حقیقی آزادی مارچ: شاہ محمود اور علی امین گنڈاپور کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری
اسلام آباد ( ویب نیوز)
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی مقامی عدالت نے حقیقی آزادی مارچ پر درج مقدمے میں وزیر اعلی خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور اور شاہ محمود قریشی کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے۔ جوڈیشل مجسٹریٹ نوید خان نے تھانہ کورال میں درج مقدمے کی سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری کر دیا ہے۔حکمنامے میں کہا گیا کہ 26مئی 2022 کو تھانہ کورال میں درج مقدمے میں عدم ثبوتوں کی بنا پر تحریک انصاف کے رہنما فیصل جاوید خان اور علی نواز اعوان کو بری کیا جاتا ہے۔اس حوالے سے کہا گیا عدالت پہلے ہی حقیقی ازادی مارچ کے اس مقدمے سے بانی پی ٹی آئی عمران خان کو بری کر چکی ہے۔عدالت نے حکمنامے میں مزید کہا کہ طلبی کے باوجود مسلسل عدم پیشی پر شاہ محمود قریشی اور علی امین گنڈاپور کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے جاتے ہیں۔عدالت نے کہا کہ کیس کو دوبارہ سماعت کے لیے 20 مئی کو مقرر کیا جاتا ہے۔واضح رہے کہ عمران خان کے 25 مئی 2022 کو ہونے والے حقیقی آزادی مارچ کو روکنے کے لیے حکام نے دفعہ 144 نافذ کی تھی جس کے تحت 4 سے زائد افراد جمع نہیں ہو سکتے اور اس اقدام کا مقصد اجتماعات کو روکنا تھا۔حکام نے عمران خان کے مارچ کو روکنے کے لیے اہم شاہراہوں پر شپنگ کنٹینرز رکھ کر انہیں اسلام آباد میں داخل ہونے سے روکنے کی کوشش کی تھی۔حکام کی طرف سے لگائے کنٹنیرز کے باوجود مارچ کے شرکا بلا خوف تمام رکاوٹوں کو عبور کرکے اسلام آباد میں داخل ہوئے تھے جس پر پولیس نے ان کو منتشر کرنے کے لیے لاٹھی چارج کرنے کے ساتھ ساتھ آنسوں گیس اور شیلنگ کا استعمال کیا تھا۔اس دوران ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والے فوٹیج میں زمین سے دھواں اٹھتا نظر آیا تھا اور اسلام آباد کی مرکزی شاہراہوں سے ملحقہ گرین بیلٹس میں آگ لگتی دکھائی دے رہی تھی۔حکومت نے دعوی کیا تھا کہ یہ آگ تحریک انصاف کے حامیوں نے لگائی تھی جب کہ پی ٹی آئی کا دعوی تھا کہ آگ پولیس کی شیلنگ کی وجہ سے لگی تھی، تاہم ان دونوں میں کسی کی بھی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں ہو سکی۔گزشتہ سال مئی کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ تحریک انصاف کی قیادت بشمول عمران اور دیگر کارکنان کے خلاف آزادی مارچ کے سلسلے میں لوئی بھیر، سیکرٹریٹ پولیس، آب پارہ پولیس، گولڑہ پولیس، بھارہ کہو پولیس ، ترنول پولیس، اور کورال پولیس کی جانب سے پاکستان پینل کوڈ کی مختلف دفعات کے تحت مزید 11 مقدمات درج کیے گئے تھے۔