190 ملین پاونڈ ریفرنس: بانی پی ٹی آئی عمران خان کی ضمانت منظور

عمران خان آزادی مارچ کے دوران تھانہ کھنہ میں درج دو مقدمات میں بری
تھانہ کھنہ میں لانگ مارچ کے دوران توڑ پھوڑ سے متعلق دو مدمقات درج تھے

اسلا م آباد( ویب  نیوز)

190 ملین پاونڈ نیب ریفرنس کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے بانی پی ٹی آئی عمران خان کی ضمانت منظور کرلی۔چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق اور جسٹس طارق محمود جہانگیری پر مشتمل دو رکنی بینچ نے عمران خان کی ضمانت کی درخواست پر منگل کو محفوظ کیا گیا فیصلہ  بدھ کوسنا دیا۔سابق وزیر اعظم کی ضمانت 10 لاکھ روپے کے مچلکے کے عوض منظور کی گئی ہے اور رہا کرنے کا حکم دے دیا۔واضح رہے کہ ضمانت کے باوجود بانی پی ٹی آئی جیل میں ہی رہیں گے، وہ اس کیس میں ضمانت پر رہا ہوگئے ہیں تاہم بانی پی ٹی آئی کی سائفر کیس اور عدت کیس میں تاحال سزا معطل نہیں ہوئی،گزشتہ روز اسپیشل پراسیکیوٹر نیب امجد پرویز نے دلائل کا اغاز کرتے ہوئے موقف اپنایا کہ کرپشن کے خلاف اقوام متحدہ کنونشن کے مطابق کرپشن کی پراپرٹی ریاست کو جائے گی، بحریہ ٹاون اور ملک ریاض کو فائدہ پہنچانے کے لیے پیسہ سپریم کورٹ کے اکاونٹ میں بھیجا گیا، جو کرپشن کا پیسہ تھا وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے پاس آنا چاہیے تھا۔انہوں نے کہا کہ ملک ریاض اور ان کی فیملی منی لانڈرنگ میں ملوث تھے، ملک ریاض اور ان کی فیملی نے آوٹ آف کورٹ این سی اے کے ساتھ معاہدہ کیا۔جسٹس طارق محمود جہانگیری نے ریمارکس دیے کہ آپ کے پاس اس معاہدے کا بھی کوئی ثبوت یا دستاویزات نہیں ہیں، آپ وہ بات کیوں کر رہے ہیں جس کا آپ کے پاس ثبوت نہیں؟ کیا اپ کے پاس آوٹ آف کورٹ سیٹلمنٹ کے کوئی شواہد موجود ہیں؟ آپ صرف وہ بات کریں جس کے شواہد آپ کے پاس موجود ہوں۔چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ وہ رقم جرم سے حاصل کردہ رقم تھی؟ امجد پرویز نے موقف اپنایا کہ وہ رقم حکومت پاکستان کو آنی چاہیے تھی، وہ پیسہ ملک ریاض کو فائدہ پہنچانے کے لیے سپریم کورٹ کے اکاونٹ میں بھیجا گیا۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ کہہ رہے ہیں کہ ملک ریاض اور فیملی نے رقم پاکستان سے منی لانڈر کی؟ کیا جو نوٹ وزیراعظم کے پاس گیا، اس میں کہا گیا کہ پیسہ سپریم کورٹ کے اکاونٹ میں جانا ہے؟ امجد پرویز نے موقف اپنایا کہ جی مائی لارڈ یہی تو کرائم کیا گیا۔جسٹس طارق محمود جہانگیری نے استفسار کیا کہ رقم کابینہ کی منظوری سے پہلے بھی منتقل ہوئی، اس پر کیا کہیں گے؟ ڈیڈ میں ڈیزگنیٹڈ اکاونٹ لکھا ہوا ہے، سپریم کورٹ کے اکاونٹ کا نہیں لکھا ہوا۔چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ خفیہ ڈیڈ کے کرکس کی بات کریں تو وہ کیا ہیں؟ امجد پرویز نے جواب دیا کہ اس میں یہ ہے کہ دونوں پارٹیوں کی منظوری کے بغیر ڈیل پبلک نہیں کی جا سکے گی۔جسٹس طارق محمود جہانگیری نے ریمارکس دیے کہ یہ بات تو کلیئر ہو گئی کہ سارا پیسہ ملک ریاض نے سپریم کورٹ کے اکاونٹ میں بھیج دیا، وزیراعظم کے سامنے رکھے گئے نوٹ سے پہلے منتقل ہونے والی رقم سے متعلق کیا کہیں گے؟امجد پرویز نے موقف اپنایا کہ کانفیڈنشیلٹی ڈیڈ ہو جانے کے بعد یہ رقم منتقل کی گئی، بانی پی ٹی آئی ایسٹ ریکوری یونٹ کے سربراہ تھے، سپریم کورٹ نے اپنے آرڈر میں لکھا کہ یہ پیسہ ریاست پاکستان کا پیسہ ہے، سپریم کورٹ قرار دے چکی کہ یہ رقم سپریم کورٹ کے اکاونٹ میں غلط طور پر بھیجی گئی۔انہوں نے استدلال کیا کہ ایسٹ ریکوری یونٹ نے وزیراعظم کو یہ رقم منجمد کرانا اپنی کامیابی کے طور پر پیش کیا۔ وزیراعظم کو بتایا گیا کہ یہ رقم منجمد کر کے ملک ریاض اور فیملی کو مجبور کر دیا گیا ہے، ملک ریاض اور فیملی کی رقم کرائم پروسیڈ تھی، منی لانڈر کی گئی رقم تھی۔جسٹس طارق محمود جہانگیری نے استفسار کیا کہ بانی پی ٹی آئی کا اس سے کیسے تعلق بنتا ہے؟ امجد پرویز نے موقف اپنایا پبلک سرونٹ کسی شخص سے اس کا کوئی معاملہ زیر التوا ہوتے ہوئے کوئی تحفہ نہیں لے سکتا، 458 کنال زمین بحریہ ٹاون نے خرید کر زلفی بخاری کے نام منتقل کی، پرائیویٹ لوگوں سے زمین خرید کر زلفی بخاری کے نام کر دی گئی، جب ایسٹ ریکوری یونٹ این سی اے سے خط و کتابت کر رہا تھا اسی دوران زمین منتقل کی گئی۔انہوں نے کہا کہ القادر ٹرسٹ کی بھی دلچسپ کہانی ہے، 26 دسمبر 2019 کو ٹرسٹ رجسٹرڈ ہوا، جس کے چار ٹرسٹیز ہیں، بانی پی ٹی آئی اس ٹرسٹ کے چیئرمین، بابر اعوان، بشری بی بی اور ذولفی بخاری کل 4 لوگ ہیں، 22 اپریل 2020 کو چیئرمین ٹرسٹ نے سب رجسٹرار کو ٹرسٹ کو لکھا بابر اعوان اور ذلفی بخاری اب ٹرسٹیز نہیں ہیں۔امجد پرویز نے موقف اپنایا کہ اس کیس میں 59 میں سے 39 گواہوں کے بیانات ہو چکے ہیں، نیب کے 10گواہوں کو ترک کر دیا گیا ہے، اس کیس میں مزید 6 سے 8 گواہوں کے بیانات ہونے ہیں، کیس اگر حتمی مرحلے میں ہو تو ضمانت کے بجائے ٹرائل کورٹ کو ڈائریکشن دی جاتی ہے کہ وہ کیس کا جلد فیصلہ کرے۔امجد پرویز کے دلائل مکمل ہونے کے بعد بانی پی ٹی ائی کے وکیل سردار لطیف کھوسہ نے موقف اپنایا کہ آپ نیب کی جانب سے جمع کرایا گیا تحریری جواب بھی دیکھ لیں، ملک ریاض فیملی اور این سی اے کے درمیان معاہدہ ہوا۔ان کا کہنا تھا کہ شہزاد اکبر اگر کلیم کرتا ہے کہ وہ پیسہ لے کر آیا تو اس سے پوچھیں، شہزاد اکبر کا سارا کچھ بانی پی ٹی آئی کے کھاتے میں کیوں ڈال رہے ہیں؟دلائل مکمل ہونے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس طارق محمود جہانگیری پر مشتمل بینچ نے عمران خان کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کیا۔عدالت نے مختصر  زبانی فیصلہ کھلی عدالت میں سنایا، بانی پی ٹی آئی کی ضمانت کے متعلق  تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائیگا۔عدالت نے عمران خان کو 10 لاکھ روپے کے مچلکے جمع کرانیکا حکم دیا ہے۔خیال رہیکہ  بانی پی ٹی آئی اڈیالہ جیل میں قید ہیں، وہ  سائفر اور عدت کیس میں سزا معطلی تک رہا نہیں ہوسکتے،یاد رہے کہ 23 جنوری کو سابق وزیر اعظم نے 190 ملین پاونڈ کیس میں ضمانت کے لیے عدالت سے رجوع کیا تھا۔اس کیس میں 27 فروری کو احتساب عدالت اسلام آباد کے جج ناصر جاوید رانا نے کیس کی سماعت اڈیالہ جیل راولپنڈی کرتے ہوئے عمران خان اور ان کی اہلیہ بشری بی بی کے خلاف فردجرم عائد کی تھی۔
 مران خان آزادی مارچ کے دوران تھانہ کھنہ میں درج دو مقدمات میں بری

انی پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) عمران خان کوآزادی مارچ کے دوران اسلام آباد کے تھانہ کھنہ میں درج دو مقدمات میں بری کر دیا گیا۔ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد میں جوڈیشل مجسٹریٹ نے لانگ مارچ کے دوران توڑ پھوڑ سے متعلق دو مقدمات میں بانی پی ٹی آئی کی بریت کی درخواست منظور کی۔جوڈیشل مجسٹریٹ کی جانب سے کہا گیا کہ شواہد ناکافی ہونے کی بنیاد پر بریت کی درخواست منظور کی جاتی ہے۔بانی پی ٹی آئی کے خلاف تھانہ کھنہ میں 2022 میں 2 مقدمے درج کئے گئے تھے۔خیال رہے کہ مارچ میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹس اسلام آباد نے لانگ مارچ کے دوران احتجاج اور توڑ پھوڑ کے مزید 2 کیسز میں عمران خان اور سربراہ عوامی لیگ شیخ رشید سمیت 11 ملزمان کو بری کردیا تھا۔یاد رہے کہ مئی 2022 میں اسلام آباد میں اختتام پذیر ہونے والے پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کے تناظر میں ملک بھر میں پولیس نے پی ٹی آئی رہنماوں اور کارکنان کے خلاف دفعہ 144 سمیت دیگر سنگین خلاف ورزیوں پر درجنوں مقدمات درج کیے تھے۔جڑواں شہروں راولپنڈی اور اسلام آباد میں دارالحکومت کی پولیس نے پی ٹی آئی رہنماوں اور کارکنان کے خلاف قانون نافذ کرنے والوں کے خلاف مزاحمت کرنے اور ریاستی املاک کو نقصان پہنچانے پر کم از کم 3 مقدمات درج کیے تھے، الزامات میں میٹرو بس اسٹیشنز کو آگ لگانا بھی شامل ہے۔عمران خان کے خلاف تھانہ سہالا، لوہی بھیر اور تھانہ بارہ کہو میں مقدمات درج کیے گئے تھے۔۔
#/S