جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے جو قانو نی نکات اٹھائے وہ نظر ثانی درخواستوں میں نہیں اٹھائے جا سکتے، نظر ثانی کا دائرہ اختیار بہت محدود ہوتا ، حکومتی وکیل کے دلائل
کیس کی سماعت جمعہ تک ملتوی
اسلام آباد (ویب ڈیسک)
سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائزعیسی نظرثانی کیس کی سماعت کے دوران جسٹس عمر عطا بندیال نے کہاہے کہ سپریم کورٹ کیلئے یہ حساس ترین مقدمہ ہے جس میں ججز کچھ وضاحت چاہتے ہیں تو سوال بھی کریں گے،سب کو کوشش کرنی چاہیے کہ ہم جذباتی نہ ہوں۔ وفا قی حکومت کے وکیل نے دلائل میں موقف اپنایا ہے کہ جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے جو قانو نی نکات اٹھائے ہیں وہ نظر ثانی درخواستوں میں نہیں اٹھائے جا سکتے کیونکہ نظر ثانی کا دائرہ اختیار بہت محدود ہوتا ہے، سپریم کورٹ حج کرپشن کیس میں ملزمان کو سنے بغیرتحقیقات اورآف شور کمپنیوں کیخلاف بھی کارروائی کا حکم دے چکی ہے۔ دوران سماعت بینچ کے رکن ججزمیں تلخی بھی ہوئی جس کی وجہ سے سماعت میں مختصر وقفہ کرنا پڑا۔ جمعرات کوجسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں دس رکنی فل کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسی نظر ثانی کیس کی سماعت شروع کی تو وفاقی حکومت کے وکیل ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ چند گزارشات پیش کرنا چاہتا ہوں کہ جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ سرینا عیسی کو کیس کی سماعت کے دوران سماعت کا پورا موقع دیا گیا تھا۔ ایک جج پر حرف آنا پوری عدلیہ پر حرف آنے کے برابر ہے۔ ایف بی آر کو ڈیڈ لائینز دینے کی وجہ بھی کیس کا جلد فیصلہ کرنا تھا۔ عامر رحمان نے مزید کہا کہ باضابطہ سماعت کا طریقہ کار کیا ہو گا تعین کرنا عدالت کا کام ہے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ حکومت صرف کیس لٹکانے کی کوشش کررہی ہے۔ حکومت چاہتی ہے جسٹس منظوراحمد ملک کی ریٹائرمنٹ تک کیس لٹکایا جائے۔جسٹس عمر عطابندیال نے کہاکہ سرینا عیسی نے سماعت نہ ہونے کے حوالے سے قانونی حوالے نہیں دیئے۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمن نے کہاکہ میرے دلائل پر اعتراض کیا جارہا ہے۔ ایسا ہی کرنا ہے تو ہم سے تحریری دلائل لے لیے جائیں۔ جسٹس عمر عطابندیال نے کہاکہ آپ کے دلائل پر اعتراض نہیں ہمیں آپکی معاونت چاہیے۔ جسٹس فائز عیسی نے میرے کنڈکٹ پر بات کی ہے۔ اس پرجسٹس عمر عطابندیال نے کہاکہ جسٹس فائز عیسی کی بات غیر مناسب تھی۔جسٹس منظور احمد ملک نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے کہا کہ عامر رحمان صاحب آپ اچھے انسان ہیں اپنی بات ختم کریں۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمن نے کہاکہ سرینا عیسی کے لیے متعلقہ فورم ایف بی آر ہی تھاعدالت نے سرینا عیسی کے خلاف کوئی حکم جاری نہیں کیا تھا ۔ سماعت کی ضرورت کسی کے خلاف فیصلہ دینے کے لیے ہوتی ہے۔ کیس ایف بی آر کو بھجوانے سے پہلے بھی سرینا عیسی کو سنا گیا۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مداخلت کرتے ہوئے کہاکہ وفاقی حکومت نے کوئی نظر ثانی درخواست دائر نہیں کی۔ ایف بی آر کا معاملہ میری اہلیہ اور ادارے کے درمیان ہے۔جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ معلوم نہیں ایف بی آر عدالتی حکم کے بغیر کارروائی کرتا یا نہیں، ایف بی آر نے تعین کرکے سرینا عیسی کیخلاف رپورٹ دیدی ،ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمن نے کہاکہ یہ فرض کیا گیا کہ ایف بی آر کارروائی نہیں کرتا،سپریم کورٹ آف شور کمپنیوں کیخلاف کارروائی کا حکم دے چکی ہے، ایف بی آر کارروائی نہ کرتا تو توہین عدالت ہوتی، جسٹس یحیی آفریدی نے کہاکہ عدالتی حکم میں سپریم جوڈیشل کونسل کے اختیارات استعمال کیے گئے، جسٹس منصور علی شاہ نے سوال اٹھایا کہ کوئی ایسا قانون بتائیں خاوند کیخلاف انکوائری بند ہوکر بیوی کیخلاف شروع ہو جائے،عامر رحمن نے کہاکہ ایف بی آر نے اگر غلطی کی ہے تو اس بنا پر نظر ثانی نہیں ہو سکتی، ایف بی آر میں جو کارروائی ہوئی وہ عدالتی فیصلے کا نتیجہ تھا،سرینا عیسی نے ایف بی آر میں اپنا موقف اور دستاویزات پیش کیں، نظر ثانی درخواستوں میں یہ نقاط نہیں اٹھائے جا سکتے کیونکہ نظر ثانی کا دائرہ اختیار بہت محدود ہوتا ہے،اس دوران سرینا عیسیٰ نے کہاکہ میرا بیان ریکارڈ کا حصہ نہیں ہے، میرے بیان کی ویڈیو ہے تو عدالت میں چلائیں، جسٹس عمر عطابندیال نے سرینا عیسی سے کہاکہ آپکے بیان کا متن عدالتی حکم نامے کا حصہ ہے،سرینا عیسی نے سوال اٹھایا کہ میرے بیان کا متن کس نے اور کیسے تحریر کیا؟جسٹس عمر عطابندیال نے کہاکہ سپریم کورٹ کی متعلقہ برانچ نے بیان کامتن لکھا اور آپکو کاپی بھی دی تھی۔اس دوران جسٹس منیب اختر اور جسٹس مقبول باقر میں تلخ جملوں کا تبادلہ ہوگیا جسٹس مقبول باقر نے کہاکہ عامر رحمان صاحب دلائل کو مختصر رکھیں، دوسرے فریق کو بھی وقت کی قلت کا کہتے رہے ہیں، جسٹس منیب اختر نے کہاکہ عامر رحمان صاحب ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں، جسٹس مقبول باقر نے جسٹس منیب اخترسے کہا کہ آپ میری بات میں مداخلت نہ کریں، جسٹس منیب اختر نے کہاکہ میں سوال پوچھنا چا رہا ہوں، یہاں کوئی ریس تو نہیں لگی ہوئی، جسٹس مقبول باقر نے کہاکہ کسی سینئر کی بات میں مداخلت کا یہ طریقہ نہیں ہے،کوئی کسی خاص وجہ سے تاخیر چاہتا ہے تو الگ بات ہے،جسٹس عمر عطابندیال نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے کہاکہ آپ پورا عدالتی فیصلہ پڑھنے کے بجائے متعلقہ لائن پڑھیں، جسٹس مقبول باقر نے کہاکہ پوری دنیا کیس دیکھ رہی ہے عدالتی وقار کا بھی خیال رکھنا ہوگا، جسٹس منیب اختر نے کہاکہ نظر ثانی کا دائرہ محدود ہوتا ہے کیا کوئی جج اپنا فیصلہ تبدیل کر سکتا ہے، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ نظر ثانی میں فیصلہ یکسر تبدیل نہیں ہو سکتا، جسٹس منیب نے کہاکہ فیصلہ تبدیل کرنے اور نظر ثانی میں فرق ہوتا ہے، دوران سماعت جسٹس مقبول باقر اور جسٹس سجاد علی شاہ میں بھی اس وقت تلخی پیدا ہوگئی جب جسٹس سجاد علی شاہ نے کہاکہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان کیلئے یاتو وقت مقرر کریں یا دلائل پورے کرنے دیں۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے کہاکہ بار بار وکیل کو ٹوکتے رہے تو میں اٹھ کر چلا جاؤں گا، جسٹس مقبول باقر نے اٹھ کرکہا کہ تو میں بھی جا سکتا ہوں، حکومتی وکیل نے کہاکہ مناسب ہوگا کہ عدالت دس منٹ کا وقفہ کر لے،جسٹس مقبول باقر نے کہاکہ دس منٹ کے وقفے سے کیا ہوگا؟ سپریم کورٹ نے ججز کے درمیان تلخی پر دس منٹ کا وقفہ کر دیامختصر وقفے کے بعد ججز واپس آئے اور کیس کی سماعت کا دوبارہ آغاز ہوا تو بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطابندیال کا کہنا تھا کہ جب آپ پانی نہ پی سکیں تو تازہ ہوا میں سانس لیناکافی ہوتا ہے۔ روزہ کی وجہ سے ہم بھی تازہ ہوا میں سانس لیکر آئے ہیں۔ اس دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمن نے کہاکہ جسٹس مقبول باقر کو میری کوئی بات بری لگی ہو تو معذرت خواہ ہوں۔ جسٹس عمر عطابندیال نے مزاحا کہاکہ جسٹس مقبول باقر بینچ کی محبوبہ ہیں۔ جسٹس مقبول باقر نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے کہاکہ آپکی کوئی بات مجھے بری نہیں لگی۔عامر رحمن نے کہاکہ آرٹیکل 187 کے تحت سپریم کورٹ کے اختیارات پر بات کروں گا۔ اس موقع پر جسٹس قاضی فائز عیسی نے ایک بار پھردلائل کے دوران مداخلت کی کوشش کی تو جسٹس منظور ملک نے کہاکہ قاضی صاحب آپکی بہت مہربانی بیٹھ جائیں،بار بار کاروائی میں مداخلت نہ کریں۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمن نے موقف اپنایاکہ کہا جا رہا ہے کہ سرینا عیسی کا کیس ایف بی آر کو نہیں بھیجا جاسکتاحالانکہ سپریم کورٹ کے اختیارات پر عدالتی فیصلے موجود ہیں ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ حج کرپشن کیس ملزمان کو سنے بغیر تحقیقات کے لیے بھیجا گیا تھا، سرینا عیسی کا موقف تو عدالت نے ویڈیو لنک پر سنا تھا، جسٹس عمر عطابندیال نے کہاکہ وقت محدود ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ کسی کو موقف دینے سے روکیں،آپکو دلائل مکمل کرنے کے لیے کتنا وقت درکار ہوگا؟کوشش کریں گے آج جمعہ کو ڈیرھ گھنٹہ کیس کی سماعت کریں گے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہاکہ ججز کچھ وضاحت چاہتے ہیں تو سوال بھی کریں گے،سب کو کوشش کرنی چاہیے کہ ہم جذباتی نہ ہوں،سپریم کورٹ کے لیے یہ حساس ترین کیس ہے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ حامد خان نے جو نقاط اٹھائے ہیں انکا جواب دوں گا، کوشش کروں گا آج جمعہ کو اپنے دلائل مکمل کر لوں،جسٹس عمر عطابندیال نے کہاکہ ٹیکس کمشنر زولفقار احمد کا حکم بھی آج جمعہ کو جمع کرائیں،جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے کہاکہ یہ بھی بتائیے گا کیا نظر ثانی میں ہم ٹیکس کمشنر کا حکم دیکھ سکتے ہیں؟جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہاکہ عدالتی فیصلے میں نہیں کہا گیا کہ سرینا عیسی کا کیس آرٹیکل 187 کے تحت ایف بی آر کو بھیجا گیا، مکمل انصاف کا تقاضا ہے کہ کیس کو جلد مکمل کیا جائے، عدالت نے کیس کی سماعت آج جمعہ تک ملتوی کردی.