آئینِ پاکستان متنازع بنانے والی متنازع ترامیم پر مخصوص بڑوں کا اتفاق نہیں مُک مُکا ہوگیا ہے..لیاقت بلوچ

لاہو ر (   ویب نیوز  )
نائب امیر جماعت اسلامی، سابق پارلیمانی لیڈر لیاقت بلوچ نے منصورہ میں سیاسی مشاورتی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آئینِ پاکستان متنازع بنانے والی متنازع ترامیم پر مخصوص بڑوں کا اتفاق نہیں مُک مُکا ہوگیا ہے۔ آئینی ترامیم کے لیے ایسی حکومت جو خود اقلیتی ہے اور فارم 47 کی بنیاد پر متنازع مینڈیٹ کیساتھ جعلی طریقے سے اقتدار میں لائی گئی ہے، وہ بلیک میل ہوکر آئین کو متنازع بناکر کیوں رُسوائی کا سودا کررہی ہے؟ عدالتی اصلاحات ناگزیر ہیں لیکن عدالتی اصلاحات کی آڑ میں بدنیتی، مفادات کا تحفظ اور پسند و ناپسند کی بنیاد پر قوم پر قوانین مسلط کرنا مزید سیاسی عدم استحکام کا باعث بنے گا۔ جماعتِ اسلامی نے پاکستان تحریکِ انصاف کی قیادت کو بروقت مشورہ دیا تھا کہ اگر اُنہیں یقین ہے کہ آئینی ترامیم بدنیتی پر مبنی ہیں تو اُنہیں متنازع ترامیم پر مذاکرات کا حصہ نہیں بننا چاہیے۔ اتحادی حکومت کے کھلاڑی اپنے مقاصد اور ‘اُوپر’ کے احکامات کی تعمیل کے لیے ہر حربہ استعمال کررہے ہیں، اور اس مقصد کے لیے وہ پاکستان تحریکِ انصاف کو متنازع آئینی ترامیم کی قانون سازی کا حصہ بناکر پیش کرنا چاہتے ہیں۔ اب اگر تحریکِ انصاف یہ سب جاننے کے باوجود اس جعلی حکومت کا ساتھ دیتی ہے تو وہ اپنے اس غلط فیصلے کی خود ذمہ دار اور اس پر عمل کرنے میں خودمختار ہے۔
لیاقت بلوچ نے کہا کہ ایس سی او کانفرنس اچھی اور کامیابی کیساتھ اختتام پذیر ہوئی۔ یہ پاکستان کے لیے خیر کا باعث ہوگی۔ خطے کے تمام ممالک کو سیاسی، سماجی، معاشی ترقی کا حق حاصل ہونا چاہیے اور تمام ریاستوں کی خودمختاری، آزادی، علاقائی سالمیت، باہمی احترام بھی سب پر لازم ہے۔ باہمی تعاون اور خطے کے امن کو قائم رکھنے کی خاطر ایک دوسرے کی سلامتی کو یقینی بنانا بھی ممبر ممالک کا فرض ہے۔ کانفرنس کے انعقاد کے بعد اعلامیہ، معاہدوں اور ایم او یوز پر عملدرآمد اصل چیلنج ہے، وگرنہ کانفرنسوں کا انعقاد تو بہرحال ایک تقاضہ تھا۔ وزیراعظم پاکستان، وزیرخارجہ کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ بند کمرے میں یکطرفہ بنیادوں اور ہندوستان کی مقبوضہ کشمیر پر مسلط یکطرفہ اقدامات، ہندوستان میں اقلیتوں کے ساتھ جاری غیرانسانی سلوک اور عالمی دہشت گردی میں بھارت کے کلیدی کردار کو نظرانداز کرکے بھارت کیساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھائیں۔ برادر ملک افغانستان کو بھی ایس سی او کانفرنس میں شرکت  یقینی بنانے کے لیے ماحول بنایا جاتا تو یہ خطے میں امن و سلامتی کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنے کا باعث بنتا۔ اِسی طرح فلسطین غزہ و لبنان کی ہولناک صورتِ حال پر ایس سی او کانفرنس میں سرسری ذکر بھی ممبر ممالک کی طرف سے عالمی امن کے لیے کوششوں کے حوالے سے غیر ذمہ دارانہ  رویہ اور کوتاہی ہے۔