سپریم کورٹ کامارگلہ ہلز نیشنل پارک اسلام آباد میں مونال ریسٹورانٹ سمیت دیگر تمام ریسٹورانٹس 90 دن میں ختم کرنے کا حکم
 اگر سی ڈی اے کے پاس کوئی خالی جگہیں موجود ہوں توان کو لیز کرنے کے حوالہ سے ریسٹورانٹس کو ترجیح دی جائے
عدالت نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے خلاف مونال گروپ آف کمپنیز اوردیگر کی درخواستیں خارج کردیں
 مونال ریسٹورانٹ یا دیگر رسٹورانٹس کی جانب سے کرائے کی مد میں جمع کروائی گئی رقم اسلام آباد وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈکے حوالہ کی جائے
 خیبرپختونخوا میں واقع نیشنل پارک کے حصہ میں بھی کمرشل سرگرمیاں بند کریں۔سپریم کورٹ کا حکم
 چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کاڈی جی ری مائونٹ ویٹرنری اینڈ فارمز ڈائریکٹوریٹ میجر جنرل شاہد محمود کے پیش نہ ہونے پر شدید برہمی کااظہار
 آپ کواِدھر سے جیل بھیجوں ، کیاآپ قانون سے بالاتر ہیں، پاکستان کس کی ملکیت ہے، کون آپ کی تنخواہ اداکرتا ہے،چیف جسٹس کا کرنل فرحان سے مکالمہ
اصل دستاویزات جمع نہ کروانے پر آپ کااستعفیٰ میرے سامنے ہونا چاہیئے تھا،چیف جسٹس کا ایڈیشنل اٹارنی جنرل ملک جاوید اقبال وینس پر برہمی کااظہار
 آپ گولیوں کاسامنا کیسے کرسکتے ہیں اگر سادہ سے سوال جواب نہیں دے سکتے۔ کیااثرورسوخ رکھنے والے لوگ قانون سے بالاتر ہیں
ہمیں غیر ملکیوں کی نہیں قانون کی فکر ہے۔چیف جسٹس کا برگیڈیئر (ر)فلک ناز سے مکالمہ

اسلام آباد(ویب  نیوز)

سپریم کورٹ آف پاکستان نے مارگلہ ہلز نیشنل پارک اسلام آباد میں سید پور روڈ پرواقع مونال ریسٹورانٹ سمیت دیگر تمام ریسٹورانٹس 90 دن میں ختم کرنے کا حکم دے دیا۔ عدالت نے قراردیا ہے کہ اگر وفاقی ترقیاتی ادارے (سی ڈی اے)کے پاس کوئی خالی جگہیں موجود ہوں توان کو لیز کرنے کے حوالہ سے ریسٹورانٹس کو ترجیح دی جائے۔عدالت نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے خلاف مونال گروپ آف کمپنیز اوردیگر کی درخواستیں خارج کردیں۔ عدالت نے حکم دیا ہے کہ مونال ریسٹورانٹ یا دیگر رسٹورانٹس کی جانب سے کرائے کی مدمیں جمع کروائی گئی رقم اسلام آباد وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈکے حوالہ کی جائے کو لگ اکائونٹ میں رکھے گااورپیسے نیشنل پارک پر خرچ کرے گا ۔ خیبرپختونخوا میں واقع نیشنل پارک کے حصہ میں بھی کمرشل سرگرمیاں بند کریں۔ عدالتی حکم پر چیئرمین سی ڈی اے چوہدری محمد علی رندھاوا فوری طور پر عدالت پیش ہوگئے۔ جبکہ عدالتی حکم کے باوجود پیش نہ ہونے پر چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ڈی جی ری مائونٹ ویٹرنری اینڈ فارمز ڈائریکٹوریٹ میجر جنرل شاہد محمود کے پیش نہ ہونے پر شدید برہمی کااظہار کیا۔جبکہ چیف جسٹس نے ری مائونٹ ویٹرنری اینڈ فارمز ڈائریکٹوریٹ کی جانب سے مونال ریسٹورانٹ کے ساتھ معاہدے کا مکمل ریکارڈ پیش نہ کرنے پر بھی شدید برہمی کااظہار کیااور عدالت میں موجود ڈپٹی ڈائریکٹر کرنل فرحان کوفوری طور پر ریکارڈ لانے کاحکم دیا تاہم دو گھنٹے سے زائد وقت گزرنے کے باوجود وہ واپس عدالت نہ پہنچے۔ جبکہ دوران سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ڈپٹی ڈائریکٹر آر ای ایف کرنل فرحان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہناتھا کہ آپ کواِدھر سے جیل بھیجوں ، کیاآپ قانون سے بالاتر ہیں، پاکستان کس کی ملکیت ہے، کون آپ کی تنخواہ اداکرتا ہے،سوال کاجواب دیں کہ اصل ریکارڈکیوں نہیں لائے، کیاآپ حاضر سروس کرنل ہیں، کیا جھوٹ بولنا آپ کی نوکری ہے۔اِس ملک اورادارے فوج کی توہین کی ہے، اعلیٰ افسر پاکستان سے بالاتر ہے، آپ جیسے لوگ یونیفارم تباہ کررہے ہیں، فائل کدھر ہے، چار کاغذ لاکردے دیئے، کیوں فائل جمع نہیں کروائی،تیسری مرتبہ پوچھ رہا ہوں پھر توہین عدالت کانوٹس دوں گا۔ اٹارنی جنرل منصورعثمان اعوان کدھر ہیں، ان کو پراسیکیوٹر مقرر کرکے توہین عدالت کی کاروائی کرتے ہیں۔ ملک کامذاق بنادیا ہے، شرم بھی نہیں آتی۔ کیا یہ فائل لینے بھاگ کرجائیں گے اوربھاگ کرآئیں گے، کرپٹ افسران کاتحفظ کریں، پورے ریاست کے وسائل لوگوں کے خلاف استعمال ہورہے ہیں۔چیف جسٹس کا ایڈیشنل اٹارنی جنرل ملک جاوید اقبال وینس پر برہمی کااظہار کرتے ہوئے کہناتھا کہ اصل دستاویزات جمع نہ کروانے پر آپ کااستعفیٰ میرے سامنے ہونا چاہیئے تھا،ہم پین اوریہ بندوق رکھتے ہیں، آپ کا کیا کام ہے ریسٹورانٹس کو لائسنس دینے سے، یہ دھندے چھوڑ دیجیئے ، اپنا کام کریں، ہر چیز میں پائوں اڑانا چھوڑ دیجیئے، بزنس دھندے بنائے ہوئے ہیں سب نے۔چیف جسٹس کا برگیڈیئر (ر)فلک ناز سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ گولیوں کاسامنا کیسے کرسکتے ہیں اگر سادہ سے سوال جواب نہیں دے سکتے۔ بیچ دوسارا پاکستان، کچھ نہ بچے مستقبل کی نسلوں کے لئے۔ پہلے ساراکچھ جلادوپھر شجرکاری کردو۔ سی ڈی اے تڑپ رہا ہے کہ ان ریسٹورانٹس کا بچانا ہے، سپورٹس کلب ، اسلام آباد کلب، نیشنل مونومنٹ کو گرانا چاہتے ہیں۔ کیااثرورسوخ رکھنے والے لوگ قانون سے بالاتر ہیں۔ ہمیں غیر ملکیوں کی نہیں قانون کی فکر ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس نعیم اخترافغان پر مشتمل 3رکنی بینچ نے مونال گروپ آف کمپنیز، وفاق پاکستان بوساطت سیکرٹری وزارت دفاع حکومت پاکستان ، اسلام آباد وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ اوردیگر کی جانب سے وفاقی ترقیاتی ادارے کے خلاف چیئرمین سی ڈی اے اور دیگر کے توسط سے دائر 7درخواستوں پر سماعت کی۔دوران سماعت وفاقی حکومت کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل ملک جاوید اقبال وینس، مونال ریسٹورانٹ کی جانب سے سعد ممتاز ھاشمی، سی ڈی اے کی جانب سے حافظ عرفات احمد چوہدری بطور وکیل پیش ہوئے، اسلام آباد وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ کی جانب سے محمد عمراعجاز گیلانی،ڈپٹی ڈی جی انوائرمنٹ سی ڈی اے عرفان عظیم خان نیازی، ڈبلیو ڈبلیو ایف کی جانب ڈائریکٹر جنرل حماد نقی خان، وزارت دفاع کی جانب سے برگیڈیئر (ر)فلک ناز، ری مائونٹ ویٹرنری اینڈ فارمز (آرای ایف)ڈائریکٹوریٹ کی جانب سے کرنل فرحان اوردیگر حکام پیش ہوئے۔ جب اپنے نمبر پر کیس کال کیا گیاتوچیف جسٹس نے کہا کہ دیگر کیسز ختم کرکے اس کو سنتے ہیں۔ اس کے بعد کاز لسٹ میں آخری کیس کال کیا گیا تاہم درخواست گزار کی جانب سے پیش نہ ہونے پر درخواست خارج کردی گئی ۔جس کے بعد دوبارہ مونال ریسٹورانٹ کی درخواست پر سماعت شروع ہوئی۔ چیف جسٹس کا کورٹ ایسوسی ایٹ کو مخاطب کرتے ہوئے کہناتھا کہ کیا سب کو نوٹس جاری ہو گئے تھے۔ اس پر کورٹ ایسوسی ایٹ حنا امتیاز نے بتایا کہ ہو گئے تھے۔ چیف جسٹس کاسی ڈی اے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ گزشتہ سماعت پیرا5پر عملدرآمد دکھائیں۔ سی ڈی اے وکیل کا کہناتھا کہ مارگلہ ہلز پر مختلف آئوٹ لیٹس کے ساتھ سی ڈی اے نے معاہدے کئے ہوئے ہیں۔ چیف جسٹس کا وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ ہمارے ساتھ کیا مذاق کررہے ہیں۔اس پر وکیل کاکہناتھا کہ میںمذاق کیوں کروں گا۔ چیف جسٹس کا کہناتھا کہ عدالت میں سی ڈ ی اے کاسب سے بڑا افسر کون موجود ہے۔ اس پر بتایا گیا کہ ڈپٹی ڈی جی انوائرمنٹ عرفان عظیم موجود ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیا ان کو پڑھنا لکھنا آتا ہے، جب ہمارے ساتھ مذاق کریں گے توسوال توکرنا بنتا ہے۔چیف جسٹس کا کہناتھا کہ ہم نے مارگلہ ہلز کاپوچھا تھا یہ سید پور گائوںکی لسٹ ہے، ریسٹورانٹس کی لسٹ کہاں ہے،اپنا نکاںنامہ بھی لگادیتے ، ہم نے ایک چیزمانگی تھی، دوسری نہ دیں، ہمارے ساتھ ایسے نہ کریں، کیا یہ پڑھا لکھاآدمی ہے، یا یہ وکیل نے لکھا ہے۔ سی ڈی اے وکیل کاکہنا تھا کہ سید پور گائوں نیشنل پارک کاحصہ ہے۔ چیف جسٹس نے سی ڈی اے وکیل کو ہدایت کی کہ آپ سیٹ پر جاکربیٹھ جائیں،ہم آپ کے ساتھ بحث نہیں کرنا چاہتے، ہمارے ساتھ مباحثہ نہ کریں،حد ہوتی ہے۔ ملک جاوید اقبال وینس نے گزشتہ سماعت کاآرڈر پڑھ کرسنایا جس کے مطابق مونال ریسٹورانٹ نے 15سال کا معاہدہ کیا تھا جس میں مزید 15سال کی توسیع ہوسکتی تھی۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیا سی ڈی اے کے لئے انگلش کی کلاسز ہوسکتی ہیں ان کو انگریزی نہیں آتی، سی ڈی اے نے گوگلی پھینکی ہے ، مونال کو بچانے کے لئے پاکستان کے تمام نام ڈال دیئے تاکہ یہ بچ جائیں، یہ ہوتی ہے چالاکی،سی ڈی اے چیئرمین کوابھی بلائیں۔ چیف جسٹس کا وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ چیئرمین سی ڈی اے کو طلب کرنے کے لئے مجھے آپ کی اجازت کی ضرورت نہیں،کسی کو بتائیں چیئرمین سی ڈی اے کو بلاکرلائیں۔ اس پر حافظ عرفات احمد چوہدری کا کہنا تھا کہ بندہ بھیج دیا ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ رپورٹ کی صورت میں کچزا جمع کروانے کا شکریہ۔چیف جسٹس کا کہناتھا کہ سپورٹس کلب، پاکستان مونومنٹ، اسلام آباد کلب اور پاک چائنہ دوستی سینٹر کو بھی گرانا چاہتے ہیں، سارااسلام آباد کچھ مفادات کے تحفظ کے لئے ہمارے سامنے رکھ دیا،مونومنٹ بھی ہمارے سامنے رکھ دیا، سید پورگائوں کو بھی گرانا چاہتے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہناتھا کہ ایک اورطریقہ ہوتا ہے پیسے بنانے کا کہ نوٹس بھیجو، نیشنل پارک کو تباہ کردو، اب سپورٹس کلب کے پیچھے پڑے ہیں، کیا سی ڈی اے سینئر مینجمنٹ کے لئے انگلش کی کلاسز ہوسکتی ہیں، ان لوگوں نے کیا عوام کی خدمت کرنی ہے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیا دیدہ دلیری سے نیشنل مونومنٹ کو توڑ دیںگے، کیا سپریم کورٹ بھی نیشنل پارک میں آرہی ہے کہ نہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کسی بات کی انتہا ہوتی ہے، اسلام آباد کے ریسٹورانٹس کی اچھی خدمت کی ہے، دنیا کو پتا ہے ، سی ڈی اے کو نہیں پتا، مہینے جواب سے ڈھونڈنے میں لگیں گے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ بیچ دوسارا پاکستان، کچھ نہ بچے مستقبل کی نسلوں کے لئے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سی ڈی اے کااپنادفتر بھی پارک میں ہے اسے بھی گرادیں، ریسٹورانٹس کااتنادرد ہے سب کچھ گرادیں گے۔ چیف جسٹس کا کہناتھا کہ مونال کے وکیل مخدوم علی خان نے درست بات کی کہ کیوں دوکی ہی نشاندہی کی گئی ہے۔ ڈپٹی ڈی جی انوائرمنٹ سی ڈی اے عرفان عظیم نے بتایا کہ ان کی 28سال سروس ہوچکی ہے۔چیف جسٹس نے عرفان عظیم سے سوال کیا کہ یہ کیس کس چیز سے متعلق ہے۔اس پرعرفان عظیم کاکہناتھاکہ یہ مونال سے متعلق ہے۔ چیف جسٹس کاعرفان عظیم سے مکالمہ کرتے ہوئے کہناتھا کہ کیا طوطے کی طرح بات کرہے ہیں۔ عرفان عظیم کا کہنا تھا کہ مونال کے ساتھ 10مارچ 2006کو معاہد ہ ہواتھا۔ چیف جسٹس نے عرفان عظیم کومخاطب کرتے ہوئے سوال کیا کہ کیا دستاویزات پر آپ کے دستخط ہیں۔ اس پر عرفان عظیم کا کہنا تھا کہ میں نے دستخط کئے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہناتھا کہ پہلے ریسٹورانٹس کی لسٹ لگاتے پھر کچھ اورکرتے، مزید مارگلہ پارک کی تباہی چاہتے ہیں، کیا سی ڈی اے محفوظ ہاتھوں میں ہے، وہی بابو شاہی۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ مجھے ریسٹورنٹس کی لسٹ بتادیں،کیا یہ لکھتے ہوئے تھکتے تھے کہ کون ساریسٹورانٹ کہاں واقع ہے۔عرفان عظیم کاکہنا تھا کہ مونال اور عمرمنظور اندازریسٹورانٹس پیر سوہاوا پر واقع ہیں۔چیف جسٹس کاعرفان عظیم سے مکالمہ کرتے ہوئے کہناتھا کہ کیوں آپ ایمانداری سے بات نہیں کررہے، یہ آخری مرتبہ ہے نہیں تومیں توہین عدالت کانوٹس جاری کروں گااور آپ کا کیئریئر ختم ہوجائے گا۔عرفان عظیم کا کہناتھا کہ کچھ لائسنس سی ڈی اے انوائرمنٹ ونگ اورکچھ اسلام آباد میٹروپولیٹن کارپوریشن نے جاری کئے ہیں۔جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ ایشو مونال کا تھا، صرف مونال کو نوٹس دیا ہے دیگر ساتھ ریسٹورانٹس بھی ہیں، آمنے سامنے، دائیں بائیں، لسٹ بتادیں، چار کابتایا ہے۔ چیف جسٹس کاعرفان عظیم سے مکالمہ کرتے ہوئے کہناتھا کہ اگر ہم کیس براہ راست دکھادیں تو آپ کی کیا عزت رہ جائے گی۔چیف جسٹس کا کہناتھا کہ ہم لسٹ پوچھ رہے ہیں ، جودستاویزات لگائی ہیں اس میں لسٹ کہاں پر ہے۔ چیف جسٹس کا کہناتھا کہ مونال گئے ہیں ساتھ جو ریسٹورانٹس ہیں ان کی لسٹ بتادیں، ریکارڈ سے بات کریں ، پلیز آگے بڑھیئے!۔ چیف جسٹس کاکہناتھا کہ صفحہ نمبر بتائیں ، ذرہ پڑھے لکھے لوگوں کی طرح بات کریں، لسٹ اورانڈیکس میں فرق پتا ہے؟ ایم ایس سی کی ہوئی ہے ، یہ کسی نے پڑھایا تونہیں ہوگا۔ اس موقع پر عدالت کی جانب سے طلب کرنے پر چیئرمین سی ڈی اے چوہدری محمد علی رندھاوا عدالت میںپیش ہوگئے۔چیئرمین سی ڈی اے کاکہنا تھا کہ وہ ایک ماہ پہلے چیئرمین بنے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کی کیا ڈی ایم جی گروپ سے ہیں۔ اس پر محمد علی رندھاوا کا کہنا تھا کہ ڈی ایم جی گروپ سے ہوں اور اس سے قبل کمشنر لاہور تھا۔ چیئرمین سی ڈی اے کا کہناتھا کہ ڈی جی لاء نعیم ڈار، ڈائریکٹر لاء کامران اور ڈپٹی ڈی جی انوائرمنٹ عرفان عظیم سی ڈی اے کی عدالت میں نمائندگی کے لئے آئے ہیں۔چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیس کیا ہے پتا ہے؟ اس پر چیئرمین سی ڈی اے کا کہنا تھا کہ مونال کاکیس ہے۔چیئرمین سی ڈی اے کا کہنا تھا کہ ہم عدالتی حکم پر عملدرآمد کریں گے۔ اس پر چیف جسٹس کا کہناتھا کہ کیا قانون پر عملدرآمد نہیں کریں گے،کیا آپشن ہے کہ سپریم کورٹ کا حکم نہیں مانیں گے۔اس پر محمد علی رندھاواکا کہناتھا کہ قانون جو کہتا ہے ہم وہ کریں گے۔چیف جسٹس کا چیئرمین سی ڈی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کیا یہ بریفنگ لی ہے کہ جوسپریم کورٹ کہے گی ہم عمل کریں گے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہمیں خیراتی کام نہیں چاہیئے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ مارگلہ ہلز کاانچارج کون ہے۔ ا س پر چیئرمین سی ڈی اے کاکہناتھا کہ انوائرمنٹ ڈیپارٹمنٹ۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ڈی جی اورممبر کیوں موجود نہیں۔ چیئرمین سی ڈی اے کاکہنا تھا کہ شہزاد خلیل ممبر انوائرمنٹ ہیں ۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ وہ کیوں نہیں آئے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہمیں ریسٹورانٹس کے نام چاہیں، معذرت نہیں چاہیئے، ہم کیس ختم کرنا چاہتے ہیں، سی ڈی اے تڑپ رہا ہے کہ ان ریسٹورانٹس کا بچانا ہے، سپورٹس کلب ، اسلام آباد کلب، نیشنل مونومنٹ کو گرانا چاہتے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ مارگلہ ہلز میں آپ کا دفتر ہے تواس کو بھی گرادیں، متعدد نوٹس ہم نے دیئے ہیں، مونال ریسٹورانٹ کا معاملہ ہے،سپریم کورٹ کے سامنے بھکاری نہ بنیں کہ نوٹس دے دیں، آج کل مارگلہ ہلز میں کون آگ لگاتا ہے، کوئی سگریٹ پھینکتا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ سی ڈی اے کی بدیانتی ہے کہ2ہزاراورلوگوں کو نوٹسز دے دیئے، لوگگ گھبرا گئے ، سی ڈی اے میں انگریزی کلاسز شروع کروائیں یا اُردو ترجمہ کروائیں،سی ڈی اے کی فوج کو عدالتی حکم کی سمجھ نہیں آئی۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہوشیار ڈپٹی ڈی جی کہتے ہیں کہ اسلام آباد کلب، سپورٹس کلب کوگرانا ہے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آئندہ اچھا کام کریں ہمیں اچھا نہیں لگتا بلائیں،فوج ضرورآئے گی کرے گی کچھ نہیں۔ اس موقع پر عمر اعجاز گیلانی کاکہناتھا کہ مجھے درست تعداد کا معلوم نہیں کہ کتنے ریسٹورانٹس سید پور روڈ پر واقع ہیں۔ اس موقع پر ڈی جی ڈبلیو ڈبلیو ایف حماد نقی خان نے سپریم کورٹ لاہور رجسٹری سے بتایا کہ 8سے9ریسٹورانٹس ہیں۔ چیئرمین سی ڈی اے کا کہناتھا کہ مجھے اجازت دیں میں پوری لسٹ فراہم کردیتا ہوں۔ چیف جسٹس کا کہناتھا کہ مجھے حقائق چاہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیا سی ڈی اے میں کوئی قابل آدمی نہیں، ہم سادہ سے سوال کاجواب حاصل نہیں کرپارہے۔چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ یہ انفارمیشن انٹرنیٹ پر ہونی چاہیئے، لوگوں سے ڈیلنگ کرنا ہوتی ہے ، ہمارا وقت عوام کاقیمتی وقت ہے یہ کیس عوامی مفاد کامعاملہ ہے، چالاکی دکھارہے ہیں ہمیں، کیا اتنا پیچیدہ معاملہ ہے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ گزشتہ دنوں کتنی مرتبہ آگ لگی۔ اس پر محمد علی رندھاوا کا کہناتھا کہ 21مرتبہ آگ لگی، بیچ میں کوئی کالی بھیڑیں بھی ہوتی ہیں ہم معاملات کی طے تک جارہے ہیں، ہم بڑے پیمانے پر شجرکاری بھی کریں گے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پہلے ساراکچھ جلادوپھر شجرکاری کردو۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ وائلڈ لائف بورڈ والے آپ کے دشمن ہیں،وہ کیوں آپ کی عدالت میں مخالفت کررہے ہیں۔چیف جسٹس نے عدالتی وقفہ سے قبل چیئرمین سی ڈی اے کو ہدایت کی کہ وہ سی ڈی اے حکام کے ساتھ مل کرریسٹورانٹس کی لسٹ بناکردیں۔ عدالتی وقفہ کے بعد چیف جسٹس نے کورٹ ایسوسی ایٹ سے پوچھا کہ چیئرمین سی ڈی اے نے لسٹ دے دی۔ اس پر لسٹ چیف جسٹس اوردیگر ججز کو فراہم کی گئی۔ چیف جسٹس کا عمراعجاز گیلانی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یہ تین ریسٹورانٹس کہہ رہے ہیں۔ اس پر عمراعجاز گیلانی کاکہنا تھا کہ کچھ غیر لائسنس یافتہ بھی ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ ریکارڈ کی بات ہے کہ شہرمیں کیا ہورہا ہے، قانونی غیر قانونی لائسنسی غیر لائسنسی کوئی جاہل بھی جاکرگن لے گا، سی ڈی اے کو یہ بھی نہیں پتا کہ پہاڑی پر کتنے ریسٹورانٹس ہیں،ہم نے 45منٹ دیئے ،کیا مطلب ریکارڈ کے مطابق،یہ الفاظ استعمال نہ کریں، آپ کس قسم کے افسر ہیں، یہ پہلی پیشی ہے سیکشن افسر یااُس سے بھی نیچے کے افسر کے طور پر طرز عمل اپنا رہے ہیں،ہرچیز کو سمجھ کرکے تباہ کررہے ہیں۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم کمیشن متعین کریں گے وہ دورہ کرکے تعداد بتائے گا۔ چیف جسٹس کا چیئرمین سی ڈی اے سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اگر ان کا جواب غلط نکلا تو ہم توہین عدالت کی کاروائی کریں گے، سپریم کورٹ کو مذاق کے طور پر سمجھ رہے ہیں، آپ لوگوں سے مل گئے ہیں،کیس نہیں چلانا۔ چیف جسٹس کا مونال کے وکیل سعد ممتاز ہاشمی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہناتھا کہ کب ریسٹورانٹ ختم کررہے ہیں،قانون آپ کواجازت نہیں دیتا۔ اس پر سعد ممتا ہاشمی کاکہناتھا کہ 2036تک ہمارا معاہدہ ہے اس وقت تک کام جاری رکھنے دیا جائے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ میں مختصر سوال پوچھتا ہوں اور مختصر جواب کی توقع رکھتا ہوں۔ وکیل کاکہناتھاکہ ہم عدالت میں ہر ماہ15لاکھ 80ہزار روپے کرایہ جمع کروارہے ہیں، مئی میں آخری مرتبہ عدالت میں کرایہ جمع کروایا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سی ڈی ا ے کو کب آخری مرتبہ کرایہ جمع کروایا۔ اس پر سعد ہاشمی کاکہناتھا کہ ستمبر 2021میں ۔چیف جسٹس نے سوال کیا کہ ری مائونٹ ویٹرنری اینڈ فارمز (آرای ایف)ڈائریکٹوریٹ کی کون نمائندگی کررہا ہے؟ اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل ملک جاوید اقبال وینس کاکہناتھا کہ انہوں نے دوسی ایم ایز جمع کروائی ہیں۔ چیف جسٹس کا کہناتھا کہ کیا یہیںپر ہوم ورک کرنا ہے، بڑے لوگ ہیں، ڈرتے ہیں اُن سے، ہرکوئی سمجھ رہا ہے پاکستان اُن کی ملکیت ہے، چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ری مائونٹ ویٹرنری اینڈ فارمز (آرای ایف)ڈائریکٹوریٹ کے ڈی جی کون ہیں ،کیاوہ حاضر سروس میجر جنرل ہیں ،وہ کیوں نہیں آئے۔ اس پر بتایا گیا ڈی جی آر ای ایف میجر جنرل شاہد محمود ہیں۔ چیف جسٹس کاوزارت دفاع کے قانونی مشیر برگیڈیئر (ر)فلک ناز سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کیا ہم آپ کوعدالتی حکم پر عملدرآمد نہ کرنے پر توہین عدالت کانوٹس دیں، میجر جنرل کو بلائیں وہ کیوں نہیں آئے، ہو کیا گیا ہے آپ کو۔ اس دوران بار، بار وزارت دفاع کے قانونی مشیر کی جانب سے پیچھے بیٹھے شخص سے ہدایات لینے جانے پر چیف جسٹس نے شدیدبرہمی کااظہار کیا اورکہا ہے بلائیں اس شخص کو جو بڑا آدمی وہاں بیٹھا ہے ، داڑھی والے شخص کو بلائیں۔اس پر متعلقہ شخص نے آکر کہا کہ ان کانام سمیر قادر ہے اور وہ آرٹ گیلری کی نمائندگی کررہے ہیں۔ اس پر چیف جسٹس نے انہیں واپس بیٹھے کی ہدایت کی۔چیف جسٹس کا ڈپٹی ڈائریکٹر آر ای ایف کرنل فرحان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہناتھا کہ آپ کواِدھر سے جیل بھیجوں ، کیاآپ قانون سے بالاتر ہیں۔ چیف جسٹس نے کرنل فرحان سے سوال کیا کہ پاکستان کس کی ملکیت ہے، کون آپ کی تنخواہ اداکرتا ہے،سوال کاجواب دیں کہ اصل ریکارڈکیوں نہیں لائے، کیاآپ حاضر سروس کرنل ہیں، کیا جھوٹ بولنا آپ کی نوکری ہے۔چیف جسٹس کا کہناتھا کہ اِس ملک اورادارے فوج کی توہین کی ہے، اعلیٰ افسر پاکستان سے بالاتر ہے، آپ جیسے لوگ یونیفارم تباہ کررہے ہیں، فائل کدھر ہے، چار کاغذ لاکردے دیئے، کیوں فائل جمع نہیں کروائی،تیسری مرتبہ پوچھ رہا ہوں پھر توہین عدالت کانوٹس دوں گا۔چیف جسٹس کا ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہناتھا کہ اٹارنی جنرل منصورعثمان اعوان کدھر ہیں، ان کو پراسیکیوٹر مقرر کرکے توہین عدالت کی کاروائی کرتے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ملک کامذاق بنادیا ہے، شرم بھی نہیں آتی، کیا یہ فائل لینے بھاگ کرجائیں گے اوربھاگ کرآئیں گے، کرپٹ افسران کاتحفظ کریں، پورے ریاست کے وسائل لوگوں کے خلاف استعمال ہورہے ہیں۔ چیف جسٹس کا برگیڈیئر (ر)فلک ناز سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اگر آپ عدالتی احکامات کی خلاف ورزی کریں گے توہم آپ کے کورٹ مارشل کی سفارش کریں گے۔چیف جسٹس کا ایڈیشنل اٹارنی جنرل پر برہمی کااظہار کرتے ہوئے کہناتھا کہ اصل دستاویزات جمع نہ کروانے پر آپ کااستعفیٰ میرے سامنے ہونا چاہیئے تھا،ہم پین اوریہ بندوق رکھتے ہیں، آپ کا کیا کام ہے ریسٹورانٹس کو لائسنس دینے سے، یہ دھندے چھوڑ دیجیئے ، اپنا کام کریں، ہر چیز میں پائوں اڑانا چھوڑ دیجیئے، بزنس دھندے بنائے ہوئے ہیں سب نے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کا کرنل فرحان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہناتھا کہ آپ نے مونال کے ساتھ کیسے معاہدہ کیا۔ چیف جسٹس کا کرنل فرحان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ابھی جائیں اورفائل لے کرآئیں ، سپریم کورٹ کامذاق اڑارہے ہیں۔ اس پر کرنل فرحان عدالت سے روانہ ہو گئے۔ چیف جسٹس نے ایک مرتبہ پھر ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ اٹارنی جنرل کدھر ہیں۔ اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل کاکہنا تھا کہ اٹارنی جنرل وفاقی شرعی عدالت میں مصروف ہیں۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل کاکہناتھا کہ میں آر ای ایف کی نمائندگی نہیں کرسکتا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ دوتین چیزیں رہ گئی ہیں وہ بھی بیچ دو۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 19لازم کرتا ہے کہ معلومات دیں۔ چیف جسٹس کاچیئرمین سی ڈی اے سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ عدالت میں تقریریں نہ کیا کریں، چھوٹے بیان عدالت میں جمع نہ کروائیں، آپ کاکام لوگوں کی خدمت کرناہے، کہتے ہیں ہم نے زیادہ پیسے خرچ کردیئے، بجٹ نہیں بتائیں گے۔چیف جسٹس کا کہناتھا کہ سارا پاکستان غلط ہے تواسے تباہ کردیں ،رقم کیا خرچ ہوئی ہے وہ بتادیں۔چیف جسٹس کا چیئرمین سی ڈی اے سے مکالمہ کرتے ہوئے کہناتھا کہ ہم آپ کودکھانا چاہتے تھے کہ سپریم کورٹ میں سی ڈی اے حکام کی جانب سے کیس کس طرح کنڈکٹ ہوتے ہیں۔ چیف جسٹس کاکہناتھا کہ میں سی ڈی اے کی بات کایقین نہیں کروں گا جب تک اس پر کسی افسر کے دستخط نہ ہوں۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جو بچا کھچاپارک رہ گیاہے وہ بتادیں۔ چیف جسٹس کاوکیل سعد ہاشمی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہناتھا کہ ہمیںمطمئن کریں کہ مونال قانون کے مطابق ہے،رات 12بجے تک کیس چلاناہے چلائیں،ہم کسی کو وقت نہیں دیں گے،ہم اِدھر وقت دینے کے لئے نہیں بیٹھے ہوئے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم ریسٹورانٹ آج ہی سیل کردیتے ہیں پھر 6ماہ کاوقت جواب جمع کروانے کے لئے دے دیتے ہیں۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ مونال اُس وقت تک چلتا رہے گا جب تک نیشنل پارک رہے گا ہی نہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ قانون واضح ہے کہ نیشنل پارک میں ریسٹورانٹ نہیں چلا سکتے، پتا نہیں کیا، کیا حربے استعمال کئے، سی ڈی اے نے جواب دیا تو آرمی سے کروا لیا،کیا اس طرح ملک چلناچاہیئے۔چیف جسٹس کا کہناتھا کہ ہم آج آرڈر کردیتے ہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہناتھاکہ نیشنل پارک وفاقی حکومت کی پراپرٹی ہوتی ہے سی ڈی اے کس طرح بیچ سکتا ہے یا لیز پر دے سکتا ہے، سی ڈی اے کیسے معاہد ہ کررہی ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیا مونال سپریم کورٹ کے حکم امتناع پر چل رہا ہے، کب حکم امتناع جاری ہوا۔ اس پر وکیل سعد ہاشمی کاکہناتھا کہ16فروری 2022کو حکم امنتاع جاری ہوا۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم چاہتے تھے کہ آپ اپنی مرضی سے کام کریں مگرآپ چاہتے ہیں کہ بلڈروز چلے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ حکم امتناع میں کسی قانون کاحوالہ نہیں دیا گیا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ نیشنل پارک میں ریسٹورانٹ چلانے کا چھوٹا ساسوال ہے، کیسے ڈکلیئرڈنیشنل پارک میں ریسٹورانٹ چلا رہے ہیں۔سعد ہاشمی کاکہنا تھا کہ ریسٹورانٹ سی ڈی اے نے تعمیر کیا تھا ہم توصرف چلا رہے ہیں۔ چیف جسٹس کاملک جاوید اقبال وینس سے مکالمہ کرتے ہوئے کہناتھا کہ آپ کے وہ انہیں آئے واپس ، فائل ڈھونڈنے گئے ہیں۔چیف جسٹس کا کہناتھا کہ وفاقی حکومت کامطلب پاکستان کے عوام،نیشنل پارک اللہ تعالیٰ کی جانب سے دیا گیا خزانہ ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیااثرورسوخ رکھنے والے لوگ قانون سے بالاتر ہیں۔چیف جسٹس کا مونال کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ کے کتنے اورریسٹورانٹس ہیں۔ اس پر سعد ہاشمی کاکہنا تھا کہ مختلف شہروں میں 5ریسٹورانٹس ہیں۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ 6کیس اوردائر کریں، واپس لیں، ہمارے فیصلے میں غلطی کیا ہے بتادیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہٹانا چاہتے ہیں کہ نہیں، ہم غیر منطقی حکم نہیں دیں گے۔جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ آپ نے سامان اٹھانا ہے اور سی ڈی اے نے ختم کرنا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم سب ریسٹورانٹس کو ہٹائیں گے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ مارگلہ ہلز پر ریسٹورانٹس کے حوالہ سے معاملہ ہے ، دیگر لوگوں کے حوالہ سے ہم کوئی حکم نہیں دیں گے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ روزانہ کتنے گیس سلنڈر استعمال کرتے ہیں۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہمیں غیر ملکیوں کی نہیں قانون کی فکر ہے۔ چیف جسٹس کا مونال ریسٹورانٹ کے مالک لقمان علی افضل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کیا قرآن مجید پر یقین رکھتے ہیں کہ نہیں، جانوروں کا بھی خیال رکھنا ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ سوال پوچھ رہے ہیں کہ کب ختم کررہے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہناتھا کہ ہم آج سیل کردیں گے، چیزیں نکال لیں اورکسی اورجگہ منتقل کرلیں، نیومونال ریسٹورانٹ نام رکھ لیں،ہم نے قانون پر عملدرآمد کروانا ہے،مخدوم علی خان اور سعد ہاشمی دونوںکے لئے قانون برابر ہے،ہم چاہتے ہیں کہ آپ کاکاروبار متاثر نہ ہو۔چیف جسٹس کا مونال کے مالک سے مکالمہ کرتے ہوئے کہناتھا کہ فوج کے ڈائریکٹوریٹ میں بڑے اچھے تعلقات ہیں، سی ڈی اے ساتھ جیسا بھی معاہدہ تھا قانونی تھا پھر جاکرڈائریکٹوریٹ کے ساتھ معاہد ہ کرلیا۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیوں ڈائریکٹوریٹ کے ساتھ جاکرمعاہدہ کیا۔لقمان علی افضل کاکہنا تھا کہنا تھا کہ میرے فوج میں کسی افسر سے تعلقات نہیں۔ لقمان علی افضل کاکہناتھا کہ انہیں 3سال کاوقت دے دیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اسلام نے بھی جانوروںکو حقوق دیئے ہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہناتھاکہ جانوروںکاکوئی وکیل بھی نہیں۔چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ لامنٹانہ اور گلوریا جینز کے وکیل نبیل رحمان کے ساتھ مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہم لائنس نہیں مانتے، ہم آئین کے تحت نیشنل پارک کاتحفظ کریں گے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ قانون اجازت نہیں دیتا ہم سب کوہٹارہے ہیں جائواِدھر سے، سی ڈی اے والے آئیں گے تو آپ کو پتا ہے کیا کریں گے،سی ڈی اے آئے گااور بلڈروز سے گرادے گا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ فیصلہ آیا ہوا ہے پھر بھی نہیں مان رہے، لاتوں کے بھو ت ۔۔۔ ہم پورا فکرا استعمال نہیں کرنا چاہتے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جو کام کرنا ہے وہ دوتین دن میں کرلینا ہے اورجونہیںکرنا وہ 6ماہ میں بھی نہیں کرنا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ 6ماہ نہیں ہوسکتا وہ بہت مشکل ہے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم تاثر نہیں مانتے، بلکہ ہم دیکھتے ہیں کہ قانون کیا کہتا ہے۔لقمان علی افضل کاکہنا تھا کہ ان کے پاس 200لڑکیاں کام کرتی ہیں ان کے لئے پہاڑوں سے نیچے آنا مشکل ہوگا۔ سعد ہاشمی کاکہنا تھا کہ 4ماہ کاوقت دے دیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ 90دن کاوقت دے دیتے ہیں یہ ٹھیک ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم نے ایکشن دیکھنا ہے اورسب پر حکم قابل عمل ہوگا، رضاکاروانہ طور پر کرنے دیں۔ لقمان علی افضل کاکہناتھا کہ ان کے تین بچے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ انہیں کال کرکے عدالت بلائیں وہ سماعت دیکھیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ یہ زندگی اورموت کامسئلہ ہے ، پیسوں کا مسئلہ نہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ لقمان علی افضل نے کہا ہے وہ تین ماہ میں خالی کردیں گے۔ لامنٹانہ کے وکیل کاکہنا تھا کہ انہوں نے 30کروڑ روپے خرچ کیئے ہیں،ہماری 1999کی لیز ہے۔ چیف جسٹس کا ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کرنل فرحان سائیکل پر گئے ہوں گے ، فائل نہیں دکھانی، کسی صورت فائل نہیں دکھانا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ جب غلط کام ہوتا ہے تواوپر والا بھی مدد نہیں کرتا۔چیف جسٹس کا برگیڈیئر (ر)فلک ناز سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کیا عدالتی احکامات پر عملدرآمد نہ کرنے والے افسران کے کورٹ مارشل کی سفارش کریں گے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سچ بولنا بڑا مشکل کام ہوتا ہے، اِس کو بھی خوش کرنا ہے، اُس کوبھی خوش کرنا ہے۔اس پر فلک ناز کاکہنا تھا کہ عدالتی حکم پر عملدرآمد ہونا چاہیئے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آگ گھر بیٹھ کر پینشن لیں، آپ جیسے لوگوں نے وفاقی حکومت کامذاق اڑایا ہے، آپ کے خلاف بھی ہم حکم جاری کریں گے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیا جن افسران نے عدالتی حکم کی خلاف ورزی کی ہے ان کا کورٹ مارشل کرنا چاہیئے یا نہیں۔ چیف جسٹس کا برگیڈیئر (ر)فلک ناز سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ گولیوں کاسامنا کیسے کرسکتے ہیں اگر سادہ سے سوال جواب نہیں دے سکتے، کیاآپ کو فوج میں ریزو کے طور پر واپس نہیں بلاسکتے۔ اس پر فلک ناز کاکہنا تھا کہ میرا کام قانونی حوالہ سے ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کیا پاکستان میں کوئی حکومت نہیں۔ چیف جسٹس کا جاوید اقبال وینس سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہم اٹھ جاتے ہیں جب کرنل فرحان آئیں تو ہمار ے پاس ریکارڈپیش کردیں۔ چیف جسٹس کالقمان علی افضل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یہ کام سفارش کے بغیر نہیں ہوسکتا ، کسی کی نوٹنگ آگئی ہوگی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ خوداحتسابی کریں، ڈائریکٹوریٹ کے پاس معاہدہ کرنے کاکوئی مینڈیٹ نہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہرکسی کو قانون پر عملدرآمد کرنا چاہیئے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم بعد میں حکم جاری کردیں گے کمٹمنٹ نوٹ کرلیتے ہیں۔ چیف جسٹس کا چیئرمین سی ڈی اے سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ حکومت کے نہیں بلکہ عوام کے ملازم ہیں،۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ریسٹورانٹ ختم کرنے کاکام آج سے شروع کردیں، تین ماہ کاوقت دیا جاتا ہے۔ اگر کوئی خالی جگہ ہو تو سی ڈی اے ریسٹورانٹس کو ترجیحی طور پر دے۔ چیف جسٹس کا ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا شاہ فیصل الیاس سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ خیبرپختونخوا میں واقع نیشنل پارک کے حصہ میں بھی کمرشل سرگرمیاں بند کریں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر کسی بھی عدالت میں کرائے کی مد میں رقم جمع ہے تو وہ اسلام آباد وائلڈلائف مینجمنٹ بورڈ نکلوا کرالگ اکائونٹ میں رکھے گا اور اسے نیشنل پارک پر خرچ کرے گا۔چیف جسٹس کا ملک جاوید اقبال وینس سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آرای ایف کی فائل ہم اپنے پاس رکھ رہے ہیں۔ اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل کاکہناتھا کہ پوری فائل آتی ہے تومیں جمع کروادوں گا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر فائل نہ آئی تو، ریٹائرڈفوجی نے توہار مان لی کیا سویلین میں ہمت ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ برقراررہے گا۔ اسلام آباد وائلڈلائف مینجمنٹ بورڈ  کی درخواست بھی نمٹائی جاتی ہے۔ ZS
#/S