Supreme Court

جب تک 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف فیصلہ نہیں آتا یہ ترمیم درست ہے جسٹس امین الدین خان

وکلاء بحث کے آخر پرآکرکہتے ہیں 26ویں ترمیم کوسائیڈ پررکھ دیں ، یہ میرے لئے حیران کن ہے،

اسلام آباد( ویب  نیوز)

سپریم کورٹ آف پاکستان کے آئینی بینچ میں 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیئے ہیں کہ وکلاء بحث کے آخر پرآکرکہتے ہیں 26ویں ترمیم کوسائیڈ پررکھ دیں ، یہ میرے لئے حیران کن ہے، کیایہ دلائل یہاں پر ہوں گے۔ جب تک ترمیم کے خلاف فیصلہ نہیں آتا یہ ترمیم درست ہے۔ جبکہ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے ہیں کہ ہم صرف یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ کیا بینچ خواہشات کے مطابق بنے گایاقانون کے مطابق بنے گا۔ 191فرسٹ امپریشن کاکیس ہے اس لئے اسے بار، باردیکھنا پڑے گا۔ پارلیمنٹ کا ترمیم کااختیارہے ہم دیکھ رہے ہیں کہ ترمیم آئینی ہے یاغیر آئینی۔ جبکہ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے ہیں کہ ہم آئینی ترمیم کوکالعدم قراردے سکتے ہیں یہ آرٹیکل 191-Aکے تحت ہمارادائرہ اختیار ہے،اگر ہمارادائرہ اختیار نہیں توہم یہ کیس نہیں سنیں گے، یہ فرسٹ امپریشن کاکیس ہے ، یہ ملک میں ملک طور پر منفرد صورتحال ہے۔ کیا 31 اکتوبر 2024 والی کمیٹی کو ایسا کوئی اختیار حاصل تھا کہ وہ فل کورٹ کی تشکیل کا فیصلہ کر سکتی تھی یا نہیں ہم نے یہ دیکھنا ہے، ہم نے یہ دیکھنا ہے کہ آئین کے مطابق کمیٹی کا فیصلہ ہم سب پر ماننا لازم ہے کہ نہیں۔ یہ فرسٹ امپریشن کاکیس ہے،اس انداز میں آئینی ترمیم کی گئی ہے کہ سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار کو دوشاخوں میں تقسیم کردیا گیا ہے، ایسا پہلی مرتبہ کیا گیا ہے، ایک بینچ جو کہ آرٹیکل 191-Aکے تحت بنا ہے اسی بینچ کوکہہ رہے ہیں آرٹیکل 191-Aکونظرانداز کردیں اور آگے بڑھے ہو ئے فل کورٹ یا جو بھی کہیں تشکیل دیں، یہ مشکل ہے اس لئے ہم کئی دنوں سے یہ سوال پوچھ رہے ہیں۔ اگر ہم فل کورٹ کاحکم جاری کریں توکیا آرٹیکل 191-A-3کی خلاف ورزی نہیں ہوگی۔جبکہ جسٹس عائشہ اے ملک نے ریمارکس دیئے ہیں کہ آرٹیکل 191باقی سپریم کورٹ کااختیار ختم نہیں کرتا، دائرہ اختیارسپریم کورٹ کاہے، آرٹیکل 191-Aکہتا ہے کہ آئینی بینچ سپریم کورٹ کادائرہ اختیار استعمال کرے گا، دائرہ اختیار کسی مخصوص بینچ کے پاس نہیں بلکہ سپریم کورٹ کے پاس ہے۔جبکہ جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیئے ہیں کہ کیوں درخواست گزار اِس بینچ پر اعتماد نہیں کررہے اگر اعتماد ہے توپھر میرٹس پر دلائل شروع کریںتاکہ ہم 26ویں ترمیم کے آئینی یاغیر آئینی ہونے کافیصلہ کریں۔ جبکہ جسٹس شاہد بلال حسن نے ریمارکس دیئے ہیں کہ درخواست گزارچاہتے ہیں کہ آرٹیکل 191-Aکو نظرانداز کرتے ہوئے عبوری حکم کے زریعہ وہ بڑا ریلیف فراہم کردیا جائے جووہ مانگ رہے ہیں۔ سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر ،مسز جسٹس عائشہ اے ملک، جسٹس سید حسن اظہررضوی، مس جسٹس مسرت ہلالی ،جسٹس نعیم اخترافغان اور جسٹس شاہد بلال حسن پر مشتمل 8رکنی بینچ 26ویں ترمیم کے خلاف دائر37درخواستوں پرجمعرات  کے روز سماعت کی۔ درخواستیں چیئرمین پاکستان تحریک انصاف، سنی اتحاد کونسل ،امیرجماعت اسلامی پاکستان انجینئرحافظ نعیم الرحمان، سردارمحمد اختر جان مینگل، صدر لاہور ہائی کورٹ بارایسوسی ایشن ، صدر لاہور بارایسوسی ایشن مبشر رحمان چوہدری، بلوچستان بارکونسل ، بلوچستان ہائی کورٹ بارایسوسی ایشن، صدر کراچی بارایسوسی ایشن، صدر اسلام آباد ہائی کورٹ بارایسوسی ایشن اوردیگر کی جانب سے دائرکی گئی ہیں۔ درخواستیں آئین کے آرٹیکل 184-3کے تحت دائر کی گئی ہیں۔ کیس کی سماعت سپریم کورٹ کے یوٹیوب چینل پربراہ راست دکھائی گئی۔ سماعت کے آغاز پر مصطفی نواز کھوکھر کے وکیل شاہد جمیل خان روسٹرم پر آئے ۔ شاہد جمیل کاکہنا تھا کہ میری درخواست پر رجسٹرا رنے اعتراض لگایا۔ شاہد جمیل خان کاکہنا تھا کہ انہوں نے پریکٹس اینڈ پروسییجر ایکٹ2023کے تحت قائم کمیٹی کے 31اکتوبر2024کے فیصلے پر عملدرآمد کے لئے درخواست دی ہے۔ جسٹس امین الدین خان کاشاہد جمیل خان کومخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہم ابھی آپ کی درخواست پراعتراضات سن رہے ہیں۔شاہد جمیل خان کاکہنا تھا کہ یہ عدالت نے معاملہ طے کردیا ہوا ہے اعتراضات عدالت میں سنے جاسکتے ہیں۔ شاہد جمیل خان کاکہنا تھا کہ رجسٹرارکے پاس عدالتی دائرہ اختیار استعمال کرنے کااختیار نہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل کاشاہد جمیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ کی مین درخواست یہ ہے کہ درخواستوں کو فل کورٹ کے سامنے سماعت کے لئے مقررکیا جائے جبکہ 26ویں ترمیم کے خلاف درخواست الگ ہے۔شاہد جمیل کاکہنا تھا کہ ایک کمیٹی کافیصلہ ہے جس کوکسی فورم پر کالعدم قرارنہیں دیا گیا، اس عدالت نے دیکھنا ہے کہ اس فیصلے پر عمل کرنا ہے کہ نہیں، یہ اہم نقطہ ہے میں تاریخوں کے اعتبار سے دلائل دوں گا۔ جسٹس عائشہ اے ملک کاکہنا تھا کہ دیگر کتنے درخواست گزاروں نے یہ نقطہ اٹھایا ہے، عزیر کرامت بھنڈاری کی درخواست میں لیٹر اور کمیٹی فیصلے کانقطہ اٹھایا گیا ہے۔ جسٹس امین الدین خان کاشاہد جمیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ کوآخرمیں سنیں گے۔ جسٹس جمال مندوخیل کاشاہد جمیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ کب باہرجارہے ہیںاور واپس آرہے ہیں، آپ8،10دن دستیاب نہیں باہر سے ہوکرآجائیں، فریش بھی ہوں گے، ویسے بھی بینچ دستیاب نہیں، ہم آپ جانے کی اجازت دے رہے ہیں۔ جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ ہم وکلاء کوویڈیو لنک پرنہیں سنیں گے۔ سنی اتحاد کونسل کے وکیل عزیر کرامت بھنڈاری کا دلائل کاآغاز کرتے ہوئے کہنا تھا کہ میری استدعا فل کورٹ کی ہے۔ اس پر جسٹس سید حسن اظہررضوی کاکہنا تھا 16ججز یا24ججز کی فل کورٹ۔جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ کیااستدعا ہے کہ آیا ہم فل کورٹ کاحکم دیں گے،15رکنی،16رکنی یا 24رکنی فل کورٹ بنائی جائے یا کمیٹی کے فیصلہ پر عملدرآمد کریں۔ جسٹس جمال مندوخیل کاکہنا تھا کہ کمیٹی نے فل کورٹ کاہی کہیں گے۔ جسٹس امین الدین خان کاعزیر بھنڈاری سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ مجھے توقع ہے کہ آپ کوئی لاجک اور قانون کی بات کریں گے، وکلاء بحث کے آخر پرآکرکہتے ہیں 26ویں ترمیم کوسائیڈ پررکھ دیں ، یہ میرے لئے حیران کن ہے، کیایہ دلائل یہاں پر ہوں گے۔ عزیر کرامت بھنڈاری کاکہنا تھا کہ ججز اوروکلاء ایک ہی جانب ہیں ، اگر ججز فیصلہ کریں گے کہ ترمیم درست ہے توہم سرخم تسلیم کریں گے، ہم سب اس لئے یہاں ہیں کہ ہم محسوس کرتے ہیں کہ ترمیم کے ساتھ کچھ غلط ہوا ہے اور ادارے کوکمزورکیاگیا ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل کاکہنا تھا کہ پہلے اس بات کاتعین ہونا ہے کہ کون اس درخواست کوسنے گا۔ جسٹس شاہد بلال حسن کاکہنا تھا کہ اپنی درخواست پڑھیں آپ نے کہا ہے کیس فل کورٹ کے سامنے سماعت کے لئے مقررکیا جائے، فل کورٹ کی تشریح کریں، آرٹیکل 191پڑھیں۔ عزیر کرامت بھنڈاری کاکہنا تھا کہ کیا فل کورٹ تشکیل دی جاسکتی ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل کاکہنا تھا کہ ہم صرف یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ کیا بینچ خواہشات کے مطابق بنے گایاقانون کے مطابق بنے گا۔ عزیر بھنڈاری کاکہنا تھا کہ قانون کے مطابق بنے گا، فل کورٹ بن سکتی ہے کہ نہیں، میں اتفاق کرتا ہوں فل کورٹ کبھی تشکیل نہیں دی جاتی بلکہ یہ وجود رکھتی ہے، اس کوبٹھانا ہے،اس معاملہ میں فل کورٹ بنائی جاسکتی ہے، سوال ہے کون فل کورٹ بنائے گا، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر 2023کے تحت قائم کمیٹی کا 31اکتوبر2024کا فیصلہ ماننا لازم ہے، اس پر عملدرآمد لازم ہے، اگر اس فیصلہ پر عمل ہوتا ہے تو پھر 31اکتوبر کو موجود فل کورٹ کیس سنے گی۔ اس پر جسٹس محمد علی مظہر کاکون ساکمیٹی کافیصلہ ۔ عزیر بھنڈار ی کاکہنا تھا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر 2023کے سیکشن 2کے تحت قائم کمیٹی کافیصلہ۔ عزیر بھنڈاری کہنا تھاکہ اگر یہ بینچ سمجھتا ہے کہ 31اکتوبرکے کمیٹی فیصلے پرعملدرآمد نہیں ہوسکتا تو پھر عدالتی حکم کے زریعہ فل کورٹ بنائی جائے، کتنے ججز بیٹھیں، اس سوال کاجواب یہ ہے کہ اگر 31فروری کے فیصلے پر عملدرآمد کروایا جاتا ہے توپھر اُس تاریخ کوموجود ججز بیٹھیں گے، اگر کمیٹی فیصلے پر عملدرآمد نہیں ہوتا توپھرمتبادل کے طور پرآج موجودتمام 24ججزفل ٹ میں بیٹھیں گے۔ جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ کیا کمیٹی کے فیصلہ یہ بینچ عملدرآمد کروائے گا۔ اس پر وکیل نے کہاہاں یہ بینچ، یہ قانونی طور پر درست باڈی نے فیصلہ کیا تھا۔ عزیر بھنڈاری کاکہنا تھا کہ اگر بینچ جاری کرے گاتوکوئی بھی اس کی خلاف ورزی نہیں کرے گا۔ عزیر بھنڈاری کاکہنا تھا کہ 26ویں ترمیم کے بعد تعینات ہونے والے ججز کے لئے انتہائی عجیب وغریب ہوگا کہ اپنی تعیناتی کافیصلہ کریں، ان کے فل کورٹ میں بیٹھنے پر کوئی پابندی نہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل کاکہنا تھا کہ کیاہم آٹھ ججز فل کورٹ میں بیٹھ سکتے ہیں، 26ویں ترمیم کے زریعہ ہمیں اضافی ذمہ داری دی گئی ہے، چھ، سات ججز کوبھی ہائی کورٹ سے اٹھا کراضافی ذمہ داری دی گئی ہے اُن میں اور ہم میں کیا فرق ہے۔ عزیر بھنڈاری کاکہنا تھا کہ اگرآپ 31اکتوبر کے کمیٹی فیصلہ پر عمل نہیں کرتے توپھر ان ججز کے فل کورٹ میں بیٹھے کاکوئی ایشو نہیں ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا  کیا 31 اکتوبر 2024 والی کمیٹی کو ایسا کوئی اختیار حاصل تھا کہ وہ فل کورٹ کی تشکیل کا فیصلہ کر سکتی تھی یا نہیں ہم نے یہ دیکھنا ہے،، ہم نے یہ دیکھنا ہے کہ آئین کے مطابق کمیٹی کا فیصلہ ہم سب پر ماننا لازم ہے کہ نہیں۔ عزیر بھنڈاری کاکہنا تھا کہ درخواستوں کی سماعت کے لئے فل کورٹ بنائی جائے۔ اس پر جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ کمیٹی فیصلے تحت یا آزادانہ طور پر۔اس پرعزیز بھنڈاری کاکہنا تھا کہ دونوں طریقوں سے۔ عزیر بھنڈاری کاکہنا تھا کہ قانون کاآپریشن معطل نہیں کیاجاسکتا، میں معطلی نہیں مانگ رہا، اگر قانون کومعطل کیا جاتا ہے توبینچ سُپر ٹیکس اوردیگر کیسز کوبھی نہیں سن سکتا۔ جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ جب تک ترمیم کے خلاف فیصلہ نہیں آتا یہ ترمیم درست ہے۔جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ یہ بینچ آرٹیکل 191-Aکے تحت قائم کیا گیا ہے، کیسے ہمیں کہہ سکتے ہیں اس کونظرانداز کردیں، اگر ہم 191-Aکو نظرانداز اکردیں توپھر آئینی بینچ کی تشکیل کاکوئی مسئلہ نہیں، ہمیں ریگولربینچ ہی سمجھاجائے، ہم گزشتہ کئی تاریخوں سے یہ پوچھ رہے ہیں اورہروکیل سے سوال پوچھا ہے کہ کیسے اس کونظرانداز کردیں، ترمیم کے تحت تمام آئینی کیسز آئینی بینچ کومنتقل ہوگئے۔ جسٹس مسرت کاکہنا تھا کہ ہم بطور آئینی بینچ بیٹھے ہیں اور ہمیں کہا گیا ہے 26ترمیم کاکیس سنیں، کیا ہمارا بینچز بنانے اور فل کورٹ بنانے کااختیار ہے، کیا یہ آئینی معاملہ ہے۔ عزیر بھنڈاری کاکہنا تھا کہ آرٹیکل 191-Aآئین کاحصہ ہے، کیا یہ آئینی طور پر درست ہے یا نہیں یہ سوال عدالت کے سامنے ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ یہ فرسٹ امپریشن کاکیس ہے،اس انداز میں آئینی ترمیم کی گئی ہے کہ سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار کو دوشاخوں میں تقسیم کردیا گیا ہے، ایسا پہلی مرتبہ کیا گیا ہے، ایک بینچ جو کہ آرٹیکل 191-Aکے تحت بنا ہے اسی بینچ کوکہہ رہے ہیں آرٹیکل 191-Aکونظرانداز کردیں اور آگے بڑھے ہو ئے فل کورٹ یا جو بھی کہیں تشکیل دیں، یہ مشکل ہے اس لئے ہم کئی دنوں سے یہ سوال پوچھ رہے ہیں۔جسٹس شاہد بلال حسن کاکہنا تھا کہ درخواست گزارچاہتے ہیں کہ آرٹیکل 191-Aکو نظرانداز کرتے ہوئے عبوری حکم کے زریعہ وہ بڑا ریلیف فراہم کردیا جائے جووہ مانگ رہے ہیں۔ عزیر بھنڈاری کاکہنا تھا کہ اس سوال کافیصلہ فل کورٹ کوکرنے دیں ۔جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ آرٹیکل191-Aآئین کاحصہ ہے اور ہم آئینی ترمیم کاجائزہ لے سکتے ہیں ، ہم اس مرحلہ پر کچھ نہیں کہہ رہے کہ آپ کی درخواست منظور کریں گے یا خارج کریں گے، یہ فیصلہ میرٹ پر لمبے چوڑے دلائل سننے کے بعد کریں گے، ہم آئینی ترمیم کوکالعدم قراردے سکتے ہیں یہ آرٹیکل 191-Aکے تحت ہمارادائرہ اختیار ہے،اگر ہمارادائرہ اختیار نہیں توہم یہ کیس نہیں سنیں گے، یہ فرسٹ امپریشن کاکیس ہے ، یہ ملک میں ملک طور پر منفرد صورتحال ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل کاکہنا تھا کہ 191فرسٹ امپریشن کاکیس ہے اس لئے اسے بار، باردیکھنا پڑے گا، دیکھنا پڑے گا کہ آئینی کادائرہ اختیار ہے کہ نہیں،اگر اس بینچ کادائرہ اختیار ہے توپھر دیکھنا پڑے گا کہ فل کورٹ کو بھی دائرہ اختیار حاصل ہے، کیادونوں کادائرہ اختیار ہے یاایک کاہے۔عزیر بھنداری کاکہنا تھا کہ دونوں کادائرہ اختیار ہے، اس بینچ کے دائرہ اختیار کافیصلہ اُس وقت نہیں ہوسکتا جب تک آرٹیکل 191-Aکا فیصلہ نہیں ہوتا،اگریہ آرٹیکل آئینی ہے توپھراس بینچ کادائرہ اختیار ہے اوراگرغیر آئینی ہے توپھر دائرہ اختیار نہیں ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل کاکہنا تھا کہ اگر دونوں عدالتوں کادائرہ اختیار ہے توپھر براہ راست اُس پر آجائیں، اختیار ہوگا توبھجوائیں۔ عزیر بھنڈاری کاکہنا تھا کہ میں آرٹیکل 191-Aکی رکاوٹ کوہٹانے کی کوشش کررہاہوں۔ عزیر بھنڈاری کاکہنا تھا کہ مرد ججز نے کہا ہے کہ آرٹیکل 191-Aکی پابند ی ہے جبکہ خواتین ججز نے کچھ نہیں کہا۔ جسٹس مسرت ہلالی کاکہنا تھا کہ لیڈیز بات سمجھ چکی ہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل کاکہنا تھا کہ خواتین مجھ سے زیادہ سمجھدار ہیں۔عزیر بھنڈاری کاکہنا تھا کہ کہا جاتا ہے کہ اگر کوئی چیز کہنی ہے تو مرد کوکہیں اوراگر کوئی چیز کرنی ہے توخاتون کوکہیں۔ جسٹس نعیم اخترافغان کاکہنا تھا کہ یہاں فورم الگ کردیا گیا ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل کاکہنا تھا کہ پارلیمنٹ کا ترمیم کااختیارہے ہم دیکھ رہے ہیں کہ ترمیم آئینی ہے یاغیر آئینی۔جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ اگر دیگرججز کااختیار ختم ہوگیا ہے توہم کیسے اختیاردے سکتے ہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل کاکہنا تھا کہ پہلے سارے بیچوں کے پاس آرٹیکل 184-3کے تحت اختیار تھا پھر سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر کے تحت یہ اختیار 5رکنی بینچ کودیا گیا اور26ویں ترمیم میں یہ اختیار آئینی بینچ کودے دیا گیا ہے، اگر فل کورٹ بنا کربیٹھیں تو اُن کادائرہ اختیار ہوگا یا بینچوں کا دائرہ اختیار ختم ہوگا۔ جسٹس عائشہ ملک کاکہنا تھا کہ آرٹیکل 191باقی سپریم کورٹ کااختیار ختم نہیں کرتا، دائرہ اختیارسپریم کورٹ کاہے، آرٹیکل 191-Aکہتا ہے کہ آئینی بینچ سپریم کورٹ کادائرہ اختیار استعمال کرے گا، دائرہ اختیار کسی مخصوص بینچ کے پاس نہیں بلکہ سپریم کورٹ کے پاس ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل کاکہنا تھا کہ بینچز آئین کے تحت نہیں بلکہ رولز کے تحت بنتے ہیں، کیا اختیار ہونے اور اختیار استعمال کرنے میں کوئی فرق ہے۔ عزیر بھنڈاری کاکہنا تھا کہ عدالتی اختیار کبھی بھی واپس نہیں لیا جاسکتا۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار سے کوئی بھی انکار نہیں کررہا، ہائی کورٹ تویہ کیس نہیں سن رہی بلکہ سپریم کورٹ ہی سن رہی ہے ، آرٹیکل 191-Aکے کیسز آئینی بینچ سنے گا، ہم سپریم کورٹ ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ اگر ہم فل کورٹ کاحکم جاری کریں توکیا آرٹیکل 191-A-3کی خلاف ورزی نہیں ہوگی۔ جسٹس نعیم اختر افغان کا کہنا تھا کہ کیوں درخواست گزار اِس بینچ پر اعتماد نہیں کررہے اگر اعتماد ہے توپھر میرٹس پر دلائل شروع کریںتاکہ ہم 26ویں ترمیم کے آئینی یاغیر آئینی ہونے کافیصلہ کریں۔ وکیل درخواست گزار نے کہا آئینی ترمیم میں ایسا میکانزم ہی نہیں ہے جس کے تحت جوڈیشل کمیشن ججز کی نامزدگی کیلئے پک اینڈ چوز کرے۔جسٹس نعیم افغان نے کہا یہ بات تو کیس کے میرٹس سے متعلقہ ہے۔ جسٹس عائشہ اے ملک کا کہنا تھا کہ اگر یہ کہا جائے آرٹیکل 191اے کے تحت نامزد ججز ہی آئینی کیسز سن سکتے ہیں تو پھر سپریم کورٹ کا اختیار سماعت تو جوڈیشل کمیشن کے ہاتھ میں آگیا،یہ اُن کی مرضی ہوگی کہ کسی کونامزدکریں یا نہ کریں، اگروہ کسی جج کو آئینی بنچ کیلئے نامزد نہ کرنے کافیصلہ کریں اورکوئی آئینی بینچ نہ ہو تو کیا سپریم کورٹ آئین کے آرٹیکل 184-3کے تحت معاملہ سن کرکہہ سکتی ہے کہ یہ معاملہ فوری نوعیت کاہے اور ان سوالوںپرفیصلہ کرنا چاہیئے ،کیا سپریم کورٹ یہ کرسکتی ہے یاسپریم کورٹ اُس وقت یہ کہے گی کہ کیونکہ آئینی بینچ موجود نہیں اس لئے اس سوال پرفیصلہ نہیں کیاجاسکتا،کیا آئینی کام بند ہوجائے گایا سپریم کورٹ اسے سننے کے قابل ہو گی۔عزیر بھنڈاری کاکہنا تھا کہ سپریم کورٹ معاملہ سنے گی۔ جسٹس عائشہ ملک کاکہنا تھا کہ اگرآج ہم کہیں کہ فل کورٹ نہیں بن سکتی توکیا آے والے تمام وقتوں کے لئے فل کورٹ نہیں بن سکتی اوریہ جوڈیشل کمیشن پر منحصر ہوگا کہ وہ کتنے ججز کوآئینی بینچ میں نامزد کرتا ہے، لوگوں کے حقوق کا تحفظ جوڈیشل کمیشن نے کرنا ہے اور وہ فیصلہ کرے گا کہ کون سے ججز آئینی بینچ میں نامزد ہوں گے اور کون سے نہیں ہوں گے، فل کورٹ ہروقت موجود ہوتی ہے۔عدالت نے درخواستوں پر مزید سماعت 10 نومبر تک ملتوی کرتے ہوئے قرار دیاکہ بنچ کی دستیابی کی صورت میں سماعت ہوگی۔عزیر کرامت بھنڈاری آئندہ سماعت پر اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔