- مذہبی رہنماؤں پرحملوں سے متعلق پیشگی اطلاعات دی تھیں، کچھ ممالک نے سنجیدگی سے نہیں لیں
- افغانستان طویل جنگوں سے نکلا ہوا ملک ہے اور کسی بھی ملک خصوصا کسی پڑوسی ملک میں ہرگز بدامنی نہیں چاہتا
- ہمارا خطہ گزشتہ 20 سال تک امریکی قیادت میں بیرونی جارحیت اور خطے کے بعض ممالک کی غلط سیاسی پالیسیوں کا شکار رہا
- پاکستان کے اندر حملوں کی روک تھام ہماری نہیں بلکہ اس کے اندر موجود انٹیلی جنس اور سیکیورٹی اداروں کی ذمہ داری ہے
- افغان حکومت ایک بار پھر اپنا اصولی موقف دہراتی ہے افغانستان اپنی سرزمین کسی بھی دوسرے ملک کے خلاف استعمال ہونے کی اجازت نہیں دیتا
- کوئی پاکستان میں حملہ کرتا یا داعش کے نام پر افغانستان اور پاکستان کے مسلمانوں کا خون بہاتا ہے توحل کیلئے مشترکہ کوشش ہونی چاہیے، الزام تراشی مسئلے کا حل نہیں، ترجمان ذبیح اللہ مجاہد
- اسلام آباد(ویب نیوز)
ترجمان امارات اسلامیہ ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ہے کہ پاکستان دہشتگردی کے واقعات کی ذمہ داری افغان عوام پرعائد کرنے کے بجائے اپنی سرحدوں کے اندر جواب ڈھونڈے، داعش میں اسکے باشندے شامل ہیں۔ پاکستانی حکام کی جانب سے افغانستان سے دراندازی کے بیانات پرردعمل میں جاری کیے جانے والے بیان میں ترجمان امارت اسلامیہ نے کہا کہ پاکستان میں حالیہ افسوسناک واقعات کے بعد ایک بار پھر پاکستانی حکام نے اپنے ملک کی سیکیورٹی مضبوط کرنے کی بجائے ذمہ داری افغان عوام پر عائد کی ہے۔امارت اسلامیہ افغانستان یہ الزامات مسترد کرتی ہے۔ ترجمان نے کہا کہ اگر کوئی پاکستان میں حملہ کرتا ہے یا داعش کے نام پر افغانستان اور پاکستان کے مسلمانوں کا خون بہاتا ہے تو اس کے حل کے لیے مشترکہ کوشش ہونی چاہیے۔ الزام تراشی مسئلے کا حل نہیں۔ ذبیح اللہ مجاہد کے بیان کے مطابق پاکستانی حکام کو یاد دلاتے ہیں کہ افغانستان طویل جنگوں سے نکلا ہوا ملک ہے اور کسی بھی ملک خصوصا کسی پڑوسی ملک میں ہرگز بدامنی نہیں چاہتا۔افغان حکومت ایک بار پھر اپنا اصولی موقف دہراتی ہے کہ افغانستان اپنی سرزمین کسی بھی دوسرے ملک کے خلاف استعمال ہونے کی اجازت نہیں دیتا۔ لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ افغانستان خطے کے ہرملک کی سیکیورٹی کی ناکامی کا ذمہ دار ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا خطہ گزشتہ 20 سال تک امریکی قیادت میں بیرونی جارحیت اور خطے کے بعض ممالک کی غلط سیاسی پالیسیوں کا شکار رہا جس کے اثرات اب تک محسوس کیے جارہے ہیں۔پاکستان کو اپنے امن و امان کی صورت حال پر سنجیدگی سے توجہ دینی چاہیے اور اس کا حل اپنے گھر میں تلاش کرنا چاہیے۔ پاکستان کے اندر حملوں کی روک تھام ہماری نہیں بلکہ اس کے اندر موجود انٹیلی جنس اور سیکیورٹی اداروں کی ذمہ داری ہے ۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ جس طرح سے افغانستان اور خطے میں علمائے دین اور مدارس کیخلاف حملوں کا ایک بڑا منصوبہ جاری ہے اس کے بارے میں ہمارے انٹیلی جنس ادارے پہلے سے معلومات حاصل کرچکے ہیں اور اس حوالے سے خطے کے ممالک سے معلومات بھی شریک کی ہیں مگر افسوس کہ کچھ ممالک نے اس حوالے سے اقدامات نہیں کیے ہیں۔ امارت اسلامیہ ایک بارپھر تاکید کے ساتھ کہتی ہے کہ ہم پاکستان میں کسی قسم کے حملے کی حمایت نہیں کرتے اور نہ کسی کو اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کرے۔ ترجمان امارت اسلامیہ کی جانب سے مزید کہا گیا کہ پ لوگوں اور عالمی دنیا کی توجہ ہٹانے کے لیے افغانستان پر الزامات عائد نہ کریں۔جب سے افغانستان میں آزاد و خودمختار حکومت قائم ہوئی ہے افغانستان اور خطے میں امن و امان کی صورت حال میں قابل ذکر بہتری آئی ہے۔ اگر صرف پاکستان میں بدامنی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے تو پاکستان کو چاہیے اس کا حل بھی اپنے ملک میں تلاش کرے۔