چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5رکنی لارجر بینچ نے متفقہ طور پر منحرف اراکین اسمبلی کا ووٹ شمار نہ کرنے کا آرٹیکل 63-A سے متعلق17مئی 2022کا مختصر اور بعد میں جاری کیا گیا تفصیلی اکثریتی فیصلہ کالعدم قرار دے دیا
عدالت عظمی نے آرٹیکل63-Aکی تشریح سے متعلق سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی نظرثانی درخواست پرمختصر فیصلہ سنا تے ہوئے آرٹیکل 63-Aکے خلاف دائر نظرثانی درخواست منظور کرلی
 آرٹیکل 63-Aکی تشریح میں آئین کو نظرانداز کردیا، خودبخود نااہلی نہیں ہو گی بلکہ دو، تین مرحلوں کے بعد نااہلی ہوگی، چیف جسٹس
 تاریخ یہ ہے کہ جب مارشل لاء لگتا ہے تو10سال لوگ خاموش بیٹھے رہتے ہیں، ہرکوئی ربڑاسٹیمپ بن جاتا ہے ، جمہوریت کوچلنے ہی نہیں دیتے،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ
 سب سے بڑے صوبے کی حکومت صدارتی رائے پر گرائی گئی، کیا صدر نے کہا تھا حکومت گرادیں،ووٹ ڈالے ہی گننے کے لئے جاتے ہیں، جسٹس جمال مندوخیل
 ججز نے آئین دوبارہ لکھا اس فیصلے پر نظرثانی کے لئے یہی بات کافی ہے، میٹرک کے بچے کوبھی آئین کاآرٹیکل 63-Aسمجھ آجائے گا، صدر کوکیوں سمجھ نہیں آرہا، جسٹس نعیم اخترافغان
پاکستان تحریک انصاف کاعدالتی کاروائی کابائیکاٹ ، سید علی ظفر نے عدالتی معاون کے طور پر دلائل دیئے

اسلام آباد( ویب  نیوز)

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے 5رکنی لارجر بینچ نے متفقہ طور پر منحرف اراکین اسمبلی کا ووٹ شمار نہ کرنے کا آرٹیکل 63-A سے متعلق17مئی 2022کا مختصر اور بعد میں جاری کیا گیا تفصیلی اکثریتی فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔عدالت عظمی نے آرٹیکل63-Aکی تشریح سے متعلق سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی نظرثانی درخواست پرمختصر فیصلہ سنا تے ہوئے آرٹیکل 63-Aکے خلاف دائر نظرثانی درخواست منظور کرلی۔ تفصیلی وجوہات بعد میں جاری کی جائیں گی۔ بینچ نے پاکستان تحریک انصاف کے رہنماسینیٹر بیرسٹر سید علی ظفر کی جانب سے بطور عدالتی معاون دلائل دینے پر ان کاشکریہ اداکیا۔ جبکہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ آرٹیکل 63-Aکی تشریح میں آئین کو نظرانداز کردیا، خودبخود نااہلی نہیں ہو گی بلکہ دو، تین مرحلوں کے بعد نااہلی ہوگی۔ آئین پر عمل کرنا مجھ پر لازم ہے اگر مجھے آئین پسند نہیں تومجھے کہنا چاہیئے میں جج نہیں بن سکتا۔ ووٹ گنا بھی نہیں جائے گا اور ووٹ دیکھا بھی نہیں جائے گا توآئین کے آرٹیکل 63-Aکی زبان کے خلاف ہے۔ پارلیمنٹ فلورکراسنگ کرنے والے ارکان پر تاحیات پابندی لگاسکتی ہے۔ تاریخ یہ ہے کہ جب مارشل لاء لگتا ہے تو10سال لوگ خاموش بیٹھے رہتے ہیں، ہرکوئی ربڑاسٹیمپ بن جاتا ہے ، جمہوریت کوچلنے ہی نہیں دیتے۔ جبکہ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے ہیں کہ سب سے بڑے صوبے کی حکومت صدارتی رائے پر گرائی گئی، کیا صدر نے کہا تھا حکومت گرادیں۔ووٹ ڈالے ہی گننے کے لئے جاتے ہیں۔
جبکہ جسٹس نعیم اخترافغان نے ریمارکس دیئے ہیں کہ ججز نے آئین دوبارہ لکھا اس فیصلے پر نظرثانی کے لئے یہی بات کافی ہے۔ میٹرک کے بچے کوبھی آئین کاآرٹیکل 63-Aسمجھ آجائے گا، صدر کوکیوں سمجھ نہیں آرہا۔سپریم کورٹ آف پاکستان میں آرٹیکل 63 اے تشریح نظر ثانی کیس کی سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس امین الدین خان ،جسٹس جمال خان مندو خیل، جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل پرمشتمل5رکنی لارجر بینچ نے کی۔ سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سید علی ظفر سے استفسار کیا کہ آپ کی اپنے موکل سے ملاقات ہوگئی۔ جس پرسید علی ظفر نے جواب دیا جی بالکل گزشتہ روز ملاقات ہوئی اوراٹارنی جنرل آفس نے سہولت کاری کی لیکن ملاقات علیحدگی میں نہیں تھی، جیل حکام بھی موجود رہے۔بیرسٹرسید علی ظفر نے عدالت سے استدعا کی کہ عمران خان عدالت سے خود مخاطب ہونا چاہتے ہیں، بانی پی ٹی آئی ویڈیو لنک کے ذریعے عدالت میں گزارشات رکھنا چاہتے ہیں، آخری مرتبہ ویڈیو لنک کے زریعہ سپریم کورٹ سے مخاطب ہوئے تھے یہ کام ہوجائے توٹھیک ہے، اگروہ بول لیں اور عدالت سے مخاطب ہولیں توٹھیک ہے۔ چیف جسٹس کاسید علی ظفر کومخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ بغیر وکالت نامہ کے آئے ہم نے پھر بھی آپ کوسنا۔ چیف جسٹس نے سید علی ظفر کو ہدایت دی کہ اچھا آگے چلیں، دلائل شروع کریں۔چیف جسٹس کاکہناتھا کہ یہ سادہ آئین اورقانون کامعاملہ ہے اگر وکیل ہے توہم اس کوسنتے ہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ مئوکل عدالت میں آکر کہتے ہیں مجھے وکیل کرنے دیں وکیل نہیں کہتے کہ مئوکل کو بلائیں۔ سید علی ظفر نے کہا کہ نہیں پہلے عمران خان عدالت میں گزارشات رکھ لیں، پھر میں دلائل دوں گا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ علی ظفر صاحب آپ سینئر وکیل ہے، آپ کو معلوم ہے عدالتی کارروائی کیسے چلتی ہے۔علی ظفر نے جواب دیا کہ میرے مئوکل کو بینچ پر کچھ اعتراضات ہیں۔چیف جسٹس نے سید علی ظفر کوہدایت کی کہ کیس چلائیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ سید علی ظفر کی درخواست غیر موزوں اور ناقابل توجیح ہے۔ چیف جسٹس کاسید علی ظفر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یہ آئینی معاملہ ہے آپ کا کام عدالتی افسر کے طور پر کام کرنا ہے۔ چیف جسٹس کاسید علی ظفر کاکہنا تھا کہ مہربانی کرکے کاروائی آگے بڑھائیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ مئوکل کی ہربات نہیں مانتے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ سید علی ظفر نے پانچ منٹ لے لئے ہیں۔ سید علی ظفر کاکہنا تھاکہ میں آئندہ 5سے7منٹ میں عدالت سے باہر ہوں گا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ اس ریفرنس کے پیچھے مقصد کیا تھا وہاں سے شروع کریں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہم نے فیصلے کودیکھنا ہے، کیس کیسے دائر ہوا اس کودیکھنا ہے، آج کیا ہورہا ہے ہمیں اس سے غرض نہیں۔ چیف جسٹس کاسید علی ظفرسے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آج نیا کیس دائر کریں ہم تمام معاملات سنیں گے۔ سید علی ظفر کاچیف جسٹس کو مخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ میں کچھ کہنے لگتا ہوں توآپ روکتے ہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ گزشتہ روز سماعت کاحکمنامہ جاری کردیا تھا اورگزشتہ روزہی ججز نے دستخط کردیئے تھے مجھے نہیں پتا کہ وہ آج ویب سائٹ پر اپ لوڈ ہوا ہے۔ سید علی ظفر کاکہنا تھا کہ میں 7منٹ میں روسٹرم چھوڑ دوں گا۔ چیف جسٹس کاکہناتھا کہ کیس پر 6گھنٹے بھی دلائل دیں گے توہم سنیں گے، اگر اخبار کی سرخیاں لگوانا چاہتے ہیں کہ کل کے اخبار کی سرخیاں لگ جائیں توہم ایسا نہیں کرنے دیں گے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہمیں نہیں پتا کسی لیڈر نے کیا کہاہے۔ سید علی ظفر کاکہناتھاکہ آج بلال بھٹو زررداری کی اخباروں کی سرخیاں لگی ہیںکہ آئینی ترمیم 25 اکتوبر سے قبل لازمی ہے۔اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہمیں اس بات کا معلوم نہیں۔چیف جسٹس کاسید علی ظفر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ کہہ سکتے ہیں ہیں بہت اچھا یابہت برافیصلہ ہے۔ سید علی ظفر کاکہنا تھا کہ حکومتی جماعتوں کی خواہش پر آئینی ترمیم کے لئے کیس سنا جارہا ہے، آئینی پیکج لایا جارہا ہے،کچھ شقیں ہیں، آئینی عدالت بنانا چاہتے ہیں،فاروق نائیک نے بھی گزشتہ روزاس کاذکرکیا تھا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ فرض کریں اگر پارلیمنٹ ججز کی ریٹائرمنٹ عمر کم کردے توہم کیا کہیں گے کہ نہ کریں۔سید علی ظفرکا کہنا تھا کہ حکومت آئینی ترمیم لارہی ہے اور تاثر ہے عدالت ہارس ٹریڈنگ کی اجازت دے گی۔اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم اس بات پر آپ پر توہین عدالت لگا سکتے ہیں، کل آپ نے ایک طریقہ اپنایا، آج دوسرا طریقہ اپنا رہے ہیں۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم آپ کی عزت کرتے ہیں، آپ ہماری عزت کریں،ججز کامذاق اڑارہے ہیں، ہارس ٹریڈنگ کا کہہ کر بہت لوڈڈ بیان دے رہے ہیں، ہارس ٹریڈنگ کیا ہوتی ہے؟ آپ کو ہم بتائیں تو آپ کو شرمندگی ہوگی، ہم ہارس ٹریڈنگ کی اجازت نہیں دے رہے۔سید علی ظفر نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے کا فیصلہ ہارس ٹریڈنگ کو روکتا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدالتوں کا مذاق بنانا بند کریں۔جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ یہ غلط بات ہے کہ ہم نے ہارس ٹریڈنگ کی اجازت دے دی۔  جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ عدالت نے 63-Aپر اپنی رائے دی تھی کوئی فیصلہ نہیں، صدر نے رائے اورمشورہ مانگا، کیا ریکارڈ پر کوئی بات آئی ہے کہ صدر نے اکثریت یا اقلیت والی رائے کوقبول کیا۔ سید علی ظفرکاکہناتھا کہ صدر نے رائے مانگی سپریم کورٹ نے دے دی۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھاکہ سب سے بڑے صوبے کی حکومت صدارتی رائے پر گرائی گئی، کیا صدر نے کہا تھا حکومت گرادیں۔ چیف جسٹس کاکہناتھا کہ اگر نعشوں کو نکالناچاہتے ہیں توایسا نہ کریں اس سے آپ کوشرمندگی ہوگی، مرحوم میرحاصل خان بزنجو نے کیا کہا تھا، 67ارکان سینیٹ کھڑے ہوئے اور جب ووٹ ڈالے گئے تو 53تھے، دوسری مرتبہ سینیٹ چیئرمین کے الیکشن کے موقع پر 5ووٹ مستردکئے گئے، ماضی ریکارڈڈ ہے ، سینیٹ میں خفیہ کیمرے لگائے گئے، کس نے وہ الیکشن مینی پولیٹ کیا تھا، کیسے 67لوگ پیش ہوئے اور 50ووٹ بن گئے، کیا ہم نے کہا ہے ہارس ٹریڈنگ ہونی چاہیئے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ملک کوچلنے دیتے ہیں، آگے بڑھیں کیوں ایک فیصلے سے گھبرارہے ہیں۔ سید علی ظفر کاکہنا تھا کہ دوبارہ دروازہ کھولنا چاہتے ہیں، عمران خان کو بینچ کی تشکیل پر اعتراض ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ نواز شریف اور بلاول بھٹو کیاکہتے ہیں۔ سید علی ظفر کاکہناتھا کہ ہم مزید کاروائی کاحصہ نہیں بنیں گے ، کاروائی میں شمولیت نہیں کریں گے اوراپنی درخواست واپس لیتے ہیں۔ اس پر کمرہ عدالت میں موجود پی ٹی آئی وکلاء کمرہ عدالت سے چلے گئے۔ چیف جسٹس کاسید علی ظفر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کیا عدالت کی معاونت کریں گے۔ عدالتی درخواست پر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر شہزادشوکت نے سید علی ظفر کے بطور عدالتی معاون دلائل دینے پر اعتراض نہیںکیا۔ چیف جسٹس نے علی ظفر سے مکالمہ کیا کہ آپ کے دلائل سے مستفید ہونا چاہتے تھے۔علی ظفر نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کہتے ہیں بینچ قانونی نہیں، اس لیے آگے بڑھنے کا فائدہ نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ بار بار عمران خان کا نام کیوں لے رہے ہیں، نام لیے بغیر آگے بات کریں۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ آپ دلائل دیں شاید ہم یہ نظر ثانی درخواست مسترد بھی کر سکتے ہیں جس پر علی ظفر نے بطور عدالتی معاون دلائل کا آغاز کردیا۔علی ظفر نے کہا کہا 63 اے کے حوالے سے صدر نے ایک رائے مانگی تھی، اس رائے کے خلاف نظر ثانی دائر نہیں ہو سکتی، صرف صدر پاکستان ہی اگر مزید وضاحت درکار ہوتی تو رجوع کر سکتے تھے، نظرثانی آئین کے آرٹیکل 188کے تحت ہوتی ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ایک درخواست آپ نے بھی اس کیس میں دائر کی تھی۔اس پر سید علی ظفر نے جواب دیا کہ میں نے درخواست دائر کی تھی کہ جو بھی فلورکراسنگ میں ملوث ہو اس پر تاحیات پابندی لگانی چاہیئے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہناتھا کہ یہ سوال توسپریم کورٹ نے پارلیمنٹ کو بھجوایا ہے۔ چیف جسٹس کاکہناتھاکہ پارلیمنٹ فلورکراسنگ کرنے والے ارکان پر تاحیات پابندی لگاسکتی ہے۔چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ صدارتی ریفرنس اور آئین کے آرٹیکل184-3کے تحت دائر درخواستوں کو کیوں جوڑا گیا۔سید علی ظفر کاکہناتھا کہ صدارتی ریفرنس پر عدالتی رائے ہوتی ہے۔ چیف جسٹس کاکہناتھاکہ آرٹیکل 63-Aکی تشریح میں آئین کو نظرانداز کردیا، خودبخود نااہلی نہیں ہو گی بلکہ دو، تین مرحلوں کے بعد نااہلی ہوگی۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ آئین پر عمل کرنا مجھ پر لازم ہے اگر مجھے آئین پسند نہیں تومجھے کہنا چاہیئے میں جج نہیں بن سکتا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کیوں ارکان پارلیمنٹ بدمعاش، بددیانت اور بچے ہیں، پھر پارلیمنٹ ختم کردیں، آمر آکر کہتے ہیں سب سیاستدان کرپٹ ہیں پارلیمنٹ ختم کردو، یہ کہہ دیں کہ قوم جمہوریت کے لائق نہیں،پھر سب لوگ ملٹری رجیم کو جوائن کر لیتے ہیں، پھر جمہوریت کا راگ شروع ہو جاتا ہے۔جسٹس امین الدین خان کاکہناتھاکہ کیا فیصلے کے بعد ایسا ہوگا کہ پارٹی سربراہ لکھ کراسپیکر کوردے گا کہ ووٹ نہیں گننے توپھر ووٹ ڈالنے کی ضرورت کیاہے۔چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ اگرآئین کچھ کہتا ہے توہم آئین کے ٹیکسٹ کو نظرانداز نہیں کرسکتے۔چیف جسٹس کاکہناتھا کہ ووٹ گنا بھی نہیں جائے گا اور ووٹ دیکھا بھی نہیں جائے گا توآئین کے آرٹیکل 63-Aکی زبان کے خلاف ہے۔چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ یہ جج کاکام نہیں کہ ڈیفیکشن کا فیصلہ کرے، یہ کام پارٹی سربراہ نے کرنا ہے، کیسے جج کہہ سکتا ہے کہ آپ ڈیفیکٹڈ ہیں، جج ایسا اس وقت کہہ سکتا ہے جب 63-Aکے تحت اپیل سپریم کورٹ میں آئے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیاکہ 63-Aکا فیصلہ دینے والے اکثریتی ججز نے رائے کا لفظ لکھا یا فیصلے کا لفظ استعمال کیا؟ اس پر سیدر علی ظفر نے جواب دیا کہ یہ تو اس عدالت نے طے کرنا ہے کہ وہ رائے تھی یا فیصلہ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ مطلب آپ اس حد تک نظر ثانی کی حمایت کرتے ہیں کہ لفظ فیصلے کی جگہ رائے لکھا جائے۔جسٹس جمال خان مندو خیل نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ میں اور جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل پہلے والے بینچ کا بھی حصہ تھے، ہم دونوں ججز پر تو کوئی اعتراض نہیں کیا گیا۔اس پر سید علی ظفر نے جواب دیا کہ اعتراض کسی کی ذات پر نہیں بلکہ بینچ کی تشکیل پر ہے۔سید علی ظفر نے اپنے دلائل میں کہا کہ سپریم کورٹ بار کی اصل درخواست تحریک عدم اعتماد میں ووٹنگ سے متعلق تھی، سپریم کورٹ نے صدارتی ریفرنس اور آئینی درخواستوں کو غلط طور پر ایک ساتھ جوڑا، عدالت نے آئینی درخواستیں یہ کہہ کر نمٹا دیں کہ ریفرنس پر رائے دے چکے ہیں، نظر ثانی کا دائرہ اختیار محدود ہوتا ہے۔سیدعلی ظفر نے کہا کہ سپریم کورٹ آئین میں دیئے گئے حق زندگی کے اصول کو کافی آگے بڑھا چکی ہے، کسی بنیادی حق کے اصول کو آگے بڑھانا آئین دوبارہ تحریر کرنا نہیں ہوتا، آئین میں سیاسی جماعت بنانے کا حق ہے، یہ نہیں لکھا کہ جماعت الیکشن بھی لڑسکتی ہے۔سید علی ظفر نے کہا کہ عدالتوں نے تشریح کرکے سیاسی جماعتوں کو الیکشن کا اہل قرار دیا، بعد میں اس حوالے سے قانون سازی بھی ہوئی لیکن عدالتی تشریح پہلے تھی، عدالت کی اس تشریح کو آئین دوبارہ تحریر کرنا نہیں کہا گیا۔جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کہ پارلیمانی پارٹی کے سربراہ کا انتخاب کون کرتا ہے۔سید علی ظفر نے جواب دیا کہ ارکان پارلیمان اپنے پارلیمانی لیڈر کا انتخاب کرتے ہیں، اسپیکر قومی اسمبلی اورچیئرمین سینیٹ پارلیمانی پارٹی سربراہ کانوٹیفیکیشن جاری کرتے ہیں۔اس موقع پر فاروق حمید نائیک کاکہناتھا کہ پارٹی سربراہ وہ ہوتا ہے جوپوری پارٹی کاسربراہ ہوہوسکتا ہے پارٹی سربراہ الیکشن ہارگیا ہو۔ جسٹس امین الدین خان کاکہناتھا کہ پارٹی سربراہ یا پارلیمانی لیڈر ووٹ دینے یا نہ دینے کافیصلہ کرگا۔ سید علی ظفرکاکہناتھا کہ پارلیمانی پارٹی کاسربراہ فیصلہ کرے گا۔فاروق نائیک کاکہناتھا کہ 18ویں آئینی ترمیم کے بعد پارلیمانی پارٹی کاسربراہ ووٹ دینے یا نہ دینے کا فیصلہ کرے گا۔ چیف جسٹس کاکہناتھا کہ آئین کے آرٹیکل 17-2کو 63-Aپرہاوی کردیا گیا۔ چیف جسٹس کاکہناتھا کہ یہ توجمہوریت کے خلاف بات ہے کہ ججز نااہلی کافیصلہ کریں۔ چیف جسٹس کاکہناتھاکہ تاریخ یہ ہے کہ جب مارشل لاء لگتا ہے تو10سال لوگ خاموش بیٹھے رہتے ہیں، ہرکوئی ربڑاسٹیمپ بن جاتا ہے ، جمہوریت کوچلنے ہی نہیں دیتے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ووٹ کرنے کا حق تو رکن پارلیمنٹ کا ہے، یہ حق سیاسی جماعت کا حق کیسے کہا جاسکتا ہے۔سید علی ظفر نے کہا کہ اسی مقصد کیلئے پارلیمانی پارٹی بنائی جاتی ہے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ایک پارٹی سربراہ کا اختیار ایک جج استعمال کرے تو کیا یہ جمہوری ہوگا، جج تو منتخب نہیں ہوتے، انحراف کے بعد کوئی رکن معافی مانگے تو ممکن ہے پارٹی سربراہ معاف کردے۔سید علی ظفر نے جواب دیا کہ تاریخ کچھ اور کہتی ہے۔سید علی ظفر نے کہا کہ 63-Aکے فیصلے میں لکھا ہے ہارس ٹریڈنگ کینسر ہے۔ چیف جسٹس کاکہناتھا کہ ججز کوکینسرجیسے الفاظ استعمال نہیںکرنا چاہیں،کیا مستقبل میں ججز فیصلہ کریں گے کس نے ڈیفیکٹ کیا ہے یا نہیں اور یہ فیصلہ پارٹی سربراہ یاپارلیمانی پارٹی سربراہ کرے گا۔ چیف جسٹس کاکہناتھا کہ جج صرف یہ طے کر سکتا ہے کوئی چیز آئینی و قانونی ہے یا نہیں، یہ کوئی میڈیکل افسر ہی بتا سکتا ہے کینسر ہے یا نہیں۔چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ لعنت کا لفظ کوئی قانونی اصطلاح نہیں۔ جسٹس نعیم اخترافغان کاکہناتھاکہ جھگڑا ووٹ گننے کے حوالہ سے ہے، پی ٹی آئی نے اپنے دور میں ووٹ نہ گنے جانے کے حوالے سے قانون سازی کیوں نہ کی،عمران خان کے خلاف 8مارچ 2022کو تحریک عدم اعتماد آئی،3اپریل2022کو ووٹنگ ہونا تھی،21مارچ2022کوصدارتی ریفرنس آگیا،پارٹی لیڈر کے دماغ میں تھا کہ کچھ لوگ فلورکراس کرجائیں گے، ریفرنس میں سوالنامہ ڈال گیا،کیا صدر اورارکان پارلیمنٹ کی ذہانت نہیں تھی، اس وقت پارلیمنٹ کی جگہ سپریم کورٹ کو استعمال کرنے کی کوشش کی گئی، ریفرنس دائر کرنے کے بعد ڈپٹی اسپیکر نے تحریک عدم اعتماد اڑا دی اورصدر نے انتخابات کااعلان کردیا، یہاں چیف جسٹس سے کچھ ججز نے رابطہ کیا تو سوموٹو لیا گیا، 9اور10اپریل کومیاں شہازشریف وزیر اعظم بن گئے،عمران خان اکثریت کھو بیٹھے تھے،کسی نے ڈیفیکٹ نہیں کیا، حکومت بھی بنی، ججز نے آئین دوبارہ لکھا ، پنجاب حکومت ختم ہوئی، ایک تماشا چلا، سپریم کورٹ اورپارلیمنٹ کااپنا اپناکام ہے، ججز نے آئین دوبارہ لکھا اس فیصلے پر نظرثانی کے لئے یہی بات کافی ہے۔ جسٹس نعیم اخترافغان کاکہنا تھا کہ میٹرک کے بچے کوبھی آئین کاآرٹیکل 63-Aسمجھ آجائے گا، صدر کوکیوں سمجھ نہیں آرہا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ آئین بنانا ہماراکام نہیں،تشریح کے ساتھ پارلیمانی پارٹی سربراہ کے اختیارات چھین لئے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہناتھا کہ ہمارے پاس آنے کی بجائے صدر نے معاملہ پارلیمنٹ کو کیوں نہیں بھجوایا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ اگرصدارتی ریفرنس آیا تو پھر سوال اٹھے گا کہ کیوں سیاسی جماعت کے سربرہ نے آئینی سوال پردرخواست دائر کی۔چیف جسٹس کاسید علی ظفر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہناتھا کہ آپ رکن پارلیمنٹ ہیں، عدالتی فیصلوں کے حوالے دینے کی بجائے کہیں میراقانون۔جسٹس نعیم اخترافغان کاکہنا تھا کہ ہمارے ملک میں نظام کوبنانے دیں، چیزوں کو ذاتی طورپر کیا جاتا ہے ادارہ جاتی طور پر نہیں،ہم نے آئین پر چلنے کاحلف اٹھایا ہے ،کیا ہم بے ضمیر ہوکربیٹھیں گے، میں سوشل میڈیا نہیں دیکھتا، جو لوگ دیکھتے ہیں کیا وہ متاثر نہیں ہوتے ہوں گے۔ سید علی ظفرکاکہناتھا کہ میری درخواست ہے تمام ججز بیٹھ کر فیصلہ کریں اورمعاملات کوحل کریں۔ اس پر چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ارکان پارلیمنٹ اکٹھے بیٹھ کرفیصلے کریں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ سپریم کورٹ میں کوئی جھگڑا نہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہناتھا کہ کچھ دن کے بعد کوئی اورآئے گااوروہ رول بنالے گا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ اندر کچھ نہیں چل رہا، ہمارے مفت کے مشورے پر بھی عمل کرلیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ جو ہمیں مشورہ دے رہے ہیں وہ ترمیم میں مشورہ دیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہمیں توقع تھی کہ سابق صدر سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن کہیں گے کہ میں ججز کے حق میں 5ہزاروکلاء کولائوں گا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ گزشتہ روز کے واقعہ پر پارٹی کی جانب سے مذمت آنی چاہیئے تھی اگر نہیں آئی تواس کامطلب ہے پارٹی کی جانب سے تھا۔ چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ 63 اے کا فیصلہ صرف ایک جج کے مارجن سے اکثریتی فیصلہ ہے، کیا ایک شخص کی رائے پوری منتخب پارلیمان پر حاوی ہے؟ سید علی ظفر نے جواب دیا کہ پارلیمان کو اگر یہ تشریح پسند نہ ہو تو وہ کوئی دوسری قانون سازی کر سکتی ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ جمہوریت اس لیے ڈی ریل ہوتی رہی کہ یہ عدالت غلط اقدامات کی توثیق کرتی رہی، جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ کل یہاں کہا گیا کہ پی ٹی آئی کے خلاف فیصلہ دے کر دیکھیں، کیا ایسے ڈرا دھمکا کر فیصلہ لیں گے۔جسٹس نعیم اختر نے کہا کہ سوشل میڈیا پر چل رہا ہوتا ہے فلاں جج نے ایک ٹھاہ کردیا، فلاں نے وہ ٹھا کر دیا، اداروں کو اہم بنائیں، شخصیات کو نہیں۔سید علی ظفر نے کہا کہ میں نے ساڑھے12بجے کے بعد جو بھی گفتگو کی وہ بطور عدالتی معاون کی، بطور وکیل بانی پی ٹی آئی، میں کیس کی کارروائی کا حصہ نہیں ہوں، اس کے ساتھ ہی عدالتی معاون علی ظفر نے اپنے دلائل مکمل کر لیے۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ علی ظفر صاحب آپ کے مشورے پر انشا اللہ غور کریں گے۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمن نے عدالت کو بتایا کہ نیو گینی میں منحرف رکن کا ووٹ نہ گنے جانے کا قانون بنایا گیا تھا، نیو گینی میں عدالت نے اس قانون کو کالعدم قرار دیا تھا ۔اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ دنیا میں کسی جمہوری ملک میں ووٹ نہ گننے کا قانون نہیں، امید ہے ایک دن ہم بھی میچیور جمہوریت بن جائیں گے۔جسٹس جمال مندوخیل نے پیپلزپارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک سے استفسار کیا صدر مملکت نے بتایا کہ سپریم کورٹ کی اکثریتی رائے سے متفق ہیں یا اقلیتی سے؟ انہوں نے جواب دیا کہ صدر مملکت کی جانب سے ریکارڈ پر کچھ نہیں آیا کہ کس سے متفق ہیں کس سے نہیں۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا عدالت معاملہ صدر مملکت کو بھیج دیں کہ وہ فیصلہ کریں کس رائے سے متفق ہیں؟ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمن نے معاملہ صدر مملکت کو بھجوانے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ آئینی درخواستیں بھی ریفرنس کے ساتھ ہی نمٹائی گئی ہیں، آئینی درخواستیں نمٹانے کا معاملہ صدر مملکت کو نہیں بھیجا جا سکتا، سپریم کورٹ قرار دے چکی کہ ریفرنس پر آنے والے رائے کی ریاست پابند ہوگی، ریاست سپریم کورٹ کی رائے کی پابند ہوتی ہے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا اگر کوئی رکن ووٹ نہ ڈالے تو وہ بھی نااہل ہوسکتا ہے، ہوسکتا ہے جماعت کا سربراہ رکن کے نہ پہنچنے کی وجہ تسلیم کر لے، آرٹیکل 63 اے واضح ہے تو اس کی تشریح کی کیا ضرورت ہے، سپریم کورٹ میں منحرف اراکین کی اپیلیں بھی آنی ہوتی ہیں، اگر عدالتی فیصلہ ہی نااہلی کا باعث بنے تو اپیل غیر موثر ہو جائے گی۔فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ پارلیمانی پارٹی کی ہدایت تحریری صورت میں ہی تصور کی جائے گی، حسبہ بل کیس کے مطابق ریفرنس پر رائے جس نے مانگی اس پر رائے کی پابندی لازم ہے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا اگر صدر مملکت رائے پر عمل نہ کرے تو کیا ان کے خلاف کارروائی ہو سکتی ہے۔ ا س پرفاروق ایچ نائیک نے جواب دیا کہ عدالت صدر مملکت کے خلاف کارروائی نہیں کر سکتی۔بعد ازاں عدالت نے آرٹیکل 63 اے پر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور دیگر نظرثانی اپیلیں سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے منحرف ارکان اسمبلی کا ووٹ شمار نہ کرنے کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔واضح رہے کہ 17 مئی 2022 کو اس وقت کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکن لارجر نے صدر مملکت کی جانب سے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے صدارتی ریفرنس پر تین دو کی اکثریت سے فیصلہ دیا تھا۔ججز نے فیصلے میں قرار دیا تھا کہ منحرف ارکان اسمبلی کا ووٹ شمار نہیں کیا کیا جائے گا اور پارلیمنٹ ان کی نااہلی کی مدت کے لیے قانون سازی کرسکتی ہے۔پانچ رکنی لارجر بینچ میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے ساتھ جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل اور جسٹس جمال خان مندوخیل شامل تھے۔ ZS