جنرل فیض حمید کا ٹرائل اوپن کورٹ میں کریں عمران خان
ہفتے میں صرف چھ سیاست دانوں کو مجھے ملنے کی اجازت ہے
 اسلام آباد( ویب  نیوز)

سابق وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ آرمی چیف، جنرل فیض حمید کا ٹرائل اوپن کورٹ میں کریں کیوں کہ جنرل فیض اور میرا معاملہ فوج کا اندرونی مسئلہ نہیں۔ 190 ملین پاونڈ کے مقدمے کی سماعت کے بعد اڈیالہ جیل میں قائم احتساب عدالت میں موجود میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے مطالبہ کیا ہے کہ  لیفٹینٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کے خلاف ٹرائل اوپن کورٹ میں ہونا چاہیے۔انھوں نے اپنی جماعت پاکستان تحریک انصاف کو سب سے بڑی جماعت قرار دیتے ہوئے کہا کہ کیونکہ یہ پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ پر الزام کا معاملہ ہے اس لیے اس معاملے کو اوپن کورٹ میں چلایا جائے اور میڈیا کے نمائندوں کو بھی آنے کی اجازت دی جائے تاکہ پوری دینا کو معلوم ہو کہ ہو کیا رہا ہے۔بانی پی ٹی آئی عمران خان کا کہنا تھا کہ میرا جنرل فیض حمید سے تب تک ہی رابطہ تھا جب تک ڈی جی آئی ایس آئی تھے اس کے بعد سے ان سے میرا کوئی رابطہ نہیں ہے۔سابق وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان میں جب کوئی ریٹائرڈ ہو جاتا ہے تو وہ ہیرو سے زیرو ہو جاتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ان کے پاس اختیارات نہیں ہوتے، جس کے پاس اختیارات نہیں میں اس سے کیسے رابطہ رکھوں گا۔بانی پی ٹی آئی نے صحافیوں سے گفتگو کے دوران مزید کہا کہ گزشتہ برس مارچ میں اسلام آباد کے جوڈیشل کمپلیکس میں جس نے میری گرفتاری اور گھسیٹنے کے احکامات دیے وہی 9 مئی کا ذمہ دار ہے۔ انھوں نے کہا کہ نو مئی نیشنل سکیورٹی کا مسئلہ نہیں بلکہ لوکل معاملہ ہے۔انھوں نے کہا کہ ملک میں کیسی جمہوریت ہے جہاں پر ایک سابق وزیر اعظم کا مقدمہ ملٹری کورٹ میں چلایا جارہا ہے۔عمران خان کا کہنا تھا کہ اڈیالہ جیل کے ڈپٹی سپرنٹینڈنٹ کو اٹھایا لیا گیا اور ان کی اہلیہ اپنے خاوند کی بازیابی کے لیے عدالتوں کے چکر لگا رہی ہے۔انھوں نے کہا کہ 190 ملین پانڈ کا معاملہ منی لانڈرنگ کا نہیں ہے۔ عمران خان نے کہا کہ برطانیہ میں حسن نواز کی پراپرٹی کی مالیت 9 ارب تھی بزنس ٹائیکون نے نو ارب روپے کی بجائے 18 ارب روپے میں خریدی جس پر برطانوی ایجنسی این سی اے تحقیقات کی تھی۔ ایک  سوال  پر عمران خان کا کہنا تھا کہ مجھے کسی سے ملنے نہیں دیا جاتا تو میں کیسے اس معاملے کو دیکھ سکتا ہوں۔انھوں نے کہا کہ مجھ سے تو علی آمین گنڈاپور کو بھی ملنے نہیں دیا جاتا ہفتے میں صرف چھ سیاست دانوں کو مجھے ملنے کی اجازت ہے میرے وکلا اندر آنے کے لیے گھنٹوں کھڑے رہتے ہیں۔