جرمانہ ادا کرنے سے جرم ختم نہیں ہوجاتا،جسٹس محمد شفیع صدیقی
ہم متعلقہ حقائق معلوم کررہے ہیں، کوئی ذہن نہیں بنارہے
اگر اس وقت کمپنی کے انتخابات کروائے جاتے ہیں تویہ کمپنی کا کنٹرول محمد ضیاء اللہ خان چشتی کودینے کے مترادف ہوگا
نجی کمپنی کے حصص کی خرید و فروخت اور بورڈ آف ڈائریکٹرز کے الیکشن سے متعلق دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران ججز کے ریمارکس
سماعت آج (بدھ)تک ملتوی ۔ درخواست گزاروں کے وکیل محمد مخدوم علی خان آج(بدھ)کے روز بھی اپنے دلائل جاری رکھیں گے
اسلام آباد(ویب نیوز)
سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج جسٹس محمد شفیع صدیقی نے نجی کمپنی کے حصص کی خرید و فروخت اور بورڈ آف ڈائریکٹرز کے الیکشن سے متعلق دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے ہیںکہ جرمانہ ادا کرنے سے جرم ختم نہیں ہوجاتا۔ جبکہ جسٹس نعیم اخترافغان نے ریمارکس دیئے ہیں کہ ہم متعلقہ حقائق معلوم کررہے ہیں، کوئی ذہن نہیں بنارہے۔ جبکہ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیئے ہیں کہ اگر اس وقت کمپنی کے انتخابات کروائے جاتے ہیں تویہ کمپنی کا کنٹرول محمد ضیاء اللہ خان چشتی کودینے کے مترادف ہوگا۔ جبکہ بینچ نے درخواستوں کی سماعت آج (بدھ)تک ملتوی کردی۔ درخواست گزاروں کے وکیل محمد مخدوم علی خان آج(بدھ)کے روز بھی اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔ جسٹس نعیم اخترافغان کی سربراہی میں جسٹس محمد شفیع صدیقی اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل 3رکنی بینچ نے منگل کے روز کمپنیز ایکٹ 2017اورسیکیورٹیز ایکٹ 2015کے تحت ووٹنگ شیئرز کے بڑے حصہ کے حصول اورقبضہ لینے اور بورڈ آف ڈائریکٹرز کے انتخابات کے حوالہ سے گرین ٹری ہولڈنگزلمیٹڈہیملٹن ایچ ایم آئی آئی ، برمودہ ، دی ریسورس گروپ انٹرنیشنل لمیٹڈاور ٹی آر جی پاکستان لمیٹڈ ، پیٹرک جیمز میگنس، فرخ امداد ، پیٹ کوسٹلو ،ظفر اقبال سبحانی، حسن فاروق ولد خالد فاروق ، ولید طارق صائب گل، ذیشا ن الحق ولد نسیم الحق اوردیگرکی جانب سے محمد ضیا اللہ خان چشتی،شہزاداحمد میمن، ریاست پاکستان بوساط پراسیکیوٹر جنرل سندھ، اوردیگر کے خلاف دائر14درخواستوں پرسماعت کی۔ کیس میں درخواست گزاروں اور مدعاعلیہان کی جانب سے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن آف پاکستان کے 6سابق صدور میاں محمد رائوف عطا، منیر احمد ملک، بیرسٹر محمد شہزادشوکت، عابد شاہد زبیری، چوہدری محمد احسن بھون، سید قلب حسن ، ایک سابق اٹارنی جنرل مخدوم علی خان ، میئر کراچی بیرسٹر مرتضیٰ وہاب صدیقی ، بیرسٹر صلاح الدین احمد،حسین علی المانی، محمد سرفراز میتلو،سابق ایڈووکیٹ جنرل پنجاب مصطفی رمدے، عمر آزاد ملک، عزیر کرامت بھنڈاری، قاسم علی چوہان،بیرسٹر حارث عظمت، ایان مصطفی میمن اوردیگربطور وکیل پیش ہوئے۔ جبکہ مدعاعلیہ نمبر 1محمد ضیا اللہ خان چشتی بھی دوران سماعت کمرہ عدالت میں موجود تھے۔سماعت کے آغاز پر احسن بھون نے روسٹرم پر آکر بتایا کہ سب سے پہلے درخواست گزاروں کی جانب سے مخدوم علی خان دلائل دیں گے جس کے بعد دیگر وکلاء دلائل دیں گے۔مخدوم علی خان کاکہنا تھا کہ ٹی آرجی پاکستان میں ضیاء اللہ چشتی کے 16فیصد شیئرز ہیں جبکہ گرین ٹری ہولنڈنگز لمیٹڈ کے 29فیصد شیئرز ہیں۔جسٹس نعیم اخترافغان کاکہنا تھا کہ ہم متعلقہ حقائق اورتاریخوں کے ساتھ چلیں گے کہ امریکہ میں کیا کچھ ہوا۔ جسٹس محمد شفیع صدیقی کاکہنا تھا کہ میں نے فائل نہیں دیکھی اس لئے تمام حقائق شروع سے بتائیں۔ مخدوم علی خان کاکہنا تھا کہ ضیاء اللہ چشتی مدعاعلیہ نمبر 1ہیں۔ مخدوم علی خان کاکہنا تھا کہ ٹی آر جی پی پبلک لمیٹڈ کمپنی ہے جو کہ پاکستان اسٹاک ایکسچینج کے ساتھ دسمبر2002سے رجسٹرڈ ہے، 68فیصد شیئرز ٹی آر جی آئی برمودہ کے ہیں اور مختلف معاہدوں کے تحت کمپنی کے45فیصد ووٹنگ حقوق ہیں،ضیاء اللہ چشتی کے 16فیصد شیئرز ہیں۔ مخدوم علی خان کاکہنا تھا کہ پاکستان اسٹاک ایکسچینج، سیکیوریٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان اور مسابقتی کمیشن پاکستان سمیت کل 9مدعاعلیہان ہیں۔ مخدوم علی خان کاکہنا تھا کہ ضیاء اللہ چشتی کی اہلیہ کے بھی 6فیصد شیئرز ہیں جبکہ درخواست گزاروں کے پاس ٹی آر جی پی کے 30فیصد شیئرز ہیں۔جسٹس نعیم اخترکی جانب سے استفسار کرنے پر عابدشاہد زبیری نے بتایا کہ میرے کزن کابیٹا بھی شیئرہولڈرز میں شامل ہے۔مخدوم علی خان کاکہنا تھا کہ ضیاء اللہ چشتی ٹی آرجی پی کوبنانے والے اور ایفینیٹی کے سابق سی ای اوبھی ہیں۔ مخدوم علی خان کاکہنا تھا کہ ٹی آرجی کی سابق ملازمہ ٹاٹیانا سپاٹس ووڈی کی جانب سے ضیاء اللہ چشتی پر جنسی طور پر حراساں کرنے کاالزام لگایا تھا جس کے بعد ضیاء اللہ چشتی کو کمپنی عہدوں سے مستعفی ہونا پڑا۔ جسٹس نعیم اخترافغان کاکہنا تھا کہ ہم متعلقہ حقائق معلوم کررہے ہیں، کوئی ذہن نہیں بنارہے۔ جسٹس محمد شفیع صدیقی کاکہنا تھا کہ کیا کمپنی کے خلاف جنسی حراسانی کاالزام تھا۔ اس پر مخدوم علی خان کاکہنا تھا کہ کمپنی نے خاتون کوحراساں کرنے کے معاملہ پر مناسب کاروائی نہیں کی اس لئے کمپنی کے خلاف بھی حراسانی کاالزام لگایاگیا۔ مخدوم علی خان کاکہنا تھا کہ خاتون نے امریکی کانگریس کو شواہد فراہم کئے جس کے بعد گانگریس نے ایوارڈ اپنی ویب سائٹ پر جاری کیا۔ جسٹس میاں گل حسن کاکہنا تھا کہ ضیاء اللہ چشتی کس کمپنی کے سی ای اواورکس کمپنی کے چیئرمیں تھے۔ مخدوم علی خان کاکہنا تھا کہ ضیاء اللہ چشتی ایفینیٹی کے سی ای اواور ٹی آر جی آئی کے چیئرمین بورڈ آف ڈائریکٹرزتھے۔ مخدوم علی خان کاکہنا تھا کہ ضیاء اللہ چشتی نے 29نومبر 2021کو ایفینیٹی اور ٹی آرٹی کے عہدوں سے استعفیٰ دیا۔ جسٹس نعیم اخترافغان کاکہنا تھا کہ ضیاء اللہ چشتی نے اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے دیا تاہم ان کے کمپنیوں میں شیئرز پرقراررہے۔ مخدوم علی خان کاکہنا تھا کہ ضیاء اللہ چشتی کے خلاف جنسی حراسانی کیس کا فیصلہ امریکی کانگریس کی ویب سائٹ پر موجود ہے اوراسے ہرکوئی دیکھ سکتا ہے۔جسٹس محمد شفیع صدیقی کاکہنا تھا کہ ایوارڈ حتمی شکل اختیار کرچکا ہے اور اسے چیلنج بھی نہیں کیا گیا۔ جسٹس نعیم اخترافغان کاکہنا تھا کہ اپیل دائرکی گئی تھی تاہم خارج ہوگئی۔ مخدوم علی خان کاکہنا تھا کہ ضیاء اللہ چشتی نے جرمانے کی رقم اداکی۔ مخدوم علی خان کاکہنا تھا کہ ٹی آر جی نے امریکہ میں اپنی کچھ سرمایاکاری فروخت کردی۔ مخدوم علی خان کاکہنا تھا کہ ضیاء اللہ چشتی نے انفرادی طور پر شیئرز ٹی آر جی کو1کروڑ60لاکھ ڈالرز میں فروخت کردیئے، اب بھی ٹی آر جی آئی میں ضیاء اللہ چشتی کے 15سے 16فیصد شیئرز ہیں۔ جسٹس نعیم اخترافغان کاکہنا تھا کہ کیا ریسورس گروپ کی کوئی اورکمپنیاں بھی ہیں۔ مخدوم علی خان کاکہنا تھا کہ ایفیینٹی ، ٹی آر جی آئی، اورگرین ٹری ہولڈنگز ریسورس گروپ کی ملکیت ہیں۔ جسٹس نعیم اخترافغان کاکہنا تھا کہ کیا ریسوس گروپ کا کسی بین الاقوامی کمپنی کا لیگل اسٹیٹس ہے۔ مخدوم علی خان کاکہنا تھا کہ ٹی آر جی پی اور ٹی آر جی آئی کے 45فیصد ووٹنگ شیئرز ہیں، اب بھی ٹی آر جی پی کے 16فیصد شیئرز ہیں۔ جسٹس نعیم اخترافغان کاکہنا تھا کہ کسی صفحہ، پیرے یا دستاویز کاحوالہ دے سکتے ہیں سندھ ہائی کورٹ کاپورافیصلہ پڑھنے کی ضرورت نہیں۔ جسٹس محمد شفیع صدیقی کاکہنا تھا کہ جرمانہ ادا کرنے سے جرم ختم نہیں ہوجاتا۔ مخدوم علی خان کاکہنا تھا کہ الیکشن زیر التوا ہے، سندھ ہائی کورٹ نے قانون کی غلط تشریح کی۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کاکہنا تھا کہ اگر اس وقت کمپنی کے انتخابات کروائے جاتے ہیں تویہ کمپنی کا کنٹرول ضیاء اللہ چشتی کودینے کے مترادف ہوگا۔ جسٹس نعیم اخترافغان کاکہنا تھا کہ ٹی آر جی پی میں اب بھی ضیاء اللہ چشتی کے شیئرز ہیں، ٹی آر جی آئی میں شیئرز شامل کرنے کے لئے گرین ٹری نے ٹی آرجی آئی میں شیئرزخریدنا تھے، ایسے لگتا ہے کہ پاکستان کی کمپنی کے شیئرز گرین ٹری کو دینے جارہے ہیں، ٹی آرجی آئی اور ٹی آرجی پی میں شیئر ہولڈرز تبدیل ہورہاہے، ان سوالوں کے جواب مخدوم علی خان آج (بدھ)کودیں۔ سماعت کے اختتام پر منیر ملک روسٹرم پر آگئے اور کیس کے حوالہ سے بتانا شروع ہوگئے اس پر جسٹس نعیم اخترافغان نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہم آپ کودلائل کے لئے مکمل وقت دیں گے۔ جسٹس نعیم اخترافغان کامخدوم علی خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کیاآپ اج(بدھ)کواپنے دلائل مکمل کرلیں گے ۔اس پر مخدوم علی خان کاکہنا تھا کہ کوشش کروں گامگرہوسکتا ہے جمعرات کوختم ہوں ۔ بینچ نے مزید سماعت آج(بدھ)تک ملتوی کردی ۔ ZS
#/S





