صدر مملکت نے جسٹس طارق محمود جہانگیری کے ڈی نوٹیفکیشن کی منظوری دیدی
اسلام آباد ہائیکورٹ نے ڈگری کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے جسٹس طارق جہانگیری کی بطور جج تعیناتی کالعدم قرار دیدی تھی اور جج کے عہدے سے ہٹانے کا حکم دیا تھا۔
طارق جہانگیری بطور جج تعیناتی کے وقت ایل ایل بی کی درست ڈگری نہیں رکھتے تھے، طارق جہانگیری کی بطور جج تعیناتی غیر قانونی تھی، وزارت قانون کو ڈی نوٹیفائی کرنے کا حکم د ے دیا
عدالتی حکم یہ چھپایا کہ سندھ ہائیکورٹ نے ڈیکلریشن معطل کر رکھا ہے، رجسٹرار کراچی یونیورسٹی کے حقائق چھپانے پر ان کے خلاف سندھ ہائیکورٹ میں توہین عدالت کی درخواست دائر کر رکھی ہے، سندھ ہائیکورٹ نے کراچی یونیورسٹی کا ڈیکلریشن سمیت تمام کاروائی معطل کر رکھی ہے۔
بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ کراچی یونیورسٹی نے تسلیم کیا ڈگری جاری کی جس کو کینسل کیا، رجسٹرار کراچی یونیورسٹی نے تسلیم کیا یہ فیک ڈگری کا نہیں بلکہ بے ضابطگی پر کینسل کرنے کا کیس ہے۔ یہ ابھی طے ہونا ہے کراچی یونیورسٹی 40 سال بعد سچ کہہ رہی ہے یا نہیں،

.jpg)
معزول شدہ جج طارق محمود جہانگیری کو وزارت قانون و انصاف نے باضابطہ طور پر ڈی نوٹیفائی کر دیا۔
.jpg)
واضح رہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے ڈگری کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے جسٹس طارق جہانگیری کی بطور جج تعیناتی کالعدم قرار دیدی تھی اور جج کے عہدے سے ہٹانے کا حکم دیا تھا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سردار محمد سرفراز ڈوگر اور جسٹس محمد اعظم خان پر مشتمل ڈویژن بنچ نے جسٹس طارق محمود جہانگیری کی تعیناتی کو کالعدم قرار دیتے ہوئے وفاقی وزارت قانون کو ڈی نوٹیفائی کرنے کا حکم دیا تھا اور کہا تھا کہ جسٹس طارق محمود جہانگیری ایڈیشنل جج اور بعدازاں مستقل جج بننے کے وقت قابل قبول ایل ایل بی کی ڈگری کے حامل نہیں تھے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے ڈگری کیس میں جسٹس طارق جہانگیری کی بطور جج تعیناتی کالعدم قرار دے دی
اسلام آباد: (ما نیٹرنگ ڈیسک ) اسلام آباد ہائیکورٹ نے ڈگری کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے جسٹس طارق جہانگیری کی بطور جج تعیناتی کالعدم قرار دے دی اور جج کے عہدے سے ہٹانے کا حکم دے دیا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سرفراز ڈوگر اور جسٹس اعظم خان پر مشتمل ڈویژن بنچ نے ڈگری کیس سے متعلقہ فیصلہ سنا دیا، عدالت نے وزارت قانون کو طارق محمود جہانگیری کو ڈی نوٹیفائی کرنے کا حکم دے دیا۔ فیصلہ میں کہا گیا کہ طارق جہانگیری بطور جج تعیناتی کے وقت ایل ایل بی کی درست ڈگری نہیں رکھتے تھے، طارق جہانگیری کی بطور جج تعیناتی غیر قانونی تھی،طارق محمود جہانگیری جج کا عہدہ رکھنے کے اہل نہیں تھے۔ عدالت نے جسٹس طارق جہانگیری کے خلاف دائر میاں داؤد ایڈووکیٹ کی درخواست منظور کر لی اور جسٹس طارق محمود جہانگیری کی درخواستیں مسترد کر دیں۔
جسٹس طارق محمود جہانگیری کی جانب سے فل کورٹ تشکیل دینے سے متعلق درخواست مسترد کی گئی، جسٹس طارق محمود جہانگیری کی سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے تک کیس ملتوی کرنے کی درخواست بھی مسترد کی گئی، جسٹس طارق محمود جہانگیری کی بنچ پر اعتراض کی درخواست بھی مسترد کی گئی۔
قبل ازیں جسٹس جہانگیری ڈگری کیس کی سماعت ہوئی، بیرسٹر صلاح الدین، اکرم شیخ ، راجہ علیم عباسی و دیگر نے دلائل دیئے، وکلا کے دلائل سن کر ججز چیمبر میں روانہ ہوگئے تھے۔
دوران سماعت درخواست گزار میاں داؤد ایڈووکیٹ نے دلائل دیے، بیرسٹر صلاح الدین نے دو درخواستوں پر، اکرم شیخ نے ایک درخواست پر دلائل دیے۔
بیرسٹر صلاح الدین نے کیس کو غیر معینہ مدت تک ملتوی کرنے کی استدعا کی اور مؤقف اپنایا کہ جواب جمع کرانے کے لیے 30 دن کا وقت دی، یہ معاملہ سندھ ہائی کورٹ کا دائرہ اختیار ہے، اس عدالت کے سامنے قابل سماعت نہیں، میرٹ پر دلائل نہیں دے رہا، صرف اپنی درخواستوں پر دلائل دے رہا ہوں۔
بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ ڈیڑھ سال سے پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے کہ ڈگری جعلی ہے، ڈگری جعلی ہے، آج رجسٹرار کراچی یونیورسٹی نے یہاں تسلیم کیا کہ ایل ایل بی پارٹ ون ٹو تھری میں وہ موجود تھے، رجسٹرار کراچی یونیورسٹی نے یہ کہا ہے ان کی ڈگری کے پراسس میں بےضابطگی تھی۔
بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ کراچی یونیورسٹی نے تسلیم کیا ڈگری جاری کی جس کو کینسل کیا، رجسٹرار کراچی یونیورسٹی نے تسلیم کیا یہ فیک ڈگری کا نہیں بلکہ بے ضابطگی پر کینسل کرنے کا کیس ہے۔
انہوں نے استدلال کیا کہ یہ ابھی طے ہونا ہے کراچی یونیورسٹی 40 سال بعد سچ کہہ رہی ہے یا نہیں، رجسٹرار کراچی یونیورسٹی نے سندھ ہائیکورٹ کے سامنے حکم امتناع پر اعتراض نہیں کیا۔
بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ کراچی یونیورسٹی نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں جواب جمع کرایا لیکن یہ چھپایا کہ سندھ ہائیکورٹ نے ڈیکلریشن معطل کر رکھا ہے، رجسٹرار کراچی یونیورسٹی کے حقائق چھپانے پر ان کے خلاف سندھ ہائیکورٹ میں توہین عدالت کی درخواست دائر کر رکھی ہے، سندھ ہائیکورٹ نے کراچی یونیورسٹی کا ڈیکلریشن سمیت تمام کاروائی معطل کر رکھی ہے۔
بیرسٹر صلاح الدین نے دلیل دی کہ یہ عدالت اس صورت حال میں کیس کی کاروائی آگے نہیں بڑھا سکتی، چیف جسٹس نے بیرسٹر صلاح الدین سے استفسار کیا کہ کیا آپ نے ابھی جواب جمع نہیں کرایا ؟ بیرسٹر صلاح الدین نے جواب دیا کہ کل تین بجے ایچ ای سی کا ریکارڈ ہمیں ملا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے سندھ ہائی کورٹ میں جواب جمع کرایا یہاں کیوں نہیں کرا رہے۔
وکلا کے دلائل سن کر ججز چیمبر میں روانہ ہوگئے اور ساڑھے تین بجے فیصلہ سنا دیا جس میں جسٹس طارق محمود جہانگیری کو جج کے عہدے کے لیے نااہل قرار دیا گیا اور جج کے عہدے سے ہٹانے کا حکم دے دیا گیا۔رایا لیکن یہ چھپایا کہ سندھ ہائیکورٹ نے ڈیکلریشن معطل کر رکھا ہے، رجسٹرار کراچی یونیورسٹی کے حقائق چھپانے پر ان کے خلاف سندھ ہائیکورٹ میں توہین عدالت کی درخواست دائر کر رکھی ہے، سندھ ہائیکورٹ نے کراچی یونیورسٹی کا ڈیکلریشن سمیت تمام کاروائی معطل کر رکھی ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کی آفیشل ویب سائٹ سے جسٹس طارق جہانگیری کا نام اور تصویر ہٹا دی گئی

اسلام آباد ہائی کورٹ کی آفیشل ویب سائٹ سے جسٹس طارق جہانگیری کا نام اور تصویر ہٹا دی گئی۔
ذرائع کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کی نئی سنیارٹی لسٹ بھی جلد جاری کئے جانے کا امکان ہے، طارق جہانگیری کو تین روز قبل فنانشل انسٹی ٹیوشن سے متعلق سپیشل بنچز میں شامل کیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ اسلام آبادہائیکورٹ نے جسٹس طارق جہانگیری کے خلاف جعلی ڈگری کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے اُنہیں بطور جج نااہل قرار دے دیا تھا، عدالتی فیصلے کے مطابق طارق جہانگیری بطور جج تعیناتی کے وقت ایل ایل بی کی درست ڈگری نہیں رکھتے تھے، ان کی بطورجج تعیناتی غیر قانونی تھی۔
عدالت کی جانب سے کہا گیا تھا کہ طارق محمود جہانگیری جج کا عہدہ رکھنے کے اہل نہیں تھے، اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ وزارت قانون کو ہدایت دی جاتی ہے کہ جسٹس طارق جہانگیری کو بطور جج ڈی نوٹیفائی کیا جائے۔
دورانِ سماعت کراچی یونیورسٹی کے رجسٹرار نے ڈگری سے متعلق مکمل اوریجنل ریکارڈ پیش کیا جبکہ جسٹس طارق جہانگیری عدالت کے سامنے پیش نہیں ہوئے۔
رجسٹرار کراچی یونیورسٹی نے عدالت کو بتایا کہ طارق محمود جہانگیری کو امتحان کے دوران نقل کرتے ہوئے پکڑا گیا تھا اور ایگزامنر کو دھمکیاں دینے کے باعث ان پر تین سال کی پابندی عائد کی گئی تھی، انہوں نے مزید بتایا کہ ملزم نے ایل ایل بی کے امتحانات جعلی انرولمنٹ فارم کے ذریعے دیئے اور مختلف مراحل پر اپنا نام اور ولدیت تبدیل کی تھی۔
رجسٹرار کے مطابق ایل ایل بی پارٹ ون میں طارق جہانگیری ولد محمد اکرم جبکہ پارٹ ٹو میں طارق محمود ولد قاضی محمد اکرم کے نام استعمال کئے گئے تھے، جبکہ انرولمنٹ نمبر بھی جعلی تھا۔





