چیف آف ڈیفنس فورسز کا عہدہ آرمی چیف کو دینے کی تجویز، 27 ویں ترمیم کا مسودہ
کابینہ کی منظوری کے بعد 27ویں آئینی ترمیم کا بل سینیٹ میں پیش، قائمہ کمیٹی کے سپرد
قائد حزب اختلاف کی سیٹ خالی ہے، پورے ایوان پر مشتمل کمیٹی قائم کریں، ہمیں ابھی ڈرافٹ ملا ہے، ڈرافٹ نہیں پڑھا، اپوزیشن لیڈر کی تعیناتی تک بل پر بحث نہیں ہوسکتی۔ سینیٹر علی ظفر
صدر کے بعد وزیراعظم کو بھی فوجداری مقدمات سے استثنی کی ترمیم کمیٹی میں پیش
ترمیم کی منظوری کے بعد وزیراعظم کے خلاف بھی دوران مدت فوجداری مقدمات میں کارروائی نہیں ہوسکے گی،ذرائع

وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد 27ویں آئینی ترمیم کا بل سینیٹ میں پیش کر دیا گیا، چیئرمین سینیٹ نے بل قائمہ کمیٹی قانون و انصاف کے سپرد کردیا، اپوزیشن نے شور شرابہ کیا۔
وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے ایوان سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ آج معمول کی کارروائی معطل کر کے بل پیش کر لیتے ہیں جس پر چیئرمین سینیٹ نے معمول کی کارروائی معطل کردی۔
سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے 27 ویں آئینی ترمیم کا بل پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ بل پارلیمنٹ کی مشترکہ کمیٹی کو پیش کر دیتے ہیں، کمیٹی اپنا کام کرے گی، ہمیں کوئی جلدی نہیں ہے، مشترکہ کمیٹی میں قومی اسمبلی اورسینیٹ کے ارکان بیٹھتے ہیں، بل کمیٹی کو جائے گا، کمیٹی میں دیگر ارکان کو بھی مدعو کریں گے جو کمیٹی کے رکن نہیں ہیں، بل پر ووٹ ابھی نہیں ہو گا، اپوزیشن سے بحث کا آغاز کریں گے۔
چیئرمین سینیٹ نے اپوزیشن سے کہا کہ کمیٹی کے اجلاس میں شریک ہوں، بل قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کے سپرد کر دیتا ہوں۔ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے اپوزیشن کے شور شرابہ پر کہا کہ جس طرح کا رویہ اختیار کیا جا رہا ہے وہ ٹھیک نہیں، ہم شام تک بیٹھے ہیں آپ اپنی بات کہیں، اپوزیشن سے بحث کا آغاز کریں گے، ہم چُپ کر کے سنیں اور یہ ایسے بولتے رہیں یہ نہیں چلے گا۔
سینیٹر علی ظفر نے کہا کہ قائد حزب اختلاف کی سیٹ خالی ہے، پورے ایوان پر مشتمل کمیٹی قائم کریں، ہمیں ابھی ڈرافٹ ملا ہے، ڈرافٹ نہیں پڑھا، اپوزیشن لیڈر کی تعیناتی تک بل پر بحث نہیں ہوسکتی۔
چیف آف ڈیفنس فورسز کا عہدہ آرمی چیف کو دینے کی تجویز، 27 ویں ترمیم کا مسودہ

ممکنہ 27 ویں آئینی ترمیم کا مسودہ سامنے آگیا جس کے مطابق آرمی چیف کے لیے چیف آف ڈیفنس فورسز کا عہدہ دینے کی تجویز ہے جبکہ سپریم کورٹ سے آئینی اختیارات واپس لیکر وفاقی آئینی عدالت کے سپرد کیے جائیں گے۔
دنیا نیوز کو ملنے والے مسودے کے مطابق 27 آئینی ترمیم میں آئین کے آرٹیکل 42 اور 59 میں ترمیم کی جا رہی ہے، اس کے علاوہ آئین کے آرٹیکل 63 اے کی کلاز 5 میں لفظ سپریم کو فیڈرل کانسٹیٹیوشنل میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔
27 ویں ترمیم کے تحت ‘وفاقی آئینی عدالت’ کے قیام کی تجویز ہے، وفاقی آئینی عدالت، آئین کی تشریح اور آئینی تنازعات کے فیصلے کرے گی۔
مسودے میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ سے آئینی اختیارات واپس لے کر وفاقی آئینی عدالت کو دیے جائیں گے، آئین کا آرٹیکل 184 ختم کر دیا جائے گا، ازخود نوٹس کا اختیار ختم ہوگا۔ آئینی مقدمات اب سپریم کورٹ نہیں، وفاقی آئینی عدالت سنے گی، سپریم کورٹ صرف اپیلوں اور عمومی مقدمات کی عدالت رہے گی۔
مجوہ مسودے کے مطابق وفاقی آئینی عدالت میں چیف جسٹس اور چاروں صوبوں سے برابر نمائندگی ہو گی، وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس کی مدت 3 سال مقرر ہو گی، چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے کی حیثیت محدود ہو جائے گی۔
مسودہ میں سپریم کورٹ اور آئینی عدالت کے درمیان اختیارات کی تقسیم کی تجویز کی گئی ہے، آئینی عدالت کے فیصلے ملک کی تمام عدالتوں پر لازم ہوں گے۔
چیف آف ڈیفنس سٹاف کا عہدہ آرمی چیف کو دینے کی تجویز
27 ویں آئینی ترمیم کے مسودے میں فوجی ڈھانچے میں بڑی تبدیلی تجویز کی گئی ہے، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا عہدہ ختم کر کے آرمی چیف کو “چیف آف ڈیفنس فورسز” کا عہدہ دینے کی تجویز ہے، آئینی ترمیم کے تحت فیلڈ مارشل اور دیگر اعلیٰ فوجی عہدوں کو تاحیات درجہ حاصل ہوگا۔
ججز تقرری میں وزیراعظم اور صدر کا کلیدی کردار
27 ویں ترمیم کے ذریعے ججوں کی تقرری کا طریقہ کار بھی بدلا جائے گا، جوڈیشل کمیشن میں وفاقی آئینی عدالت اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس دونوں شامل ہوں گے، تقرری میں وزیرِاعظم اور صدر کو کلیدی کردار حاصل ہوگا، پارلیمنٹ کو آئینی عدالت کے ججوں کی تعداد طے کرنے کا اختیار ملے گا۔
آئین کے آرٹیکل 42، 63 اے، 175 تا 191 میں ترمیم کی تجویز ہے جس کے ذریعے سپریم کورٹ کے اختیارات میں نمایاں کمی ہو گی، ماہرین نے ترمیم کو عدلیہ اور انتظامیہ کے اختیارات میں بڑا تغیر قرار دیا، اپوزیشن جماعتوں نے مجوزہ 27 ویں ترمیم پر شدید تحفظات ظاہر کیے، سیاسی حلقوں میں وفاقی آئینی عدالت کے قیام پر بحث تیز ہو گی۔
صدر کے بعد وزیراعظم کو بھی فوجداری مقدمات سے استثنی کی ترمیم کمیٹی میں پیش
ترمیم کی منظوری کے بعد وزیراعظم کے خلاف بھی دوران مدت فوجداری مقدمات میں کارروائی نہیں ہوسکے گی،ذرائع
حکومتی ارکان نے صدر کے بعد وزیراعظم کو بھی فوجداری مقدمات سے استثنی کی ترمیم کمیٹی میں پیش کردی ۔ذرائع کے مطابق ترمیم حکومتی ارکان سینیٹر انوشہ رحمان اور سینیٹر طاہر خلیل سندھو نے مشترکہ قائمہ کمیٹی میں پیش کی۔ ترمیم کی منظوری کے بعد وزیراعظم کے خلاف بھی دوران مدت فوجداری مقدمات میں کارروائی نہیں ہوسکے گی۔ذرائع کے مطابق مجوزہ ترمیم کے تحت آئین کے آرٹیکل 248میں لفظ صدر کے ساتھ وزیراعظم بھی شامل کر لیا جائے گا۔ جس کے بعد دورانِ مدتِ اقتدار وزیرِاعظم کے خلاف فوجداری کارروائی نہیں ہو سکے گی۔ مشترکہ قائمہ کمیٹی کا اجلاس اسلام آباد میں چیئرمین فاروق ایچ نائیک کی زیرِ صدارت منعقد ہوا جو تفصیلی غور و خوض کے بعد ختم ہو گیا۔ قانون وانصاف کی مشترکہ کمیٹی کااجلاس اتوار کوصبح ساڑھے گیارہ بجے دوبارہ ہوگا۔ وفاقی وزی اعظم نذیر تارڑ کا کہنا ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کو دعوت دی ہے، ارکان کی جانب سے سوالات اٹھائیگئے، اتفاق رائے ہونے تک مشاورت جاری رہیگی۔ اجلاس کے دوران وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے اراکین کو تفصیلی بریفنگ دی۔ جمیعت علمائے اسلام (ف) نے مشترکہ کمیٹی کے کام کے طریقہ کار پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اجلاس کا بائیکاٹ کیا اور واک آٹ کیا۔ جے یو آئی ف کی رہنما سینیٹر عالیہ کامران کا کہنا ہے کہ 27ویں ترمیم کا شور تھا لیکن ہم سے شیئر نہیں کیاگیاتھا، ایم کیوایم کے وفد نے ایک شق کے حوالے سے ہم سے رابطہ کیا، 26ویں ترمیم میں جو چیز واپس لی اب27ویں ترمیم میں لائی جا رہی ہیں۔ سینیٹر جے یو آئی کا کہنا تھا کہ قومی اسمبلی میں بل پیش نہیں ہوا، ارکان کیسے رائے دے سکتے ہیں، کیا قومی اسمبلی غیر اہم ہیکہ بل قائمہ کمیٹی سے منظور کروا لیا۔
#/S




