عوام کا حق لینے آئے ہیں اور یہ حق لے کر ہی واپس جائیں گے،حافظ نعیم الرحمان
ملک گیر ہڑتال کے لئے بڑی تعدادمیں تاجراور صنعتکار رابطے کررہے ہیں
شٹر ڈاؤن ہڑتال بجلی بلز کے بائیکاٹ کے آپشنز موجودہیں،
۔مراعات ختم کرنے جاگیرداروں پر ٹیکس لگانے پر  کیا آپ کو موت آتی ہے
کوئی ہماری سوچ پر پہرے نہیں بٹھا سکتا۔ دھرنے سے خطاب۔
 امیر العظیم کی پارلیمنٹ میں حکمرانوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردینے کی دھمکی

راولپنڈی( ویب  نیوز)

امیرجماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان نے کہا ہے کہ عوام کا حق لینے آئے ہیں اور یہ حق لے کر ہی واپس جائیں گے،ملک گیر ہڑتال کے لئے بڑی تعدادمیں تاجراور صنعتکار رابطے کررہے ہیں ہڑتال کی کال اور بجلی بلز کے بائیکاٹ کے آپشنز موجودہیں،کوئی ہماری سوچ پر پہرے نہیں بٹھا سکتا۔ عوامی ریلیف کے لئے پوری قوت کیساتھ بولیں گے،ریاست ،فوج،اسٹیبلشمنٹ حکومت  نہیں عوام کا نام ہے، سارا پاکستان دھرنے کی طرف دیکھ رہا ہے تین ماہ کیا ایک سال بیٹھنے کے لیے تیار ہیں حکومت اپنے لئے ہماری مہلت کمزوری نہ سمجھے ۔ان خیالات کا اظہار انھوں ہفتہ کی شب لیاقت باغ مری روڈ پر شرکاء دھرنا سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ دھرنے کو نو دن مکمل ہو گئے ہیں اور شرکاء دھرنا سارے پاکستان میں مزاحمت کا عنوان بن کر ابھرے ہیں حکمران  سمجھ رہے تھے کہ چند دن کا دھرنا ہوگا۔ظلم کے خلاف دھرنا جاری ہے حکمران آئے روز بجلی کی قیمت بڑھانے کے بم گراتے ہیں روزگار کے مواقع ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ مخصوص طبقہ اپنی مراعات چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہے۔کسی بھی سیاست دان ،فوج کے اعلیٰ آفیسر،پولیس کے اعلیٰ آفیسر ،بیوروکریٹ،اراکین اسمبلی کے شادی کی کوئی تقریب ہو تو سب سے زیادہ اس میں سرکاری پروٹوکول کی گاڑیاں ہوتی ہیں۔پولیس کے بڑے بڑے سکواڈ ہوتے ہیں جو ایک طرف بھاری اخراجات کے علاوہ امن وامان کو بھی متاثر کرتے ہیں۔حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ ملک کا یہ حال کر دیا ہے کہ رشوت لینے والے کو نہیں پکڑا جاتا ایماندار کے لیے زندگی گزار مشکل بنا دیتے ہیں اس گلے سڑے نظام چند لوگوں کو حقوق حاصل ہیں یہی لوگ ،پولیس،سرکاری اداروں،پروٹوکول ،سرکاری گاڑیوں کا استعمال اور مفت پٹرول ،بجلی لیتے ہیں ان کی بیگمات بھی شاپنگ کے لیے سرکاری گاڑیاں استعمال کرتی ہیں ان کے بچے بھی سرکاری گاڑیوں میں سکول جاتے ہیں مگر غریب تمام حقوق سے محروم ہیں جبکہ ہمارا آئین کہتا ہے کہ مفت تعلیم،ایک زبان،یکساں نظام اور ایک نصاب ہوگا مگر یہ تو سرکاری سکولوں کو ہی بیچنا چاہتے ہیں پنجاب میں 13 ہزار سکولوں کی نجی کاری کی تیاری کی جا رہی ہے پہلے ہی 90 فیصد تعلیمی ادارے نجی شعبہ میں معیار تعلیم دینے میں ناکام ہیں۔صوبوں کا تعلیم کا بڑا بجٹ ہے۔صرف سندھ میں گزارش سال 200 ارب روپے کا تعلیمی بجٹ تھا اور یہ 70 ،80 فیصد ناجائز طریقے سے بھرتی اساتذہ،انتظامی اخراجات  اور کرپشن کی نظر ہوجاتا ہے۔اسی لیے تعلیم میں بہتری نہیں آتی ہم کہتے ہیں کہ آئی پی پیز کے ظالمانہ معاہدوں کو کالعدم قرار دو مگر حکومت میں شامل اور حکومتی زبان بولنے والے لوگ مایوس کرتے ہیں کہ ایسا کرنا ممکن نہیں یعنی اپنے خون پیسنے کی کمائی آئی پی پیز والوں کے پیٹ میں ڈالتے رہیں اور ملک کا بیٹراغرق کرتے رہیں۔اس ظلم کے خلاف کچھ نہ کچھ تو کرنا ہوگا۔تعلیم،صحت ،امن وامان ریاست کی آئینی ذمہ داری ہے مگر یہاں دو کروڑ باسٹھ لاکھ بچے سکولوں سے باہر ہیں۔حافظ نعیم الرحمن نے کہاکہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ ریاست ،فوج،اسٹیبلشمنٹ حکومت کا نام نہیں ہے ریاست عوام کا نام ہے۔عوام کے ذریعے ریاست بنتی اور حکومت ہوتی ہے جمہوری رائے کی بالا دستی ہی جمہوریت ہے۔جمہور کی رائے کے بغیر کوئی حکومت نہیں کر سکتا۔ایک ادارے،ایک حکومت ،ریاست نہیں ہے کوئی ہماری سوچ پر پہرے نہیں بٹھا سکتا۔حق سے محروم نہیں رکھ سکتا۔ ہم بولیں گے اور پوری قوت کیساتھ بولیں گے۔اپنا حق لینے یہاں آئے ہیں اور اپناحق لے کر ہی جائیں گے ملک میں امن ناپید ہے۔لاپتہ افرادکا مسئلہ حل کرو۔ان کے پیاروں کو واپس کرو۔کراچی میں سٹریٹ کرائم بیٹھ رہے ہیں۔سندھ میں بدامنی ہے۔پنجاب ،بلوچستان کے کچے کے علاقوں میں ڈاکو راج ہے اور بڑے بڑے سردار کچے کے ڈاکوؤں کی سرپرستی کرتے ہیں۔ملی بھگت سے جرائم ہوتے ۔وہ کونسی کالی بھیڑیں ہیں جو حکومت میں گھسی ہوئی ہیں۔ڈاکوؤں اور چوروں کی سرپرستی کرتی ہیں۔جمہور کی رائے کو کچل کر زبردستی حکومت میں آتی ہیں۔امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ ہم اپنے بنیادی حقوق سے دستبردار نہیں ہونگے۔یہ سمجھ رہے تھے کہ چند دنوں کے  لیے آئے ہیں۔ہم جانے کے لیے نہیں آئے۔ہماری واپسی کی ایک ہی صورتحال ہے ۔بجلی،گیس اور پٹرول کی قیمتیں کم کر دو۔ٹیکس سلیب واپس لو۔مراعات کو ختم کیا جائے۔چھوٹی گاڑیاں استعمال کرو۔حکومت ہمارے مطالبات کو ٹھیک بھی کہتی ہے کہ ان میں وزن ہے اور جائز ہیں مگر ساتھ یہ بھی کہتی ہے کہ یہ قابل عمل نہیں ہیں۔وزیراعظم ،وزرائ،فوج کے آفیسران،عدلیہ کے ججز ،بیوروکریٹس سے بڑی گاڑیاں لے کر 1300 سی سی گاڑیوں پر کیوں نہیں لے جاتے ۔کیا 1300سی سی گاڑی استعمال کرنے پرشہباز شریف کے پلیٹ لٹیس کم ہو جائیں گی ۔بیماری لگ جائے گی ،کچھ نہیں ہوگا۔اس آپشن سے دس پندرہ ہزار ارب روپے حاصل ہو جائیں گے۔مفت بجلی اور پٹرول کی سہولت ختم کرنے سے مزید وسائل آ جائیں گے اور بہت بڑا مسئلہ حل ہو جائے گا۔اڑھائی کروڑ ایکڑ اراضی رکھنے والے جاگیرداروں پر ٹیکس کیوں نہیں لگایا جاتا ۔یہ مٹھی بھر لوگ ہیں ۔ان پر ٹیکس لگانا آپ کو برا لگتا ہے مگر غریب کی بجلی مہنگی کرنے،مڈل کلاس پر ٹیکس کے بوجھ میں اضافہ کرنا آپ کو برا نہیں لگتا۔جاگیرداروں پر ٹیکس لگانے پر آپ کو موت آتی ہے۔قوم کو ریلیف چاہیے اس کے بغیر دھرنا ختم نہیں ہوگا۔اگلے مرحلے میں پاکستان کی تمام شاہراہوں پر دھرنے دیئے جائیں گے۔ملک گیر ہڑتال اور بجلی بلز کے بائیکاٹ کے آپشن موجود ہیں۔چاروں طرف سے روابط ہو رہے ہیں کہ جلد اس ہڑتال کااعلان کیا جائے۔حکومت کو مہلت دے رکھی ہے اسے کمزوری نہ سمجھا جائے۔تصادم نہیں چاہتے ۔حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف کے بیانات سے ثابت ہورہا ہے کہ وہ دھرنا سے پریشان ہیں اور جیسے جیسے دھرنا آگے بڑھتا جائے گا ان کی چیخیں نکلنا شروع ہو جائیںگی۔انہوں نے کہا کہ حق و انصاف اور عدل کی بالا دستی،حق حاصل کرنے کی جدوجہد کرنے کی سیاست پر ہمیں فخر ہے اور ظلم کے خلاف اور خدمت کے لیے یہ سیاست عبادت ہے۔پاکستان کی 80 فیصد نوجوان ملک چھوڑنا چاہتے ہیں یا پھر منشیات کے عادی ہورہے ہیں۔آپ سیاست کرپشن لوٹ مار کے لیے کرتے ہو۔ہم سیاست کو حق حاصل کرنے کے لیے دین کا کام سمجھ کرکرتے ہیں حق و انصاف کی بالا دستی دین کا تقاضا ہے۔باتیں کرنے سے انقلاب نہیں آتا۔انہوں نے مزید کہا کہ اسلام ،عدالت،انصاف،معیشت ،سیاست ،حکومت ،ریاست سب کے لیے آیا ہے دین قوت نافذہا ہے۔دین غالب ہونے کے لیے آیا ہے اور اس جدوجہد پر ہمیں فخر ہے ۔ظالموں کے  ہاتھ روکنے کے لیے ہر کوشش بروئے کار لائیںگے۔ہم خدمت بھی کرتے ہیں ۔عوام کو سہولت بھی پہنچاتے ہیں اپنے حصہ کی ساری ذمہ  داری ادا کرتے ہیں لیکن سیاست،نظام ،معیشت ،حکومت ،ریاست پر یہ ناگ بن کر بیٹھ گئے ہیں مگر عوام کا فیصلہ ہے کہ مزید ملک و قوم کی تقدیر اور اختیار ان حکمرانوں کو نہیں دے سکتے۔اس تحریک کو نہیں روکا جا سکتا۔ سارا پاکستان دھرنے کی طرف دیکھ رہا ہے ۔ہم طویل دھرنے کے لیے ہیں۔تین ماہ کیا ایک سال بیٹھنے کے لیے تیار ہیں۔کوئی شکست نہیں دے سکتا۔حکومت مطالبات کے حوالے سے نہ چھپے۔سامنے آئے  سارے پاکستان کو بتائے کہ مہنگی بجلی کیوں ہے۔قیمت کیوں کم نہیں کر سکتے۔مراعات کیوں نہیں کم  کر سکتے۔جاگیرداروں پر ٹیکس کیوں نہیں لگا سکتے۔ٹیکس سلیب ختم کیوں نہیں کر سکتے۔ آئی پی پیز کو لگام کیوں نہیں دے سکتے۔سیکرٹری جنرل امیر العظیم نے کہا کہ تقاریر اور نعروں سے ہمارے گلے بیٹھ رہے ہیں مگر اس دھرنے کو دیکھ کر حکمرانوںکے دل بیٹھ رہے ہیں۔ہم انہیں دھرنا میں رگڑا لگانے آئے ہیں حکمرانوں کو ڈی چوک پر جھکنے پر مجبور کریںگے۔تیار نہ ہوئے تو پارلیمنٹ میں ان کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیں گے۔امیر العظیم نے کہا کہ جماعت اسلامی کی قیادت واپس جانے کو تیار نہیں ہے۔دھرنے والے ٹلنے والے ہیں نہ ٹالنے والے ہیں۔تمہاری ٹلیاں بجانے آئے ہیں اور یہ آدھی چھٹی نہیں پوری چھٹی کے لیے حکومتی ٹلی بجائی جائے گی۔کمیٹی وزیراعظم کو مذاکرات سے آگاہ کر دیا ہے۔حکمرانوں تمہاری ٹلیاں بجا کر واپس جائیں گے۔خواتین کانوں کی بالیاں اور نوجوان موٹر سائیکل بیچ کر بجلی کے بلز ادا کر رہے ہیں۔جب پانی پلوں سے گزرنے لگا تو انڈسٹری والے بھی چیخ اٹھے۔گوہر اعجاز چیخ رہا اور اپنے پانچ سو ملازمین  کو بیروزگار کر دیا کہ اس مہنگی بجلی میں انڈسٹری نہیں چل سکتی۔دفاعی بجٹ2600 ارب روپے ،آئی پی پیز کے کپیسٹی چارجز 2800 ارب روپے ہیں۔دفاع سے زیادہ وسائل آئی پی پیز میں مفت ریوڑیوں کی طرح بانٹ رہے ہیں۔اب ایسا نہیں چلے گا۔نائب امیر جماعت اسلامی لیاقت بلوچ،میاں محمد اسلم ،ڈاکٹر طارق سلیم و دیگر رہنماء بھی موجود تھے۔
#/S