اسلام آباد ہائی کورٹ 6 ججز خط کا معاملہ
سپریم کورٹ کاپر ملک کی پانچوں ہائی کورٹس کی جانب سے جمع کروائے گئے جواب ،سفارشات اورتجاویزپر وفاقی حکومت سے جواب طلب
 جب تک پارلیمان مضبوط نہیں بنے گی تودوسری طاقتیں مضبوط بنتی جائیں گی، عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنائیں گے،چیف جسٹس
سپریم کورٹ کی تاریخ کاذمہ دارنہیں، اس وقت سے ذمہ دار ہوں جب سے چیف جسٹس بنا ہوں،دوران سماعت ریمارکس
 اٹارنی جنرل ،وفاقی حکومت کی جانب سے جواب جمع کروائیں ، اگر کسی انٹیلیجنس ایجنسی پر کوئی الزام ہے تووہ بھی اٹارنی جنرل کے زریعہ جواب جمع کروائے گی،عدالت
 6رکنی لارجر بینچ  کی ازخود نوٹس پر سماعت کی کاروائی براہ راست سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر دکھائی گئی، سماعت تقریبا3گھنٹے جاری رہی
اسلام آباد( ویب  نیوز )

سپریم کورٹ آف پاکستان نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز کی جانب سے لکھے گئے خط کے معاملہ پر ملک کی پانچوں ہائی کورٹس کی جانب سے جمع کروائے گئے جواب ،سفارشات اورتجاویزپر وفاقی حکومت سے جواب طلب کر لیا۔ عدالت نے قراردیا ہے کہ اٹارنی جنرل ،وفاقی حکومت کی جانب سے جواب جمع کروائیں اوراگر وفاقی حکومت مخصوص سفارشات جمع کروانا چاہے توکرواسکتی ہے، دوجواب جمع کروائے جائیں ایک الزامات کے حوالہ سے اوردوسرا اگر کوئی خود سے کوئی تجاویز دینا چاہتے ہیں تواس پر مشتمل جواب جمع کرواسکتے ہیں۔ عدالت نے قراردیا ہے کہ اگر کسی انٹیلیجنس ایجنسی پر کوئی الزام ہے تووہ بھی اٹارنی جنرل کے زریعہ جواب جمع کروائے گی۔جبکہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ پارلیمان کو مضبوط سے مضبوط تربنائیں جب تک پارلیمان مضبوط نہیں بنے گی تودوسری طاقتیں مضبوط بنتی جائیں گی۔ ہم اس معاملہ میں کسی کو فریق نہیں بنائیں گے کیونکہ پارٹی بننے والی کوئی بات نہیں۔ جو کچھ بھی ہو جائے کسی کے ذہن میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ ہم عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنائیں گے۔ جب ہم نے مداخلت کے حوالہ سے مانیٹرنگ ججز لگانے کے میکنزمز بنائے تویہ عدلیہ کو نیچا دکھانے کے مترادف ہے، جب ہم نے انٹیلیجنس ایجنسیز کو جے آئی ٹیز بناکر مینڈیٹ دیا جو کہ صرف انسداد دہشت گردی قانون کے تحت ہوسکتا تو ہم نے عدلیہ کی آزادی کو نیچا دکھایا۔ سپریم کورٹ کی تاریخ کاذمہ دارنہیں بلکہ میں اس وقت سے ذمہ دار ہوں جب سے چیف جسٹس بنا ہوں۔جبکہ جسٹس سید منصورعلی شاہ  نے کہا ہے کہ آج اس کیس کے زریعہ ہم معاملہ کو حل کرسکتے ہیں کہ نہ اندر سے مداخلت ہو اورنہ باہر سے مداخلت ہو۔ میری سوچ یہ ہے کہ ہم کیا کریں، ہم اپنا گھر توٹھیک کریں پہلے ہم اپنا گھر دیکھتے ہیں پھر ہم حکومت کی طرف بھی آئیں گے۔جبکہ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہے کہ ہ ایجنسیز، وزیر اعظم کے ایگزیکٹو کنٹرول کے ماتحت ہیں اگر وہ کچھ کررہی ہیں تووزیر اعظم اور کابینہ ذمہ دار ہیں۔ صرف ایک ہی ایشو ہے کہ کیسے عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنانا ہے اور کیسے اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ریاست اوراس کے اجزاء کسی جج کے کے کام میں براہ راست یا بلاواسطہ مداخلت نہ کریں اور نہ ہی اسے دھمکانے کی کوشش کریں۔ اگر جج کے خلاف ریاست جارح بن جائے تویہ سنجیدہ معاملہ ہے۔جبکہ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا ہے کہ جو دبائو برداشت نہیں کرسکتے ان کو سیٹوں پر نہیں بیٹھنا نہیں چاہیئے۔ چیف جسٹس جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 6رکنی لارجر بینچ نے منگل کے روز اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6ججز کی جانب سے25مارچ2024کو سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھے گئے خط کے حوالہ سے لئے گئے ازخود نوٹس پر سماعت کی۔ بینچ کے دیگر ارکان میں جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ ، جسٹس مسرت ہلالی اورجسٹس نعیم اخترافغان شامل تھے۔ سماعت کی کاروائی براہ راست سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر دکھائی گئی۔ کیس کی سماعت 11بجکر40پر شروع ہوئی جس کے دوران ایک وقفہ بھی کیا گیا۔ بینچ نے ازخودنوٹس کے ساتھ دائر ہونے والی دیگر9درخواستوں پر بھی سماعت کی۔ دیگر درخواستیں لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر اسد منظور بٹ،،پاکستان بار کونسل کے 6ممبران، بیرسٹر چوہدری اعتراز احسن، میاں دائود ایڈووکیٹ، اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر، بلوچستان ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر،اور ایڈیشنل سیکرٹری سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن آف پاکستان شہبازعلی خان کھوسہ کی جانب سے دائر کی گئی ہیں۔درخواستیں فریق بننے کی اجازت دینے اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6ججز کے خط پر جوڈیشل انکوائری کروانے کے لئے دائر کی گئی ہیں۔درخواستوں میں وفاق پاکستان کو سیکرٹری قانون ونصاف، سیکرٹری کابینہ ڈویژن اوردیگر کی وساطت سے فریق بنایا گیا ہے۔ عدالت کی جانب سے اٹارنی جنرل آف پاکستان بیرسٹر منصور عثمان اعوان کو نوٹس بھی جاری کیا گیاتھا۔ اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے تمام ہائی کورٹس کی جانب سے بھجوائی گئی تجاویز اورسپریم کورٹ کاآخری سماعت کا حکمنامہ ، جسٹس اطہر من اللہ کانوٹ اور جسٹس یحییٰ خان افریدی کا بینچ سے الگ ہونے کے حوالہ سے نوٹ بھی پڑھ کرسنایا۔ سماعت کے موقع پر کمرہ عدالت وکلاء اور میڈیا نمائندوں سے کھچا کچھ بھرا ہوا تھا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر کوئی شخص بات کرے گاتواسے فوری طور پر کمرہ عدالت سے نکال دیا جائے گا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کوئی پک اینڈ چوز نہیں کیا گیا اور اسلام آباد میں موجود سارے ججز پر مشتمل 7رکنی لارجر بینچ بنایا گیا تھا، جسٹس یحییٰ خان آفریدی نے خود سماعت سے الگ ہونے کا فیصلہ کیا اوراس حوالہ سے آرڈر جاری کیا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہرجج کا نقطہ نظر اہم ہے، میں نے کہا تھا کہ آئندہ سماعت پر ہوسکتا ہے کہ فل کورٹ بنائیں تاہم دو جج دستیاب نہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر ہم سماعت ملتوی کرتے ہوئے تواس سے ملک میں مزید پولارائزیشن پھیلتی کیونکہ لوگ عدلیہ کی آزادی کے بجائے ان نقط نظرغالب ہو، اگر کوئی شخص اپنی مرضی عدالت پر تھوپنا چاہتا ہے تویہ بھی مداخلت ہے، مداخلت اندر سے بھی ہوسکتی ہے، باہر سے بھی ہوسکتی ہے، انٹیلیجنس ایجنسیز کی جانب سے بھی ہوسکتی ہے، آپ کے ساتھیوں، خاندان کے ارکان ، سوشل میڈیا اورکسی دوسرے کی جانب سے بھی ہوسکتی ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ میں سپریم کورٹ کی تاریخ کاذمہ دارنہیں بلکہ میں اس وقت سے ذمہ دار ہوں جب سے چیف جسٹس بنا ہوں، میں پارلیمنٹ کا شکر گزارہوں جس نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ2023نافذ کیا، کیونکہ ہم ناکام ہوئے تھے، انہوں نے درستگی کی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جو کچھ بھی ہو جائے کسی کے ذہن میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ ہم عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنائیں گے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہمیں تبدیلی لانے کے لئے کام کرنا ہوگا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم نے ہائی کورٹ ، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور پاکستان بارکونسل سے تجاویز طلب کی تھیں۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیاانہوں نے ہائی کورٹس کی جانب سے بھجوائی گئی تجاویز اورسفارشات پڑھ ہیں۔ اس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا نہیں پڑھیں۔ اس موقع پر جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ یہ صرف تجاویز نہیں بلکہ ہر ہائی کورٹ نے چارج شیٹ جاری کی ہے۔ چیف جسٹس نے عدالتی عملے کو ہدایت کی کہ وہ تجاویز اٹارنی جنر ل کو دیں۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی سفارشات سے شروع کریں۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ کیا سفارشات متفقہ ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جو چار چیزیں ہائی کورٹ نے کہی ہیں وہ آئین کے تحت یہ خود کرسکتی ہے کہ نہیں۔ اس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھاکہ کرسکتی ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیا ہم آئین کے تحت ہائی کورٹ کو ہدایات دے سکتے یں کیونکہ ایساکرنا ہائی کورٹ کے معاملات میں مداخلت ہو گی، ہائی کورٹ ان تجاویز پرکل عمل کرے۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے الگ نوٹ بھی لکھا ہے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم جلد ازجلد معاملات کاحل کرنا چاہتے ہیں، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ عدلیہ کے اندر سے بھی مداخلت ہورہی ہو۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جب ہم نے مداخلت کے حوالہ سے مانیٹرنگ ججز لگانے کے میکنزمز بنائے تویہ عدلیہ کو نیچا دکھانے کے مترادف ہے، جب ہم نے انٹیلیجنس ایجنسیز کو جے آئی ٹیز بناکر مینڈیٹ دیا جو کہ صرف انسداد دہشت گردی قانون کے تحت ہوسکتا تو ہم نے عدلیہ کی آزادی کو نیچا دکھایا،ہمیں عدلیہ کے اندر سے ہونے والی مداخلت پر بھی احتساب کرنا ہوگا،میں کسی بھی زریعہ سے ہونے والی مداخلت کو قبول نہیں کروں گا، میں واقعات بتاسکتا ہوں کہ کیسے سپریم کورٹ کو مینی پولیٹ کیا گیا۔جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ اگر جج کے خلاف ریاست جارح بن جائے تویہ سنجیدہ معاملہ ہے، گزشتہ سماعت کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک جج کا ذاتی ڈیٹا  جس تک پرائیویٹ شخص کی رسائی نہیں ہوسکتی وہ سوشل میڈیا پر ڈالا گیا، جو کہ دھمکانے کے ضمرے میں آتا ہے جو کہ جج کو متاثر کرتا ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ یہ منظرنامہ ہے جو کہ گزشتہ 76سال سے ہورہا ہے۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ آج اس کیس کے زریعہ ہم معاملہ کو حل کرسکتے ہیں کہ نہ اندر سے مداخلت ہو اورنہ باہر سے مداخلت ہو، توہین عدالت کی ہائی کورٹس کے پاس اختیارات ہیں انہوں نے اسے استعمال نہیں کیا، ہمیں اس سلسلہ کوروکنے کے لئے آہنی دیوار بنانا ہوگی، سول جج کے ساتھ اگر کوئی واقعہ پیش آتا ہے توہائی کورٹ کچھ نہیں کرتی تو پھر سپریم جوڈیشل کونسل کیا کرسکتی ہے، ہم نظام کوٹھیک کرنا چاہتے ہیں۔جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ امیگریشن اور نادرا کی جانب سے ڈیٹا لیک ہوتا ہے تو پاس کی ذمہ داری ریاست پر ہے، ایسے ججز کو ہم جانتے ہیں کہ جن کو کہا جاتا ہے کہ تمہارا بچہ فلاں جگہ پڑھتا ہے اورریاست ایسا کررہی ہے۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ یہ کیوںکہ فون اُدھر رکھو، فون اُدھر رکھ کر بات کرو، اِدھر آجائو، اُدھر بات کرو، یہ کون ساکلچر ہم چلارہے ہیں، اس کمرے میں نہیں بیٹھو ، اُس کمرے سے باہر نکل کر بات کرو، یہ کوئی سن لے گا، فون کچھ ہوجائے گا، یہ کس قسم کی ریاست ہم چلارہے ہیں، میں اپنا فون رکھ دون، میں کسی شخص سے بات نہیں کرسکتا، اِس کمرے میں کچھ ہوسکتا ہے، اُس کمرے میں کچھ ہوسکتا ہے، یہ کس قسم کا کلچر ہے، ہم اس کیس میں معاملات کو ٹھیک کرنا چاہتے ہیں، میں ہروقت خوف کاشکاررہتا ہوں کہ کوئی میری ریکارڈنگ کررہا ہے اور کوئی مجھے دیکھ رہا ہے، یہ کیا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہوسکتا ہیکہ لاہور میں زیادہ دبانے والا ماحول ہو مگر بلوچستان میں ایسا نہیں، بلوچستان والوں نے اچھی پریکٹیکل باتیں کی ہیں۔جسٹس نعیم اخترافغان کا کہنا تھا کہ بلوچستان سے جواب نہیں آیا، اس لئے نہیں آیا کہ اگر کوئی مداخلت ہے توججز کو پتا ہے کہ کیسے اس سے نمٹنا ہے۔جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ ریاست نے عدلیہ کی آزادی کا تحفظ کرناہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر میرے کام میں کوئی مداخلت کررہا ہے تومجھے گھر چلے جانا چاہیئے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہر کسی کی مذمت نہیں کرنی چاہیئے بلکہ جس نے غلط کام کیا ہے اس کی مذمت کرنی چاہیئے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ لوگ مداخلت کی کوشش کرتے ہیں یہ بعد کا مسئلہ ہے کہ وہ کامیاب ہوتے ہیں کہ نہیں۔ جسٹس مسرت ہلالی کا کہنا تھا کہ جو دبائو برداشت نہیں کرسکتے ان کو سیٹوں پر نہیں بیٹھنا نہیں چاہیئے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ چارسال، سات ماہ 22دن تک فیض آباد دھرنا کیس کے حوالہ سے نظرثانی درخواستیں سماعت کے لئے مقرر نہیں کیں، کیا کوئی توجیح پیش کی جاسکتی ہے کہ کیوں پانچ سال تک نظرثانی درخواستیں سماعت کے لئے مقرر نہیں ہوئی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ آسانی کے ساتھ قانون سازی کرسکتی ہے، کیوں قانون سازی نہیں کررہے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ انٹیلیجنس ایجنسیز، عدلیہ اوردیگر جگہوں پر اچھے اوربرے لوگ ہوں گے۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ ایجنسیز، وزیر اعظم کے ایگزیکٹو کنٹرول کے ماتحت ہیں اگر وہ کچھ کررہی ہیں تووزیر اعظم اور کابینہ ذمہ دار ہیں۔ جسٹس سیدمنصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ تساہل کے معاملہ کوختم کرنے بیٹھے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ میں نے کوئی تساہل نہیں دکھایا جب سے میں نے حلف لیا ہے  یہ سلسلہ ختم ہوچکا ہے، ماضی کی طرح اب کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ تین ججز ہیں یاچار ججز ہیں، مجھے توجوڈیشل آرڈر کے زریعہ کیسز سے الگ کیا گیا کہ یہ جج یہ کیسز نہیں سن سکتا چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ میں نے تحریری فیصلہ لکھا کہ فیض آباد دھرنا کے پیچھے جنرل فیض حمید تھے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیوں قانون سازی نہیں کرپارہے، ہم چاہتے ہیں کہ پارلیمان کو مضبوط سے مضبوط تربنائیں جب تک پارلیمان مضبوط نہیں بنے گی تودوسری طاقتیں مضبوط بنتی جائیں گی۔ جسٹس نعیم اخترافغان کا کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل اس حوالہ سے جواب دیں کہ آئی ایس آئی ، ایم آئی اورآئی بی کس قانون کے تحت وجود میں آئیں اور ان کا کام کیا تھا اورجاب ڈسکرپشن کیا تھی اوران کا کام کیا تھا،اوراگر ان ایجنسیز کا کوئی افسراپنے اختیار سے تجاوز کرتا ہے تویا کسی بھی ادارے کو قومی مفادیا کسی اوربہانے سے اپروچ کرتا ہے توکیا قانو میں اس افسر کے خلاف احتساب کا میکنزم ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ ہم نے کرکے دکھایا ہے اب حکومت بھی کرکے دکھائے ، سب کو سچ پتا ہے مگر بولتا کوئی نہیں، کیوں کہ جو بولے گا اس کے ساتھ وہی ہو گا جو چھ ججز کے ساتھ ہوا۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ میری سوچ یہ ہے کہ ہم کیا کریں، ہم اپنا گھر توٹھیک کریں پہلے ہم اپنا گھر دیکھتے ہیں پھر ہم حکومت کی طرف بھی آئیں گے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھاکہ ہم نے دیکھنا ہے کہ کوئی میکنز ہے کہ نہیں، بیوروکریسی کے پاس کوئی میکنزم نہیں ، ہمارے پاس بہت سارے اخیتارات ہیں ، سوال یہ ہے کہ انہیں استعمال کیوں نہیں کیاجارہا۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ ماضی میں یہی ہوتا رہا ہے کہ ہم تساہل کاشکاررہے ہیں۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ نظام ہونا چاہیئے کہ ہر جج کھڑاہوجائے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگرریفرنس آتا ہے تووہ کسی انٹیلجنس ایجنسی، پارلیمنٹ ، حکومت یا بیوروکریسی کے پاس جاتا ہے، وہ بھی ججز کے پاس آتا ہے اسے اٹھا کر باہر پھینک دیں، ہم نے توجرمانہ بھی لگایا ہے۔ بلوچستان ہائی کورٹ کے جواب میں شعر لکھنے کے معاملہ پر جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے لوگ تھوڑے رومینٹک ہوتے ہیں۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ پشاور ہائی کورٹ نے افغانستان والی بات کی اس پر لارجر بینچ بنا لیتے، کیوں نہیں بنایا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ میں عدلیہ کی آزادی چاہتاہوں، اگر ہائی کورٹ نہ کرے تو پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیاں بھی قانون سازی کرسکتی ہیں۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ ہم اپنے سسٹم کو مضبوط کر لیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر ڈسٹرکٹ جج، چیف جسٹس کوخط نہیں لکھتا تو پھر میرا قصور نہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ اگر سیاستدان مداخلت کے زریعہ مینج نہ کریں توپھر سارے معاملات ٹھیک ہوسکتے ہیں۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ ہم آج کیس ختم کرسکتے ہیں کہ ہائی کورٹ اپنا کام کریں، ہم ایک سسٹم بنانے کے لئے بیٹھے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہائی کورٹس آزاد عدالتیں ہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ ہائی کورٹس کہہ رہی ہیں کہ مداخلت ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ جب ہم ہائی کورٹ میں ہوتے تھے توسمجھتے تھے کہ اوپر سپریم کورٹ کا ڈنڈا ہے، ججز کو ہم نے بتانا ہے کہ آپ آزاد ہیں۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ ہم نے نظام بنانا ہے کہ ججز بے خوف ہوکرکام کریں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ میں آئین پر چلنے والا آدمی ہوں، اگر سپریم جوڈیشل کونسل کی بات ہے تومیں کیس نہیں سن سکتا اس کے پانچ رکن ہیں اور وہ سپریم کورٹ کے ماتحت نہیں بلکہ وہ آزاد ادارہ ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ میں پارلیمنٹ کے بنائے قانون کو کالعدم قراردے سکتا ہوں تاہم خودقانون سازی نہیں کرسکتا، آئین بنانے والوں سے زیادہ ہمیں خود کوزیادہ چالاک نہیں سمجھنا چاہیئے۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ اپنے آرگنز کو کنٹرول کریں یہ حکومت کی آئینی ذمہ داری ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا جواب پڑھنے میں بلوچستان کوآخر پر ہی رکھیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ میرے پاس یاکمرہ عدالت میں موجود وکلاء پاس جادوکی چھڑی نہیں کہ عدلیہ کی آزادی کویقینی بناسکیں، جمہوریت ایک سفر ہے، ہرجگہ بہتری کی طرف جاسکتے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھاکہ میں نے کہا کہ ججز کی تعیناتی کے حوالہ سے انٹیلیجنس ایجنسیز جوڈیشل کمیشن کی ممبرنہیں اس لئے ججز کی تعیناتی میں ان کی رپورٹس کی ضرورت نہیں، یہ پریکٹس اب ختم ہوگئی ہے جب ہم ان سے رپورٹس منگوائیں گے تو کل کو وہ کہیں گے کہ آپ ہم سے رپورٹس منگواتے ہیں، بار ، بار یہ چیزیں لائی گئیں میں ہر دفعہ اس کی سختی سے مخالفت کی، کسی چیز کے آج بینیفشری ہوسکتے ہیں اور کل کو وہی چیز ہمارے خلاف ہوسکتی ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ اس خط کی وجہ سے باقی ججز بھی بول پڑے تاہم اب بھی سارے نہیںبولے۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ معاملہ فل کورٹ کی تشکیل کے لئے تین رکنی کمیٹی کوبھجوایا جائے۔ جسٹس منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ تین انٹیلیجنس ایجنسیاں جواب دیں۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ بیان حلفی دیں کہ جو ہائی کورٹس کہہ رہی ہیں وہ حقائق نہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ قانون سازی نہ ہونا سب سے بڑی خامی ہے، ہرکسی کو آئین کے پیرامیٹرز میں رہ کر کام کرنا ہوگا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت جواب دے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم نے پاکستان کو فنگشنل بنانا ہے تاکہ لوگوں کے لئے کام ہوسکے۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ ہائی کورٹ نے آج جواب جمع کروایا ہے یہ پرانی بات نہیں ، جواب جمع کروائیں۔ اس کے بعد عدالت نے سماعت میں مختصر وقفہ کردیا۔ وفقہ کے بعد چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور پاکستان بار کونسل کو باقائدہ نوٹسز جاری کئے تھے، میں نے پاکستان بار کونسل کا جواب دیکھا تھا، کیا سپریم کورٹ بار نے بھی جواب دیا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ بہت سی درخواستیں فریق بننے کے لئے دی ہیں، ہم نہیں چاہتے کہ نوٹس جاری کریں اورتاخیر ہو، کوئی اچھی تجاوزیر دینا چاہتا ہے اس کو خوش آمدید کہیں گے، ہم کسی کو فریق نہیں بنانا چاہتے کیونکہ پتا نہیں دوسرا فریق کون ہو گا۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم سماعت 7مئی دن ساڑھے 11بجے تک ملتوی کردیتے ہیں، اٹارنی جنرل اپنا جواب جمع کروادیں۔ اٹارنی جنرل یا کوئی بھی دوسرا جوکوئی چیز جمع کرواناچاہے اسے خوش آمدید کہا جائے گا اور ہوسکے تو جواب کو مختصر ترین رکھیں کیونکہ اگرلمبا چوڑا لکھیں گے تواس کو پڑھنا مشکل ہو جائے گا۔ دوران سماعت سینئر وکیل بیرسٹر چوہدری اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ میری درخواست پر نوٹس کردیں۔ اس پرچیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کس کو نوٹس جاری کریں۔ اس موقع پر جسٹس سید منصورعلی شاہ اعتزاز احسن سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہائی کورٹس نے جواب جمع کروادیا ہے آپ بھی جواب جمع کروادیں ہم اس کو پڑھ لیں گے اور پروسیجر بن جائے تو بہت اچھا ہو جائے گا۔ اس موقع پر سینئر وکیل حامد خان ایڈووکیٹ کا کہناتھا کہ فل کورٹ تشکیل دے دیں۔ اس پر چیف جسٹس کا انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا کیاآپ کاہمارے اوپر بھروسہ نہیں ہے۔ حامد خان کا کہنا تھا کہ دو ججز دستیاب نہیں تو باقی تمام پر مشتمل فل کورٹ بنادیں۔ اعتزاز احسن کا کہنا تھاکہ وہ فل کورٹ بینچ بنانے کی درخواست نہیں کررہے بلکہ موجودہ بینچ سے ہی مطمئن ہیں، اپیل کا بھی حق آگیا ہے اس لئے ایک اورموقع بھی ہمیں ملے گا۔ چیف جسٹس کا اعتزاز احسن نے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا روسٹرم پرآکر بات کرتے ہیں یہ توہم نے آپ سے سیکھا ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ اس کیس میں کوئی دوسری سائیڈ نہیں بلکہ سب ایک سائیڈ پر کھڑے ہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ صرف ایک ہی ایشو ہے کہ کیسے عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنانا ہے اور کیسے اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ریاست اوراس کے اجزاء کسی جج کے کے کام میں براہ راست یا بلاواسطہ مداخلت نہ کریں اور نہ ہی اسے دھمکانے کی کوشش کریں۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ سب لوگ حامد خان کو اپنی تجاویز دے دیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ میں جمہوری آدمی ہوں اور میں سنیارٹی سے جمہورتی کو آگے رکھتا ہوں، وکلاء کی دوتنظیمیں ہیں پاکستان بار کونسل اورسپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کو اپنی تجاویز دے دیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم اس حقیقت سے ناواقف نہیں کہ وکلاء کی سیاسی جماعتوں کے ساتھ وابستگی ہے، ساری قوم ہماری طرف دیکھ رہی ہے کہ ہم سیاست سے بالاتر ہو کر عدلیہ کے متحد ہوسکتے ہیں اورمتفقہ سفارشات پیش کرسکتے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ فیصلہ اچھا ہو یا برااس پر آرٹیکل لکھیں یااپیلیں کریں جو کرنا ہے کریں ، میں چاہتا ہوں اس کو مختصر کریں۔ اعتزازاحسن کا کہنا تھا کہ ہمیں آزاد عدلیہ چاہیئے لیکن آئین سے آزاد عدلیہ نہیں چاہیئے۔حامد خان کا کہنا تھا کہ یہاں سیاسی جماعتیں نہیں بلکہ بار ایسوسی ایشنز بینچ کے سامنے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سندھ ہائی کورٹ بار کے وکیل 6مئی تک اپنی سفارشات جمع کروادیں تاکہ ہم انہیں آئندہ سماعت سے قبل پڑھ سکیں۔ چیف جسٹس کا حکم لکھواتے ہوئے کہنا تھا کہ 5ہائی کورٹ نے اپناجواب، سفارشات اورتجاویز جمع کروائی ہیں جو کہ اتارنی جنرل کی جانب سے پڑھ کرسنائی گئیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ بہتر ہوگا کہ تمام بار ایسوسی ایشنز متفقہ پوائنٹس جمع کروائیں اور جس نقاط پر متفق نہیں وہ الگ جمع کرواسکتے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم اس معاملہ میں کسی کو فریق نہیں بنائیں گے کیونکہ پارٹی بننے والی کوئی بات نہیں۔ بلوچستان ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے وکیل منیر احمد کاکڑ اپنا جمع کروادیں۔ جمع کروائے گئے جواب کی کاپی کوئی بھی سپریم کورٹ سے حاصل کرسکتا ہے۔ ہائی کورٹس کے جوابات کی روشنی میں ٹارنی جنرل ،وفاقی حکومت کی جانب سے جواب جمع کروائیں اوراگر وفاقی حکومت مخصوص سفارشات جمع کروانا چاہے توکرواسکتی ہے، دوجواب جمع کروائے جائیں ایک الزامات کے حوالہ سے اوردوسرا اگر کوئی خود سے کوئی تجاویز دینا چاہتے ہیں تواس پر مشتمل جواب جمع کرواسکتے ہیں۔ جسٹس مسرت ہلالی کا کہنا تھا کہ دو، تین روز میں وفاقی حکومت خودروتی ہوئی شکایت لے کر نہ آجائے،ہمارے پاس شکایت لے کر نہیںآنا۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل انٹیلجنس ایجنسیز کی جانب سے بھی جواب جمع کروائیں گے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر کسی انٹیلیجنس ایجنسی پر کوئی الزام ہے تووہ بھی اٹارنی جنرل کے زریعہ جواب جمع کروائے گی۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں جمہوریت لوگوں کے دلوں میں پہنچی نہیں ہے، ہر کوئی کہتا ہے میں ہی میں ہوں۔ کیس کی سماعت تقریبا3گھنٹے جاری رہی۔ ZS
#/S