پی ٹی آئی احتجاج کیس، انسداد دہشتگردی عدالت سے ڈسچارج 38ملزمان کو پولیس نے دوبارہ گرفتار کرلیا
ملزمان کے وکیل انصر کیانی نے ڈسچارج ہونے والے ملزمان کی دوبارہ گرفتاری پر عدالت کو آگاہ کر دیا
اسلام آباد ( ویب نیوز)
اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت سے 24 نومبر کوپی ٹی آئی کے احتجاج کیس میں ڈسچارج کیے گئے 38 ملزمان کو پولیس نے دوبارہ گرفتار کرلیا۔ نجی ٹی وی کے مطابق شناخت پریڈ پر بھیجے گئے ملزمان کو ڈسچارج کرنے کا حکم انسداد دہشت گردی عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے دیا تھا، جج نے دوبارہ گرفتاری پر پولیس کو ہتھکڑیاں لگانے کا انتباہ دیا تھا۔ تاہم ڈسچارج ہونے والے شہریوں کو پولیس نے دوبارہ گرفتار کر لیا، ملزمان کے وکیل انصر کیانی نے ڈسچارج ہونے والے ملزمان کی دوبارہ گرفتاری پر عدالت کو آگاہ کر دیا۔ پولیس نے جج ابوالحسنات ذوالقرنین کا حکم ہوا میں اڑا دیا اور جوڈیشل کمپلیکس کے باہر بھارت نفری تعینات کردی۔ جوڈیشل کمپلیکس کے گیٹ پر تعینات پولیس اہلکاروں نے میڈیا کے داخلے پر بھی پابندی عائد کر دی جبکہ وہاں کھڑے صحافیوں کو پیچھے دھکیل دیا۔ ایس ایچ اواشفاق وڑائچ نے کہا کہ یہاں سے میڈیا پیچھے چلا جائے ورنہ گرفتار انہیں گرفتار کرلیا جائے گا، جو میڈیا والا بات نہیں مانتا فوری طور پر گرفتار کر کے اس پر احتجاج کا کیس ڈال دیا جائے۔ خیال رہے کہ شناخت پریڈ پر جیل بھیجے گئے 100 سے زائد مظاہرین کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا تھا، جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے 81ملزمان کو مقدمات سے ڈسچارج کیا تھا۔ عدالت نے تھانہ کھنہ کے 54، تھانہ آئی نائن کے 16اور تھانہ کوہسار کے 11 ملزمان کو ڈسچارج کیا جبکہ عدالت نے تھانہ کوہسار کے 48 ملزمان کو دو روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کیا تھا۔ واضح رہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے اسلام آباد میں احتجاج کے بعد وفاقی دارالحکومت اور راولپنڈی کے مختلف تھانوں میں پارٹی کے بانی اور سابق وزیر اعظم عمران خان، سابق خاتون اول بشری بی بی، وزیر اعلی خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور و دیگر پارٹی رہنمائوں اور سینکڑوں کارکنان کے خلاف دہشتگردی سمیت دیگر دفعات کے تحت متعدد مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ پی ٹی آئی کے 24نومبر کے احتجاج اور پرتشدد مظاہروں پر مختلف تھانوں میں مقدمات انسداد دہشتگردی ایکٹ کے تحت درج کیے گئے۔ مظاہرین پر سرکاری و نجی املاک کو نقصان پہنچانے، مجمع جمع کرکے شاہراہوں کو بند کرنے کا الزام عائد کیا گیا۔ یاد رہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے بانی اور سابق وزیر اعظم عمران خان کی رہائی کے لیے 24نومبر کو بانی کی اہلیہ بشری بی بی اور وزیراعلی خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کی سربراہی میں پی ٹی آئی کے حامیوں نے پشاور سے اسلام آباد کی جانب مارچ شروع کیا تھا اور 25نومبر کی شب وہ اسلام آباد کے قریب پہنچ گئے تھے تاہم اگلے روز اسلام آباد میں داخلے کے بعد پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ پی ٹی آئی کے حامیوں کی جھڑپ کے نتیجے میں متعدد افراد، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار زخمی ہوئے تھے۔ 26نومبر کی شب بشری بی بی، علی امین گنڈاپور اور عمر ایوب مارچ کے شرکا کو چھوڑ کر ہری پور کے راستے مانسہرہ چلے گئے تھے، مارچ کے شرکا بھی واپس اپنے گھروں کو چلے گئے تھے۔ اس کے بعد وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور اور پی ٹی آئی کے جنرل سیکریٹری سلمان اکرم راجہ کے علاوہ سردار لطیف کھوسہ نے فورسز کے اہلکاروں کی مبینہ فائرنگ سے متعدد ہلاکتوں کا دعوی کیا تھا، تاہم وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی اور وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا اللہ تارڑ نے ان دعوئوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایسا کچھ ہوا ہے تو ثبوت کہاں ہیں؟