غزہ امن معاہدے کے تحت حماس نے 20 اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کردیا ہے جبکہ اسرائیل کی جانب سے 1700 سے زائد فلسطینی قیدیوں کی رہائی عمل میں لائی جارہی ہے۔
فلسطینیوں کے لیے انتخاب اس سے زیادہ واضح نہیں ہو سکتا، یہ ان کے لیے موقع ہے کہ وہ ہمیشہ کے لیے دہشت گردی اور تشدد کے راستے سے ہٹ جائیں، جو انتہائی حد تک جا چکا ہے. امریکی صدر

تل ابیب: (ویب ڈیسک) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ یہ مشرق وسطی کے ایک نئے تاریخی دور کا آغاز ہے۔اسرائیلی پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ لوگوں کو لگ رہا تھا ہم غزہ میں امن کی کوششوں پر وقت ضائع کر رہے ہیں، غزہ میں توجہ اب تعمیر نو کی طرف ہونی چاہیے، اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی تاریخ ساز لمحہ ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ بندوقیں خاموش ہو رہی ہے، امن آرہا ہے، عرب اور مسلم ممالک نے یرغمالیوں کی رہائی کے لیے زور ڈالا ہے، لوگوں کو لگ رہا تھا ہم غزہ میں امن کی کوششوں پر وقت ضائع کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل نے وہ سب کچھ جیت لیا ہے جو طاقت کے بل پر جیتا جا سکتا تھا، وقت آگیا ہے کہ میدانِ جنگ میں دہشت گردوں کے خلاف کامیابیوں کو مشرقِ وسطیٰ کے لیے خوشحالی کے حتمی انعام میں تبدیل کیا جائے، اسٹیو وٹکوف نے امن معاہدے کے لیے بہت محنت کی۔ امریکی صدر نے اپنا خطاب میں کہا کہ غزہ امن معاہدے میں عرب اور مسلم ممالک نے اہم کردار ادا کیا، عرب ممالک اور مسلم رہنماؤں نے مل کر حماس پر دباؤ ڈالا کہ وہ یرغمالیوں کو رہا کرے، اور اس سے ہمیں بہت مدد ملی، بہت سے لوگوں کی جن سے آپ کی توقع نہیں ہوگی، اور میں ان سب کا دل سے شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ یہ اسرائیل اور پوری دنیا کے لیے ایک غیر معمولی کامیابی ہے کہ یہ سب ممالک امن کے شراکت دار کے طور پر ایک ساتھ کام کر رہے ہیں, غزہ سے ایران تک، ان تلخ نفرتوں نے مصیبت، دکھ اور ناکامی کے سوا کچھ نہیں دیا جب کہ دہشت گردوں کے خلاف کامیابیوں کو پورے مشرق وسطیٰ کے لیے امن وخوشحالی میں تبدیل کیا جائے۔ امریکی صدر نے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ان میں غزہ جنگ ختم کرنے کی ہمت تھی۔ اپنے خطاب کے دوران امریکی صدر نے اسرائیل-حماس جنگ بندی کے معاہدے کو ممکن بنانے پر اپنی انتظامیہ کے کئی اراکین کی تعریف کی، جن میں مشرقِ وسطیٰ کے ایلچی اسٹیو وٹکاف اور ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر شامل ہیں۔ ٹرمپ نے کہا کہ لبنان میں ’حزب اللہ کا خنجر‘ جو اسرائیل کی طرف اٹھا ہوا تھا وہ اب مکمل طور پر ٹوٹ چکا ہے‘، اور میری انتظامیہ لبنان کے نئے صدر اور ان کے مشن کی بھرپور حمایت کر رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس حمایت کا مقصد حزب اللہ کی بریگیڈز کو مستقل طور پر غیر مسلح کرنا ہے اور وہ یہ کام بہت اچھی طرح کر رہے ہیں، ہمارا مقصد ایک خوشحال ریاست تعمیر کرنا ہے جو اپنے ہمسایوں کے ساتھ امن میں رہے، اور آپ سب اس کے بھرپور حامی ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی تقریر کے دوران فلسطینیوں کا ذکر تو کیا لیکن ان کی دہائیوں پرانی خود ارادیت اور ریاست کے قیام کی جدوجہد کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ فلسطینیوں کے لیے انتخاب اس سے زیادہ واضح نہیں ہو سکتا، یہ ان کے لیے موقع ہے کہ وہ ہمیشہ کے لیے دہشت گردی اور تشدد کے راستے سے ہٹ جائیں، جو انتہائی حد تک جا چکا ہے اور اپنے درمیان موجود نفرت والی قوتوں کو ختم کریں، اور میرا خیال ہے کہ یہ ہونے جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ چند ماہ کے دوران میں نے کچھ ایسے لوگوں سے ملاقات کی ہے جو یہ سب ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں، بے پناہ جانی نقصان، تکلیف اور مشکلات کے بعد، اب وقت آ گیا ہے کہ وہ اسرائیل کو نیچا دکھانے کے بجائے اپنے عوام کی تعمیر پر توجہ دیں۔ امریکی صدر نے ایران کے ساتھ امن معاہدے کی امید ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اگر ایران کے ساتھ امن معاہدہ ہو جائے تو یہ بہت شاندار بات ہوگی جب کہ ایرانی عوام زندہ رہنا چاہتے ہیں، ڈونلڈ ٹرمپ نے سابق امریکی صدر بارک اوباما کو 2015 کے ایران کے جوہری معاہدے پر دستخط کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا، اور اسے ’ایک تباہی‘ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ایرانی حکومت مشرق وسطیٰ میں بے شمار اموات کا باعث بنی لیکن اس کے باوجود ان کے لیے دوستی اور تعاون کا ہاتھ اب بھی کھلا ہے، وہ معاہدہ کرنا چاہتے ہیں، ہم دیکھیں گے کہ کیا ہم کچھ کر سکتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے اس بیان پر اسرائیلی پارلیمنٹ میں قانون سازوں کی جانب سے گہری خاموشی چھا گئی۔ یاد رہے کہ گزشتہ 2 سالوں کے دوران صہیونی ریاست کی جانب سے غزہ پر مظالم کے نتیجے میں 67 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوچکے ہیں۔ دوسری جانب، تجزیہ کاروں نے کہا ہے کہ اسرائیل کو جاری فوجی اور سفارتی مدد کے ذریعے، امریکا طویل عرصے سے اس خطے میں تشدد کو بڑھاوا دینے والا ایک مرکزی کردار رہا ہے۔

غزہ: (ما نیٹرنگ ڈیسک ) غزہ امن معاہدے کے تحت فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس نے 20 اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کردیا ہے جبکہ اسرائیل کی جانب سے 1700 سے زائد فلسطینی قیدیوں کی رہائی عمل میں لائی جارہی ہے۔ عرب میڈیا کے مطابق حماس نے آج دو مرحلوں میں تمام 20 اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کردیا ہے، پہلے مرحلے میں 7 جب کہ دوسرے مرحلے میں 13 یرغمالیوں کو رہا کردیا گیا۔ اسرائیلی میڈیا کے مطابق حماس آج 28 یرغمالیوں کی لاشوں کو بھی آج ہی اسرائیل کے سپرد کرے گا جب کہ 1700فلسطینی قیدی اسرائیلی جیلوں سے بسوں میں سوار ہو کر غزہ اور مغربی کنارے کےلیے روانہ ہوگئے ہیں، فلسطینی قیدیوں کو رہائی کے بعد غزہ کے النصر ہسپتال منتقل کیا جائے گا۔ اس سے پہلے اسرائیل کا کہنا تھا کہ اسرائیلی مغویوں کو رہائی ملتے ہی فلسطینی قیدیوں کو رہا کر دیا جائے گا۔ عرب میڈیا کے مطابق معاہدے کے تحت 20 اسرائیلی یرغمالیوں کے بدلے تقریباً 2 ہزار فلسطینی قیدی رہا کیے جائیں گے، حماس کے مسلح ونگ القسام بریگیڈ نے 20 زندہ اسرائیلی یرغمالیوں کی فہرست جاری کر دی ہے جبکہ خان یونس میں اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کی تیاریاں بھی مکمل کر لی گئی ہیں اور عوام کی بڑی تعداد رہائی کے مقام کے قریب جمع ہو گئی ہے۔ دوسری جانب مصر کے شہر شرم الشیخ میں آج غزہ امن معاہدے پر دستخط کی باقاعدہ تقریب منعقد کی جائے گی، امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمت اور وزیراعظم پاکستان شہباز شریف بھی غزہ امن معاہدے پر دستخط کی تقریب میں شرکت کے لیے مصر جا رہے ہیں۔ قبل ازیں بتایا گیا تھا کہ مغویوں کی واپسی کے بدلے میں اسرائیل 250 فلسطینی قیدیوں کو رہا کرے گا، جن میں عمر قید کی سزا کاٹنے والے بھی شامل ہیں، اس کے علاوہ جنگ کے دوران گرفتار کیے گئے 1700 سے زائد ایسے قیدی جن پر کوئی الزام عائد نہیں کیا گیا تھا، رہا کیے جائیں گے، ان میں تقریباً دو درجن بچے بھی شامل ہیں۔ دوسری جانب، امدادی سامان سے بھرے ٹرک غزہ میں داخل ہو رہے ہیں، جبکہ اسرائیلی کارروائی کے باعث جن فلسطینیوں کو جنوب کی طرف بےدخل کیا گیا تھا، وہ واپس شمالی غزہ جا رہے ہیں تاہم وہاں پہنچنے پر وہ تباہی کے مناظر دیکھ رہے ہیں کیونکہ غزہ شہر ملبے کے ڈھیر میں بدل چکا ہے۔





