٹریلین روپے تھا جبکہ پی ٹی آئی کی معاشی بد انتظامی اور بلند ترین بجٹ خساروں کی وجہ سے یہ قرض مالی سال 2021-22 تک 49 ٹریلین روپے تک پہنچ چکا تھا، چار سالہ دور میں اتنا قرض لیا گیا جو گزشتہ 71 سال میں لئے گئے قرض کا 96 فیصد تھا۔انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت نے بجٹ خسارے کو کم کرنے کے لئے کفایت شعاری سے کام لیا، اخراجات میں کمی کی گئی جس کی وجہ سے بجٹ خسارہ پچھلے مالی سال میں جی ڈی پی کا 7.9 فیصد سے کم ہو کر اس سال 7 فیصد ہو گیا، موجودہ حکومت نے وزیراعظم شہباز شریف کی دور اندیش قیادت میں اپنے سیاسی نقصانات کی پرواہ کئے بغیر ملک کو ڈیفالٹ سے بچایا۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ 9 مئی کو رونما ہونے والے المناک، شرمناک ملک دشمن واقعات میں سیاسی جماعت کا لبادہ اوڑھے مسلح دہشت گرد جتھوں نے پاکستان کی سالمیت، ساکھ اور قومی وقار کو مجروح کرنے کی گھنائونی اور منظم سازش کی، پاک فوج کے شہدا کی یادگاروں کی بے حرمتی کی گئی، ملک کی تاریخ میں پہلی بار دفاعی تنصیبات کو بربریت کا نشانہ بنایا گیا، ایسے ملک دشمن عناصر کسی صورت بھی نرمی اور رحم دلی کے حقدار نہیں، انہیں پاکستان کے قوانین کے مطابق سخت سزائیں دینی چاہیے تاکہ آئندہ کوئی ایسے جرم کا ارتکاب نہ کرے۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ ایک سال کے دوران پاکستان کو سیلاب کی ناگہانی آفت کا سامنا کرنا پڑا جس کے نقصانات کا تخمینہ 30 ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ ایک ماہ میں حکومت نے دو مرتبہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کی، جولائی 2022 سے اب تک حکومت تقریبا 12 ارب ڈالر کے غیر ملکی قرضہ جات کی ادائیگی کر چکی ہے، اس کے باوجود ملکی زرمبادلہ کے ذخائر 9 ارب 34 کروڑ ڈالر ہیں، موجودہ حکومت نے زرعی شعبہ پر سیلاب کے تباہ کن اثرات اور مجموعی مشکلات کو دور کرنے کے لئے دو ہزار ارب روپے سے زائد کسان پیکج دیا جس کی وجہ سے زرعی شعبہ میں 1.5 فیصد گروتھ ہوئی، گندم کی بمبر پیداوار ہوئی، حکومت نے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں تعمیر نو کے لئے 578 ارب روپے کے منصوبوں کا آغاز کر دیا ہے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ معیشت میں بہتری کی سمت کے باوجود ابھی بھی معیشت کو چیلنجز کا سامنا ہے، آئندہ مالی سال کے لئے ترقی کا ہدف صرف 3.5 فیصد رکھا گیا ہے، زرعی شعبہ کی بہتری کے لئے زرعی قرضوں کی حد کو 1800 ارب روپے سے بڑھا کر 2250 ارب روپے کر دیا گیا ہے۔ آئندہ مالی سال میں پچاس ہزار زرعی ٹیوب ویلز کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے کے لئے 30 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں، ملک میں معیاری بیجوں کے استعمال کو فروغ دینے کے لئے تمام درآمدی ٹیکس اور ڈیوٹیز ختم کی جا رہی ہیں، چاول کی پیداوار بڑھانے کے لئے سیڈر، رائس پلانٹرز اور ڈرائیرز کو بھی ڈیوٹی اور ٹیکس سے استثنی کی تجویز ہے، وزیراعظم یوتھ بزنس و ایگریکلچر لون سکیم کے تحت چھوٹے اور درمیانے درجے کے آسان قرضوں پر مارک اپ سبسڈی کے لئے 10 ارب روپے مختص کئے جائیں گے، درآمدی یوریا کھاد پر سبسڈی کے لئے 6 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ آئی ٹی اور اس سے متعلقہ خدمات کی حوصلہ افزائی کے لئے آئی ٹی برآمدات کو بڑھانے کے لئے انکم ٹیکس کی 0.25 فیصد رعایتی شرح کی سہولت 30 جون 2026 تک جاری رکھی جائے گی، فری لانسر کو گوشواروں اور سیلز ٹیکسز رجسٹریشن سے مستثنی قرار دیا گیا ہے، ایک سادہ کاغذ پر انکم ٹیکس ریٹرن کا اجرا کیا جا رہا ہے، 50 ہزار ڈالر سالانہ کی بغیر ٹیکس کی سافٹ ویئر اور ہارڈ ویئر درآمد کر سکیں گے۔ ٹیکسٹائل انڈسٹری کو فروغ دینے کے لئے مقامی سطح پر تیار نہ ہونے والے سنتھیٹک فیلمنٹ یارن پر پانچ فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی ختم کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی تارکین وطن کے لئے بیرونی ترسیلات زر کے ذریعے غیر منقولہ جائیداد خریدنے پر 2 فیصد فائنل ٹیکس ختم کیا جا رہا ہے، ان کے لئے قرعہ اندازی کے ذریعے بڑے انعامات دینے کے لئے سکیم کا اجرا کیا جا رہا ہے، تعلیم کے شعبے میں مالی معاونت کے لئے پاکستان انڈوومنٹ فنڈ قائم کیا گیا ہے جس کے لئے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں پانچ ارب روپے رکھے جا رہے ہیں۔آئندہ مالی سال کے لئے لیپ ٹاپ سکیم کے لئے 10 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ خواتین کی خود انحصاری کے لئے بجٹ میں 5 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں، نوجوانوں کو اپنا کاروبار شروع کرنے کے لئے رعایتی شرح پر قرضہ جات کی فراہمی کے لئے 10 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ریئل سٹیٹ انویسٹمنٹ ٹرسٹ سے متعلق ٹیکس مراعات کو 30 جون 2024 تک توسیع دی جا رہی ہے، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا بجٹ بڑھا کر 450 ارب روپے کرنے کی تجویز ہے، بے نظیر تعلیمی وظائف پروگرام کا دائرہ 60 لاکھ بچوں سے بڑھا کر 83 لاکھ اور اس مقصد کے لئے 55 ارب روپے سے زائد کی رقم کی گئی ہے، 92 طالب علموں کو بے نظیر انڈر گریجوایٹ سکالرشپ کے لئے 6 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے، یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن پر مستحق افراد کو آٹے، چاول، چینی، دالوں اور گھی پر سبسڈی کے لئے 35 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں، استعمال شدہ کپڑوں پر عائد 10 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی کو ختم کیا جا رہا ہے۔وزیر خزانہ نے بتایا کہ کوئلے اور سولر سے بجلی کی پیداوار کو فروغ دینے کے لئے حکومت پختہ ارادہ رکھتی ہے، سولر پینل، انورٹر اور بیٹریزکے خام مال کو کسٹم ڈیوٹی سے استثنی دیا جا رہا ہے۔ وزیر خزانہ نے رواں مالی سال 2022-23 کے نظرثانی شدہ بجٹ کے حوالے سے بتایا کہ اس بجٹ میں میں ایف بی آر کے محاصل 7200 ارب روپے رہنے کا امکان ہے جس میں صوبوں کا حصہ 4129 ارب روپے ہو گا، وفاقی حکومت کا نان ٹیکس ریونیو 1618 ارب روپے ہونے کی توقع ہے، وفاق کے محاصل 4689 ارب روپے ہوں گے، کل اخراجات کا تخمینہ 11090 ارب روپے ہے، سرکاری شعبہ کے ترقیاتی پروگرام کی مد میں اخراجات 567 ارب روپے رہنے کا امکان ہے، دفاع پر کم و بیش 1510 ارب روپے خرچ ہوں گے، سول حکومت کے مجموعی اخراجات 535 ارب روپے، پنشن پر 654 ارب روپے، سبسڈیز کی مد میں 1093 ارب روپے اور گرانٹس کی مد میں 1090 ارب روپے خرچ ہوں گے۔آئندہ مالی سال کے اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ آئندہ سال افراط زر کی شرح اندازا 21 فیصد تک ہو گی، بجٹ خسارہ 6.54 فیصد اور پرائمری سرپلس جی ڈی پی کا 0.4 فیصد ہو گا، برآمدات کا ہدف 30 ارب ڈالر جبکہ ترسیلات زر کا ہدف 33 ارب ڈالر ہے، ایف بی آر محاصل کا تخمینہ 9200 ارب روپے ہے جس میں صوبوں کا حصہ 5276 ارب روپے ہو گا، وفاقی نان ٹیکس محصولات 2963 ارب روپے، وفاقی حکومت کی کل آمد 6887 ارب روپے ہو گی، وفاقی حکومت کے کل اخراجات کا تخمینہ 14460 ارب روپے ہے جس میں سود کی مد میں ادائیگی پر 7303 ارب روپے خرچ ہوں گے۔سرکاری شعبہ کے ترقیاتی پروگرام کے لئے 950 ارب روپے کا بجٹ مختص کیا گیا ہے اس کے علاوہ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے لئے 200 ارب روپے کی اضافی رقم کے بعد مجموعی ترقیاتی بجٹ 1150 ارب روپے کی بلند ترین سطح پر ہو گا، ملکی دفاع کے لئے 1804 ارب روپے، سول انتظامیہ کے اخراجات کے لئے 714 ارب روپے مہیا کئے جائیں گے، پنشن کی مد میں 761 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں، بجلی گیس اور دیگر شعبہ جات کے لئے 1074 ارب روپے کی رقم بطور سبسڈی مختص کی گئی ہے۔ آزاد کشمیر گلگت بلتستان، خیبرپختونخوا میں ضم شدہ اضلاع، بی آئی ایس پی، ایچ ای سی، ریلویز اور دیگر محکموں کے لئے 1464 ارب روپے کی گرانٹ مختص کی گئی ہے، ورکنگ جرنلسٹ ہیلتھ انشورنس کارڈ، آرٹسٹ ہیلتھ انشورنس کارڈ کا اجرا کیا جا رہا ہے، پنشن کے مستقبل کے اخراجات کے بقایا جات پورے کرنے کیلئے پنشن فنڈ کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ صوبوں کے ترقیاتی پروگرام کا حجم 1559 ارب روپے ہے، اس طرح قومی سطح پر ترقیاتی پروگرام کا حجم 2709 ارب روپے ہو گا، یہ رقم جی ڈی پی کا صرف 2 فیصد ہے، مسلم لیگ (ن) نے گزشتہ دور حکومت میں اسے 5 فیصد تک پہنچا دیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ سرکاری شعبہ کے ترقیاتی پروگرام کے تحت 80 فیصد زیر تکمیل منصوبوں کو مکمل کیا جائے گا، براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے اور جدید ترین انفراسٹرکچر کی فراہمی کے لئے پی ایس ڈی پی کا 52 فیصد حصہ مختص کیا گیا ہے، ٹرانسپورٹ اور کمیونیکیشن کے لئے 267 ارب روپے، واٹر سیکٹر کے لئے 100 ارب روپے، توانائی کے شعبہ کے لئے 89 ارب روپے، فزیکل پلاننگ و ہائوسنگ کے لئے 43 ارب روپے مختص کئے جا رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی اور قدرتی آفات کے اثرات کم کرنے کے لئے اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں، سماجی شعبہ کی ترقی کے لئے 244 ارب روپے رکھے گئے ہیں، سائنس و آئی ٹی کے لئے 34 ارب روپے مختص کئے جانے کی تجویز ہے، بجلی کی پیداوار، ترسیل اور تقسیم کی بہتری کے لئے 107 ارب روپے کی رقم مہیا کی گئی ہے، ملک میں بجلی کی پیداواری صلاحیت 41 ہزار میگاواٹ تک پہنچ چکی ہے، قابل تجدید توانائی کے زیادہ سے زیادہ استعمال کی ضرورت ہے تاکہ ملکی درآمدات کو کم کیا جا سکے اور بجلی کی پیداواری لاگت میں کمی لائی جا سکے، اس شعبہ پر خصوصی توجہ مرکوز کی گئی ہے، جامشورو پاور پلانٹ کی تکمیل کے لئے آئندہ مالی سال میں 12 ارب روپے مختص کئے جا رہے ہیں، پاکستان اور تاجکستان کے درمیان 500 کے وی ٹرانسمیشن لائن کے منصوبے کو آگے بڑھانے کے لئے 16 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ مہمند ڈیم کے لئے آئندہ مالی سال کے لئے 10 ارب 50 کروڑ روپے مختص کئے جا رہے ہیں، داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کے لئے 59 ارب روپے، دیامر بھاشا ڈیم کے لئے 20 ارب روپے نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کے لئے 4 ارب 80 کروڑ روپے مختص کئے جا رہے ہیں، کراچی گریٹر واٹر سپلائی سکیم کے لئے 17 ارب 50 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں، ٹرانسپورٹ اور مواصلات کے لئے 161 ارب روپے جبکہ سوشل سیکٹر کے لئے 90 ارب روپے مختص کئے جانے کی تجویز ہے۔ انہوں نے کہا کہ رواں مالی سال کی ٹیکس پالیسی کے بنیادی اصولوں میں برآمدات میں اضافے کے لئے آئی ٹی اور اس سے متعلقہ خدمات کی حوصلہ افزائی، زرمبادلہ کے بڑھانے کے لئے بیرونی ترسیلات زر کا فروغ، اقتصادی ترقی میں اضافے کے لئے مقامی صنعتوں کی سرپرستی، تعمیرات، ایس ایم ایز اور زرعی شعبہ کی حوصلہ افزائی، ٹیکس کا دائرہ کار بڑھانے کے لئے معیشت کی ڈیجیٹلائزیشن، صاحب ثروت افراد پر ٹیکس کا نفاذ، مہنگائی کی وجہ سے کم آمدن طبقے کے لئے ریلیف اور نان فائلرز کے لئے ٹرانزیکشن کی کاسٹ میں اضافہ شامل ہے۔انہوں نے کہا کہ اس سال کوئی نیا ٹیکس عائد نہیں کیا جا رہا اور حکومت کی کوشش ہے کہ عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دیا جائے، روزگار کے مواقع بڑھائے جائیں، کاروبار میں آسانیاں لائی جائیں، صنعتوں کی حوصلہ افزائی ہو، برآمدات میں اضافہ کیا جائے جس سے زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ سکیں۔ انہوں نے کہا کہ انکم ٹیکس کے حوالے سے اقدامات میں کنٹریکٹس، سپلائیز اور سروسز پر ود ہولڈنگ ٹیکس کی شرح میں اضافہ کیا جا رہا ہے، امیروں پر ٹیکس عائد کرنا پاکستان کی ٹیکسیشن پالیسی کا رہنما اصول ہے، ان پر عائد سپر ٹیکس کو پروگریسو ٹیکسیشن میں تبدیل کرنے کے لئے اس کے ٹیکس ریٹس کو بتدریج بڑھانے کی تجویز ہے، لسٹڈ اور نان لسٹڈ کمپنیوں پر 10 فیصد کی شرح سے ود ہولڈنگ ٹیکس عائد کیا جا رہا ہے۔غیر فعال ٹیکس گزاروں کی طرف سے پچاس ہزار روپے سے زائد نقد رقم نکوالنے پر 0.6 فیصد کی شرح سے ٹیکس عائد کیا جا رہا ہے، اس وقت 3 ہزار غیر ملکی شہری پاکستان کے امیر گھرانوں میں مددگار کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں، اوسطا ہر گھریلو مددگار کو سالانہ 6 ہزار ڈالر تک تنخواہ دی جاتی ہے، گھریلو ملازمین کو ادا کی جانے والی رقم پر 2 لاکھ روپے سالانہ شرح سے ود ہولڈنگ ٹیکس عائد کیا جا رہا ہے، غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی لانے کے حوالے سے خامیوں کو دور کرنے کے لئے کریڈٹ ڈیبٹ کارڈ اور بینکنگ چینلز کے ذریعے فارن کرنسی کے آئوٹ فلو کی حوصلہ شکنی کے لئے فائلر پر ود ہولڈنگ ٹیکس کی موجودہ شرح 1 فیصد سے بڑھا کر 5 فیصد اور نان فائلر پر یہ شرح 10 فیصد کی جا رہی ہے۔ٹیکسٹائل اور لیدر کی مصنوعات کے ٹیر ون ریٹیلرز پر جی ایس ٹی کی موجودہ شرح 12 فیصد سے بڑھا کر 15 فیصد کی جا رہی ہے، اس سے عام آدمی متاثر نہیں ہو گا۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ صوبوں کے درمیان ہم آہنگی کا قیام اور پاکستان میں یکساں اور ہم آہنگ ٹیکس نظام رائج کرنا موجودہ حکومت کی بڑی ذمہ داری ہے، فاٹا اور پاٹا کے ضم شدہ اضلاع کو پانچ سال کے لئے ٹیکس استثنی دیا گیا تھا جس کی مدت 30 جون 2023 کو ختم ہو رہی ہے، اس میں مزید ایک سال کی توسیع کی جا رہی ہے۔ پرانی اور استعمال شدہ 1800 سی سی تک کی ایشین میک گاڑیوں کی درآمد پر 2005 میں ڈیوٹیز اور ٹیکسز کو قید کر دیا گیا تھا، اب 1300 سی سی سے اوپر کی گاڑیوں کے ڈیوٹیز اور ٹیکس پر کیپنگ ختم کی جا رہی ہے۔گلاس مینوفیکچرنگ ایسوسی ایشن کے مطالبہ پر مقامی شیشے کو پروٹیکٹ کرنے کے لئے ایسے گلاس کی مختلف اقسام کی درآمد پر 15 سے 30 فیصد تک ریگولیٹری ڈیوٹی لگائی جا رہی ہے، اسلام آباد میں ڈیجیٹل پیمنٹس کی حوصلہ افزائی کرنے کے لئے ریسٹورنٹس سروس پر کریڈٹ کارڈ کے ذریعے رقم ادا کرنے پر ٹیکس کی شرح 15 فیصد سے کم کر کے 5 فیصد کی جا رہی ہے۔وزیر خزانہ نے سرکاری ملازمین، پنشنز، فکسڈ انکم افراد کے لئے اٹھائے گئے ریلیف اقدامات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ حکومت کو سرکاری ملازمین کی مشکلات کا احساس ہے۔ افراط زر کی وجہ سے عام لوگوں کی طرح سرکاری ملازمین کی قوت خرید میں بھی نمایاں کمی واقع ہوئی ہے، یہی وجہ ہے کہ شدید مالی مسائل اور وسائل کی کمی کے باوجود سرکاری ملازمین کے لئے ریلیف اقدامات کئے جا رہے ہیں، سرکاری ملازمین کی قوت خرید بہتر بنانے کے لئے گریڈ 1 سے 16 تک کے ملازمین کی تنخواہوں میں 35 فیصد جبکہ گریڈ 17 سے 22 تک کے ملازمین کے لئے تنخواہوں میں 30 فیصد ایڈہاک ریلیف الائونس دیا جا رہا ہے، ڈیوٹی سٹیشن سے باہر سرکاری سفر اور رات کے قیام کے لئے ڈیلی الائونس اور مائیلج الائونس 50 فیصد، ایڈیشنل چارج، کرنٹ چارج اور ڈیپوٹیشن الائونس میں 12 سے 18 ہزار روپے کا اضافہ کیا جا رہا ہے، اردلی الائونس 17500 سے بڑھا کر 2500 روپے، خصوصی افراد کے لئے سپیشل کنونس الائونس میں 100 فیصد اضافہ کیا جا رہا، ملٹری کے کانسٹینٹ اٹینڈ الائونس میں 7 ہزار سے 14 ہزار، مجاز پنشنرز کا ڈرائیور الائونس 14 سے بڑھا کر 21 ہزار کیا جا رہا ہے، سرکاری ملازمین کی پنشن میں 17.5 فیصد اضافہ کیا جا رہا ہے۔سرکاری ملازمین کی کم سے کم پنشن 10 ہزار روپے سے بڑھا کر 12 ہزار روپے کی جا رہی ہے، اسلام آباد کی حدود میں کم سے کم اجرت 25 ہزار سے بڑھا کر 32 ہزار روپے کی جا رہی ہے، ای او بی آئی کی پنشن 8500 سے بڑھا کر 10 ہزار روپے کی جا رہی ہے، مقروض افراد کی بیوائوں کی امداد کے لئے سابق وزیراعظم نواز شریف کے گزشتہ دو ادوار میں مختلف سکیمز کا اجرا کیا گیا ہے، مالی سال 2023-24 کے لئے ایسی ہی سکیم ہائوس بلڈنگ فنانس کارپوریشن کی مقروض بیوائوں کے لئے متعارف کرائی جا رہی ہے، اس کے تحت ان بیوائوں کے ذمہ واجب الادا 10 لاکھ روپے تک کے قرضہ جات حکومت پاکستان ادا کرے گی، سی ڈی این ایس کے شہدا اکائونٹ میں ڈیپازٹ کی حد 50 لاکھ سے بڑھا کر 75 لاکھ روپے کی جا رہی ہے، بہبود سیونگ سرٹیفکیٹس میں بھی ڈیپازٹ کی حد 50 لاکھ روپے سے بڑھا کر 75 لاکھ روپے کی جا رہی ہے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ پاکستان کے غیور اور روشن خیال عوام اس حقیقت سے پوری طرح روشناس ہو چکے ہیں کہ ان کا اصل دوست اور خیرخواہ کون ہے اور ملک اور قوم کا دشمن اور معاشی بدحالی کا ذمہ دار کون ہے، میاں شہباز شریف نے بطور وزیر اعلی پنجاب اور اب بطور وزیراعظم پاکستان کے منصب سے بھرپور طریقے سے خلوص نیت سے عوام کی خدمت کی ہے، موجودہ مخلوط حکومت نے 14 ماہ کے قلیل عرصہ میں مشکلات اور سازشوں کے باوجود عوام دوست اقدامات اٹھائے ہیں اور ملک کو صحیح معنوں میں ڈیفالٹ سے بچا کر، بحرانوں سے نکال کر استحکام کی راہ پر لے آئے ہیں، مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے ماضی میں بھی ملک کو مشکلات سے نکالا ا ور اب بھی اپنی اتحادی جماعتوں کے ساتھ مل کر ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لئے کوشاں ہے۔۔