ختم نبوت پر ایمان رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آخری رسول اور نبی ماننے سے مشروط ہے
قادیانیوں کیلئے لازم ہیں آئین میں اپنی طے شدہ حیثیت کو تسلیم کریں،سپریم کورٹ نے مبارک ثانی کیس کا تصحیح شدہ فیصلہ جاری کردیا
ٹرائل کورٹ گزشتہ فیصلوں سے متاثر ہوئے بغیر ضمانت کیس کا ٹرائل چلائے،سپریم کورٹ
اسلام آباد( ویب نیوز)
سپریم کورٹ نے مبارک ثانی کیس کا تصحیح شدہ فیصلہ جاری کردیا۔وفاق اور پنجاب کی جانب سے 24 جولائی کے فیصلے میں غلطیوں کی تصحیح کے لیے درخواست دائر کی گئی تھی۔فیصلے میں بتایا گیا کہ درخواستوں کی بنیاد پر 19 علما اکرام کو نوٹس کیے گئے۔ فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ ختم نبوت پر ایمان رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آخری رسول اور نبی ماننے سے مشروط ہے۔تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ قادیانیوں کیلئے لازم ہیں آئین میں اپنی طے شدہ حیثیت کو تسلیم کریں، علما کرام نے پیرا 7، 42 اور 49 (ج) پر اعتراضات کیے۔عدالت نے فیصلے میں بتایا کہ موقف سننے کے بعد 6 فروری اور 24 جولائی کے فیصلے میں معترضہ پیراگرفس کو حذف کیا جاتا ہے۔مفتی منیب الرحمان، حافظ نعیم الرحمان، پروفیسر ساجد میر اور مولانا محمد اعجاز مصطفی بوجوہ شریک نہیں ہو سکے لیکن ان کی نمائندگی بالترتیب مفتی سید حبیب الحق شاہ، ڈاکٹر فرید احمد پراچہ ، حافظ احسان احمد ، ایڈووکیٹ سپریم کورٹ اور مفتی عبد الرشید نے کی۔فیصلے میں کہا گیا کہ دوران سماعت علمائے کرام نے فرمایا کہ دینی پہلووں پر بالخصوص پیراگرافس 42.7 اور 49 (ج) سے وہ مطمئن نہیں ہیں اور انہیں حذف کرنے کی ضرورت ہے۔ بعض اہل علم نے چند دیگر پیراگرافس پر بھی اعتراض کیے مگر سب کی رائے یہ تھی کہ صرف ان پیراگرافس کو حذف کرنے سے شاید مزید ابہام پیدا ہو۔انہوں نے اس موضوع پر اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پیش نظر رکھنے پر بھی زور دیا ( جن کو پہلے سنا جا چکا ہے)۔ فاضل حافظ احسان احمد، ایڈووکیٹ سپریم کورٹ، جو پروفیسر ساجد میر کی نمائندگی کر رہے تھے، نے یہ رائے پیش کی کہ اس فیصلے کو دوبارہ تحریر کیا جائے اور ان کی اس رائے سے تمام علمائے کرام نے اتفاق کیا۔عدالت نے فیصلے میں کہا کہ ان کی اس متفقہ رائے کو مد نظر رکھتے ہوئے اب یہ (تصحیح شدہ) فیصلہ جاری کیا جارہا ہے۔عدالت نے 22 اگست 2024 کو درج ذیل مختصر حکم نامہ جاری کیا تھا۔ تفصیلی دلائل سننے کے بعد وفاق کی درخواست منظور کرتے ہوئے عدالت اپنے حکم نامے مورخہ 6 فروری 2024 اور فیصلے مورخہ 24 جولائی 2024 میں تصحیح کرتے ہوئے معترضہ پیراگرافس کے کو حذف کرتی ہے۔ عدالت نے واضح کیا کہ ان حذف شدہ پیراگرافس کو نظیر کے طور پر پیش/استعمال نہیں کیا جاسکے گا۔ ٹرائل کورٹ ان پیراگرافس سے متاثر ہوئے بغیر مذکورہ مقدمے کا فیصلہ قانون کے مطابق کرے۔فیصلے میں کہا گیا کہ جب یہ مقدمہ پہلے سنا گیا تھا تو ہمیں تفسیر صغیر یا اس کے مصنف کے بارے میں علم نہیں تھا اس لیے فیصلے میں نمایاں غلطی ہوئی۔ اب ہم نے دونوں کے متعلق کچھ بنیادی معلومات حاصل کی ہیں۔وفاق پاکستان اور حکومت پنجاب کی جانب سے فوجداری متفرق درخواست نمبر 1113 بابت 2024 دائر کی گئی جس میں کہا گیا ہے کہ حکم نامہ مورخہ 24 جولائی 2024 میں غلطیاں ہیں جن کی تصحیح کی ضرورت ہے۔ یہ درخواست مجموعہ ضابطہ فوجداری 1898 کی دفعہ 561- اے من سپریم کورٹ رولز 1980 کے آرڈر XXXIII کے رول 6 و مجموعہ ضابطہ دیوانی 1908 کی دفعات 152 153 کے تحت دی گئی ہے۔سپریم کورٹ نے فیصلے کے ابتدا میں ہی یہ واضح کرتے ہوئے لکھا کہ اس عدالت کے پاس دوسری نظر ثانی کا اختیار نہیں ہے اس لیے یہ تصور نہ کیا جائے کہ اب جو فیصلہ جاری کیا جارہا ہے یہ دوسری نظر ثانی ہے۔ یہ وضاحت بھی کی جاتی ہے کہ یہ فیصلہ تصحیح کے لیے دی گئی درخواست پر دیا جارہا ہے اور اب غلطیوں کی تصحیح کے بعد اس کو عدالت کا فیصلہ تصور کیا جائے گا اور اس کے بعد حکم نامہ مرخہ 6 فروری 2024 اور نظر ثانی فیصلے مورخہ 24جولائی 2024 کی کوئی قانونی حیثیت نہیں رہتی اور اسے واپس لیا جاتا ہے۔یہ معاملہ سنہ 2019 سے شروع ہوا تھا جب مذکورہ سال کے ماہ مارچ میں پنجاب کے ضلع چنیوٹ میں احمدیہ کمیونٹی کے چند اراکین نے مبینہ طور پر تحریف شدہ قرآن کی تفسیر بچوں میں تقسیم کی جسے تفسیرِ صغیر کہا جاتا ہے۔ بعد ازاں سنہ 2022 کو اس کے خلاف قانون کی 3 شقوں کے تحت چنیوٹ کے علاقے چناب نگر مقدمہ درج ہوا تھا۔ان میں سے ایک شق پنجاب قرآن (پرنٹنگ اینڈ ریکارڈنگ) ایکٹ 2010 ہے جس کے تحت اگر قرآن مجید کے کسی نسخے میں کسی غیر مسلم کی جانب سے کسی آیت کا ترجمہ، تفسیر یا تبصرہ مسلمانوں کے عقیدے کے برعکس کیا گیا ہو تو اسے 3 سال تک کی قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔اس کے علاوہ دفعہ 295 بی اور 298 سی بھی لگائی گئیں۔ 295 بی کے مطابق قرآن کو توہین آمیز طریقے سے برتنا یا اسے غیر قانونی طور پر نقصان پہنچانا جرم ہے جس کی سزا عمر قید ہے۔ جبکہ 298 سی کا تعلق احمدیہ مذہب سے ہے اور اس کے تحت احمدی اپنے عقائد کی تبلیغ نہیں کر سکتے اور اس کی سزا بھی 3 برس قید ہے۔بعد ازاں جنوری 2023 کو پولیس نے مبارک احمد ثانی نامی ایک شخص کو گرفتار کر لیا اور الزام لگایا گیا کہ وہ یہ تفسیر تقسیم کر رہے تھے۔ البتہ ابتدائی ایف آئی آر میں ان کا نام شامل نہیں تھا۔مبارک ثانی کی گرفتاری کے خلاف اپیل کی گئی جو پہلے ایڈیشنل سیشن جج اور پھر لاہور ہائیکورٹ نے مسترد کر دی۔ جب یہ اپیل سپریم کورٹ میں دائر کی گئی تو سپریم کورٹ نے 6 فروری 2024 کو مبارک احمد ثانی کی ضمانت منظور کر لی۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں بینچ کے مذکورہ فیصلے کو مذہبی طبقے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور ملک میں مظاہرے بھی ہوئے جس کے بعد 22 اگست کو سپریم کورٹ نے اپنے نظر ثانی شدہ فیصلے میں بھی ترمیم کر دی