وفاقی بجٹ عوام دشمن ، تنخواہ دار ، مڈل کلاس پر ایٹم بم گرانے کے مترادف ہے  حافظ نعیم الرحمن
وزیر اعظم بتائیں کہ آٹا، چینی ، دال ، مصالحوں پر 18فیصد ٹیکس لگا کر کون سی مہنگائی کم کی ہے؟ادارہ نورحق میں پریس کانفرنس سے خطاب
وفاقی و صوبائی بجٹ میں کراچی کے لیے کوئی نیا ترقیاتی منصوبہ نہیں  کراچی کاکے فور ، ایس تھری منصوبہ جلد مکمل کیا جائے

کراچی( ویب  نیوز)

امیرجماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ 2024-25کا وفاقی بجٹ عوام دشمن ، تنخواہ دار ، مڈل کلاس پر ایٹم بم گرانے کے مترادف ہے ،وفاقی اور صوبائی بجٹ میں کراچی کے ترقیاتی منصوبے کے لیے کوئی نیا منصوبہ نہیں رکھا گیا۔کراچی کو اعلانات کی نہیں کے فور ، ایس تھری منصوبہ تکمیل سمیت نئے پروجیکٹ کی ضرورت ہے ۔وزیر اعظم شہباز شریف کہتے ہیں کہ ہم نے مہنگائی 38فیصد سے کم کر کے 12فیصد کردی ہے ، وہ بتائیں کہ آٹا، چینی ، دال ، مصالحوںپر 18فیصد ٹیکس لگا کر کون سی مہنگائی کم کی ہے؟جب اشیائے خوردنوش پر ٹیکس لگا یا جائے تو مہنگائی میں کمی نہیں اضافہ ہوگا ،بنیادی طور پر شہباز شریف وزیر اعظم کی نشست کا استحقاق ہی نہیں رکھتے ،عوام نے ووٹ نہیں دیا تو جعلی طریقے سے فارم 47کی بنیاد پر ہم پر مسلط ہوگئے ہیں اور اب قوم سے جھوٹ بھی بول رہے ہیں۔وزیراعظم کا قوم سے خطاب گزشتہ ڈیرھ سال قبل رجیم چینج کے موقع پر پی ڈی ایم کی حکومت کے موقع پر تھا وہی خطاب آج پھر قوم کے سامنے دہرایا گیا، وفاقی حکومت نے مڈل کلاس تنخواہ دارطبقے پر حملہ کرکے 360ارب روپے جب کہ جاگیرداروں سے صرف4ارب روپے ٹیکس وصول کیا، تنخواہ دار اور مڈل کلاس طبقے کو کوئی ریلیف ہی نہیں دیاگیا ،دوسرے ممالک میں تنخواہ دار طبقے کو ریلیف دی جاتی ہے جبکہ یہاں 25سے 30فیصد ٹیکس وصول کر کے مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ بیرون ملک چلے جائیں،پروفیشنل افراد بحالت مجبوری اپنے ہی ملک میں کام نہیں کرنا چاہتے ، پہلے ہزاروں اور اب لاکھوں کی تعداد میں لوگ باہر جانا چاہتے ہیں، ان خیالات کا اظہار انہوں نے ادارہ نورحق میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ اس موقع پر مرکزی نائب امیرڈاکٹر اسامہ رضی،امیرکراچی منعم ظفر خان،نائب امراء جماعت اسلامی کراچی سیف الدین ایڈوکیٹ،نوید علی بیگ، سیکرٹری توفیق الدین صدیقی، ڈائریکٹر میڈیا سیل پاکستان سلمان شیخ،سیکرٹری اطلاعات زاہد عسکری،صنعتکار بابر خان،سینئر ڈپٹی سکریٹری اطلاعات صہیب احمد موجود تھے ۔حافظ نعیم الرحمن نے مزیدکہاکہ وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف نے بجٹ پیش کرتے ہوئے کہاکہ 2024-25کے بجٹ میں ہمارا آئی ایم ایف سے آخری معاہدہ ہوگا اور قوم کو قرضے سے نکالیں گے اور یہی بیان ماضی میں میاں نواز شریف نے بھی دیا تھا وہ بتائیں کہ ملک کے کس حصے میں مہنگائی ختم ہوگئی ہے اور عوام کو کون سا ریلیف مل گیا ہے؟غریب طبقہ تو پہلے ہی ختم ہوگیا ہے لیکن اب مڈل کلاس طبقے پر بھی ٹیکس لگادیے گئے ہیں اور جاگیرداروںکو ریلیف دی گئی ہے اور یہ وہی جاگیردار طبقہ ہے جنہیں انگریزوں نے غلامی کے عوض زمینیں دی تھیں اور آج ان کی اولادیں ہم پر مسلط ہیں اور ہماری تقدیروں کا فیصلہ کرتے رہتے ہیں ، وزیر اعظم کہتے ہیں کہ ہم نے سرکاری ملازمین کی تنخواہ میں اضافہ کیا ہے ، وہ بتائیں کہ ملک میں سرکاری ملازمین کتنے فیصد ہیں اور پرائیویٹ ملازمین کتنے فیصد ہیں ؟وہ بتائیں کہ کس ضابطے اور قانون کے مطابق پرائیویٹ ملازمین کی تنخواہ میں اضافہ ہوگا ؟۔موجودہ بجٹ بھی ماضی کی طرح آئی ایم ایف کا بنایا ہوا بجٹ ہے جس میں عام افراد اور تنخواہ دار طبقے کے لیے کچھ نہیں ہے ۔انہوں نے مزیدکہاکہ پنجاب میں مسلم لیگ ن کی حکومت ہے ،انہوں نے کسانوں کے ساتھ دھوکا دہی اور فراڈ کیا ،پہلے گندم کی قیمت فکس کردی اور پھر آخری لمحے میں کہہ دیا کہ ہم کسانوں سے گندم نہیں خریدیں گے ،پھر کہاکہ گندم میں 400ارب روپے کی سبسیڈی دیں گے اور کسانوں کو ریلیف دیں گے اور پھر کہاکہ ہم سبسیڈی نہیں قرضے دیں گے ۔جس کے نتیجے میں اگلے سال کسان گندم کی کاشت پہلے سے کم کریں گے کیوں کہ حکومت کی طرف سے کسانوں کو کوئی ریلیف نہیں مل رہا ،ایسے موقع پر گندم باہر سے خریدی جاتی ہے اور بڑی تعداد میں کرپشن ہوتی ہے ، وزیر اعظم بتائیں کہ ملک میں گندم ہونے کے باوجود ایک بلین ڈالر کی گندم کیوںخریدی گئی ؟ کون کون لوگ اس میں ملوث تھے اس کی خریداری کا فارنزک آڈٹ ہونا چاہئے ۔انہوں نے کہاکہ ہمیں دفاع کے بجٹ پر کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن دفاع کرنے والوں کے ذاتی مراعات میں اضافہ جائز نہیں ،جب قوم قربانی دے رہی ہے تو پھر سب کو قربانی دینی چاہییے ،اسی طرح 2سال میں 13500ارب روپے دبئی لیکس منی ٹریل میں فوج ، سیاستدان ،بیوروکریٹ سب شامل ہیں ان سے ٹیکس کیوں وصول نہیں کیا جاتا ، ان کی جائیدادیں بیرون ملک میں ہیں ان سے کیوں حساب نہیں لیا جاتا ،یہ خود اور ان کی اولادیں بھی پاکستان میں کوئی اسٹیک نہیں رکھتی اسی لیے انہیں پاکستان کے عوام سے کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔یہی وجہ ہے کہ 2کروڑ 62لاکھ بچے تعلیم سے محروم ہیں،4صوبوں کے تعلیم کے شعبہ میں 16ارب روپے کابجٹ ہونے کے باوجود تعلیم کا یہ حال ہے کہ غریب اور مڈل کلاس کے بچے تعلیم حاصل نہیں کرسکتے ۔موجودہ بجٹ آصف علی زرداری کی مدد سے بجٹ بنایا ہے، آصف علی زرداری بتائیں کہ اندرون سندھ اور کراچی کے سرکاری تعلیمی اداروں کی کیا صورتحال ہے ؟ صرف اور صرف سرکاری بھرتیوں پر زور دیا جاتا ہے لیکن بچوں کی تعلیم کے لیے کچھ نہیں ہوتا ۔انہوں نے مزیدکہاکہ اٹھارہویں ترمیم کے نتیجے میں صوبوں کو پیسے مل جاتے ہیں لیکن بلدیاتی اداروں کو پیسے کیوں نہیں دیے جاتے ؟ماضی میں صوبائی بجٹ میں کراچی کے ترقیاتی بجٹ کے لیے 10ارب رکھے گئے تھے وہ بھی نہیں ملے اور اس دفعہ پھر 10ارب رکھے گئے ہیں وہ بھی نہیں ملیں گے ۔#