پاکستان میں کوئی بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے کا نہ سوچے ،مولانا فضل الرحمن
قطر سے امریکہ نے کس لیے معافی مانگی، کیا اس نے فلسطینیوں کے قتل عام پر معافی مانگی،دو ریاستی حل دراصل اسرائیل کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے
شہبازشریف کو سوچنا ہوگا کہ کہیں پاکستان کے بنیادی موقف سے پیچھے تو نہیں ہٹ رہے،پریس کانفرنس
لاہور ( ویب نیوز)
جمعیت علما اسلام پاکستان کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ پاکستان میں کوئی بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے کا نہ سوچے ،قطر سے امریکہ نے کس لیے معافی مانگی کیا اس نے فلسطینیوں کے قتل عام پر معافی مانگی،دو ریاستی حل دراصل اسرائیل کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے اس دو ریاستی حل میں فلسطینیوں اور حماس کو شامل کیا جائے وگرنہ کوئی فیصلہ قبول نہیں ہوگا،ان خیالات کا اظہار انہوں نے جامعہ اشرفیہ لاہور میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ اسرائیل ایک ناجائز ریاست ہے اسے کبھی قبول نہیں کریںگے آج امریکی صدر ٹرمپ پوری دنیا کے مسائل کا مالک بن رہا ہے اور ڈنڈا اٹھا کر بات منواتا ہے یہ نہ تو اخلاقی ہے نہ ہی سیاسی ، جب تک فلسطین کے مسئلہ پر خود فلسطینی فیصلہ نہ کریں تو زبردستی فیصلہ مسلط نہیں کیا جا سکتا، انہوں نے کہا کہ دو ریاستی حل کو فلسطینیوں پر تھونپا نہیں جا سکتاامریکہ انتہا پسندی و ڈنڈے والی سیاست نہ کرے،ان کاکہنا تھاکہ امریکہ نے مذاکرات سے حماس کو لاتعلق کیاہوا ہے وہ تو اصل فریق ہے حماس کے بغیر مسئلہ فلسطین حل نہیں ہو سکتا،انہوں نے کہا کہ سترہ اکتوبر کو کور کمانڈر کانفرنس میں اعلامیہ جوفیلڈ مارشل عاصم منیر کی صدارت میں ہو ا اور نیویارک میں بیان وہ دونوں دیکھ لیں شہبازشریف نے جنرل اسمبلی میں جو خطاب کیا اور ٹوئٹ میں کتنا فرق ہے، ان کاکہنا تھاکہ کمزور موقف سے عرب دنیا شکست کھا جائے گی اسرائیل ہمیشہ امن کی پشت پر خنجر کھونپ دیتاہے،،ان کاکہنا تھاکہ آج جو ٹرمپ و نیتن یاہو کابیانیہ اسرائیل کی توسیع کا منصوبہ ہو سکتا ہے لیکن فلسطین کی آبادی کا فارمولہ نہیں ہو سکتااگر کسی نے دو ریاستی حل دیا بھی تو آزادی فلسطین جس کا دارلخلافہ بیت المقدس ہوگا،ان کاکہنا تھاکہ جو سیاسی لیڈران علاقائیت و صوبائیت پر بات کرنے والے آئین سے انحراف کررہے ہیں جبکہ شہبازشریف کو سوچنا ہوگا کہ کہیں پاکستان کے بنیادی موقف سے پیچھے تو نہیں ہٹ رہا ،ان کاکہناتھاکہ مسئلہ فلسطین کیلیے پاک سعودی دفاعی موثر نہیں ہو سکتا نوبل انعام امن کا ممکن نہیں ہے جنگ کا نوبل انعام ٹرمپ کیلیے ہوسکتا ہے،ان کاکہنا تھاکہ ذاتی اندازہ ہے حکمرانوں پر بھارت کی جنگ سوار ہے کہ امریکہ بھارت کی طرف نہ چلا جائے جبکہ میثاق جمہوریت کے تناظر میں چھبیسویں آئینی ترمیم پارلیمنٹ میں منظور کی گئی ،ان کاکہنا تھاکہ سیاسی جماعتیں ہوں یا حکمران جماعتیں مسئلہ فلسطین کو وہ مقام نہیں دے رہیں جو ملنا چاہیئے اور پاکستان میں کوئی بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے کا نہ سوچے ، ان کاکہنا تھاکہ حکومت کے وقت پورا کرنے یا نہ کرنے کا دارو مدار اسٹیبلشمنٹ پر منحصر ہے اگر تعلقات اچھے رہے تو وقت پورا ہوگا وگرنہ نہیں ہوگا اور اب عمران خان کی رہائی ضرور ہونی چاہئے۔مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ اس وقت سب سے اہم سوال پوری دنیا میں مسئلہ فلسطین ہے،مسئلہ فلسطین کے معاملہ پر بانی پاکستان نے اسرائیل کے وجود کو عرب دنیا کی پیٹ میں خنجر قرار دیا تھا،اسرائیل ایک ناجائز ریاست ہے اسے کبھی قبول نہیں کریں گے۔انہوں نے کہا کہ گر کچھ واقعات کی بنیاد پر سردار حسین کو انسانی مجرم قرار دے کر پھانسی لگایا جا سکتا ہے ایک لاکھ فلسطینی شہید ہوئے جو بھوک ادویات بیماریوں سے شہید ہوئے ان کی تعداد لاکھوں ہے، عالمی عدالت انصاف نے سردار حسین کو مجرم قرار دے کر اقوام متحدہ میں تقریر کرنا افسوسناک ہے، امریکہ انتہا پسندی و ڈنڈے والی سیاست نہ کرے۔انہوں نے کہا کہ شہبازشریف نے جنرل اسمبلی میں جو خطاب کیا اور ٹوئٹ میں کتنا فرق ہے، کمزور موقف سے عرب دنیا شکست کھا جائے گی۔انہوں نے کہا کہ بوسنیا کے مسلمانوں کے ساتھ کیا گیا پھر بھی لاکھوں مسلمانوں کو شہید کیا گیا لاکھوں بے گھر کیے گئے،امن کی پشت پر خنجر کھونپ دیا جاتا ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ آج جو ٹرمپ و نیتن یاہو کابیانیہ اسرائیل کی توسیع کا منصوبہ ہو سکتا ہے لیکن فلسطین کی آبادی ک فارمولہ نہیں ہو سکتا، اگر کسی نے دو ریاستی حل دیا بھی تو آزادی فلسطین جس کا دارلخلافہ بیت المقدس ہوگا۔انہوں نے کہا کہ حکمرانوں میں حکمرانی کی صلاحیت نہیں ہے ،جو سیاسی لیڈران علاقائیت و صوبائیت پر بات کرنے والے آئین سے انحراف کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شہبازشریف کو سوچنا ہوگا کہ کہیں پاکستان کے بنیادی موقف سے پیچھے تو نہیں ہٹ رہے۔انہوں نے کہا کہ بوسنیا کے مسلمانوں کے ساتھ کیا گیا پھر بھی لاکھوں مسلمانوں کو شہید کیا گیا لاکھوں بے گھر کیے گئے۔امن کی پشت پر خنجر کھونپ دیا جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ قطر سے معافی کس لئے امریکہ نے معافی مانگی یا فلسطینی کے قتل عام پر معافی مانگتا ہے معافی کافی نہیں ہے اہل فلسطین کیلیے،فلسطینیوں کی مرضی کے خلاف حل کی کوششیں کئی عرصہ سے جاری ہیں۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ تاریخ و حقائق کو جھٹلایا جا رہا ہے کہ فلسطینیوں نے اپنی زمینیں اسرائیل کو فروخت کیں،میرا ذاتی اندازہ ہے حکمرانوں پر بھارت کی جنگ سوار ہے کہ امریکہ بھارت کی طرف نہ چلا جائے۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ میثاق جمہوریت کے تناظر میں چھبیسویں آئینی ترمیم پارلیمنٹ میں منظور کی گئی ، سیاسی جماعتیں ہوں یا حکمران جماعتیں مسئلہ فلسطین کو وہ مقام نہیں دے رہیں جو ملنا چاہیئے، حکومت کے وقت پورا کرنے کا دارو مدار اسٹیبلشمنٹ پر منحصر ہے، عمران خان کی رہائی ضرور ہونی چاہئے
#/S





