مالیاتی ایڈجسٹمنٹ اور وسیع البنیاد اصلاحات کے نفاذکے بغیرپاکستان اندرونی اوربیرونی جھٹکوں کے خطرات کی زدمیں رہے گا، عالمی بینک
طویل المعیاد بنیادوں پربحالی کیلئے اصلاحات کی کوششیں جاری رکھنی ہوگی، پاکستان ڈویلپمنٹ اپ ڈیٹ رپورٹ
اسلام آباد(ویب نیوز)
عالمی بینک نے کہاہے کہ طویل المعیاد بنیادوں پربحالی کیلئے اصلاحات کی کوششیں جاری رکھنی ہوگی،وسطی مدت کیلئے بحالی کو یقینی بنانے کیلئے ٹیکسوں میں چھوٹ کے خاتمہ، ٹیکس کی بنیاد میں وسعت، زرعی شعبہ، ری ٹیلرز اورپولٹری کوٹیکس نیٹ میں لانے، زرتلافیوں کے خاتمہ کے ذریعہ سرکاری اخراجات میں کمی، توانائی کے شعبہ میں مالیاتی موزونیت اورسرکاری کاروباری اداروں میں نجی شعبہ کی شمولیت کویقینی بنایا جائے ۔بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے سٹینڈبائی ایگری منٹ کے برق رفتارنفاذ ، نئی بیرونی مالیات اورمالیاتی رکاوٹوں کی وجہ سے جاری مالی سال میں جی ڈی پی کی شرح نمو1.7 فیصد اورمالی سال 2025 میں 2.4 فیصد تک رہنے کاامکان ہے، وسطی مدت کیلئے بحالی کو یقینی بنانے کیلئے ٹیکسوں میں چھوٹ کے خاتمہ، ٹیکس کی بنیاد میں وسعت، زرعی شعبہ، ری ٹیلرز اورپولٹری کوٹیکس نیٹ میں لانے، زرتلافیوں کے خاتمہ کے زریعہ سرکاری اخراجات میں کمی، توانائی کے شعبہ میں مالیاتی موزونیت اورسرکاری کاروباری اداروں میں نجی شعبہ کی شمولیت ضروری ہے۔ یہ بات عالمی بینک کی جانب سے پاکستان ڈویلپمنٹ اپ ڈیٹ کے عنوان سے جاری ایک رپورٹ میں کہی گئی ہے۔رپورٹ کے مطابق مالی سال 2023 میں پاکستان کی معیشت سست روی کاشکاررہی ،مالی سال سال 2023 میں پاکستان کی حقیقی جی ڈی پی 0.6 فیصد تک سکڑنے کااندازہ ہے۔رپورٹ میں بتایا گیاہے کہ 2022 کا بدترین سیلاب ، درآمدات اور سرمائے کے بہاو پر پابندیاں ، بیرونی دبائو، عالمگیرافراط زر اور سخت عالمی فنانسنگ کی وجہ سے اقتصادی سرگرمیوں میں کمی آئی۔ مشکل معاشی حالات کے ساتھ ساتھ توانائی اور خوراک کی بلند قیمتوں، کم آمدنی اور 2022 کے سیلاب کی وجہ سے فصلوں،املاک اور لائیوسٹاک کے نقصانات سے غربت میں نمایاں اضافہ ہوا ۔ مالی سال 2023 میں غربت کی شرح 39.4 فیصد تک پہنچنے کا تخمینہ ہے جو مالی سال 2022 میں 34.2 فیصدکے قریب تھا۔پاکستان میں عالمی بینک کے کنٹری ڈائریکٹر ناجی بن حسائن نے بتایا کہ کلی معیشت کے استحکام اور ترقی کو یقینی بنانے کے لیے محتاط معاشی انتظام اور دوررس ڈھانچہ جاتی اصلاحات کی ضرورت ہے۔انہوں نے بتایا کہ اشیائے خوراک اورتوانائی کی بلندقیمتوں، شدید ماحولیاتی واقعات، عوامی اخراجات اورانسانی سرمایہ کاری کیلئے وسائل کی کمی کے تناظرمیں اصلاحات ضروری ہے تاکہ جامع اورپائیدارترقی اورنموکیلئے مطلوبہ گنجائش نکل سکے۔ عالمی بینک کی رپورٹ میں کہاگیاہے کہ مالیاتی ایڈجسٹمنٹ اور وسیع البنیاد اصلاحات کے نفاذکے بغیرپاکستان اندرونی اوربیرونی جھٹکوں کے خطرات کی زدمیں رہیں گا۔بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے سٹینڈبائی ایگری منٹ کے برق رفتارنفاذ ، نئی بیرونی مالیات اورمالیاتی رکاوٹوں کی وجہ سے جاری مالی سال میں جی ڈی پی کی شرح نمو1.7 فیصد اورمالی سال 2025 میں 2.4 فیصد تک رہنے کاامکان ہے۔رپورٹ میں بتایا گیاہے کہ اس صورتحال کے تناظرمیں وسطی مدت تک کیلئے اقتصادی نمواستعدادسے کم رہیں گی تاہم سرمایہ کاری اوربرآمدات میں بہتری آئیگی۔ رپورٹ میں بتایا گیاہے کہ نئی بیرونی معاونت سے درآمدات میں نرمی کی وجہ سے حسابات جاریہ کے کھاتوں خسارہ وسیع ہوجائیگا ، کمزورکرنسی اورتوانائی کی قیمتوں میں اضافہ سے افراط زرکادبائو برقراررہنے کاامکان ہے۔مالی استحکام برقراررکھنے سے پرائمری خسارہ کم ہونے کا امکان ہے تاہم قرضوں پرسودکی ادائیگی کی وجہ سے مجموعی خسارہ میں معمولی کمی متوقع ہے۔پاکستان کااقتصادی منظرنامہ لیکویڈیٹی کے چیلنجوں ، قرضوں کی ادائیگی اوربیرونی جھٹکوں سے مشروط ہے۔عالمی بینک سے وابستہ ماہراقتصادیات عروب فاروق نے بتایا کہ ٹیکس پالیسی میں جامع اصلاحات، عوامی اخراجات کومعقول بنانے، سرکاری قرضوں کے بہترانتظام وانصرام اورمالیاتی مسائل پرمضبوط بین الحکومتی رابطہ کاری کے زریعہ کلی معیشت کے چیلنجوں سے نمٹاجاسکتاہے۔انہوں نے کہاکہ طویل المعیاد بنیادوں پربحالی کیلئے اصلاحات کی کوششیں جاری رکھنی ہوگی۔رپورٹ میں وسطی مدت کیلئے بحالی کو یقینی بنانے کیلئے ٹیکسوں میں چھوٹ کے خاتمہ، ٹیکس کی بنیاد میں وسعت، زرعی شعبہ، ری ٹیلرز اورپولٹری کوٹیکس نیٹ میں لانے، زرتلافیوں کے خاتمہ کے ذریعہ سرکاری اخراجات میں کمی، توانائی کے شعبہ میں مالیاتی موزونیت اورسرکاری کاروباری اداروں میں نجی شعبہ کی شمولیت کی سفارش کی گئی ہے۔۔