اسلام آباد: (دنیا نیوز) وفاقی بجٹ کا حجم 8 ہزار 487 ارب روپے ہو گا، خسارے کا تخمینہ 3 ہزار 990ارب روپے ہو گا، دفاع کیلئے 1370 ارب روپے اور قرضوں اور سود کی ادائیگی کیلئے 3 ہزار 60 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، کم سے کم تنخواہ 20 ہزار مقرر کی گئی ہے، پنشن میں 10 فیصد اضافہ کیا جائے گا۔

شوکت ترین کی طرف سے پیش کیے گئے بجٹ کے اہم نکات :
1. وفاقی بجٹ کا حجم 8 ہزار 487ارب روپے رکھا گیا ہے،20 ارب کے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو اپریل 2021ء میں سر پلس کیا گیا۔ بسڈی کاتخمینہ 682ارب لگایا گیا۔

2. عمران خان کی قیادت میں معیشت کو کئی طوفانوں سے نکال کر ساحل تک لائے، احساس پروگرام کی نقد امداد میں اضافہ کیا، ہم استحکام سے معاشی نمو کی جانب گامزن ہوئے ہیں۔

3. حکومت ملک کو ترقی کی راہ پر ڈالنے میں کامیاب ہوئی ہے، معاشی ترقی ہر شعبے میں ریکارڈ کی گئی ہے۔

4. کپاس کے علاوہ تمام فصلوں کی پیداوار میں اضافہ ہوا۔

5. سروسز شعبے میں نمایاں اضافہ ہوا، جس سے غربت میں کمی آئی۔

6. کورونا وائرس کی تیسری لہر میں بڑے پیمانے پر کاروبار کی بندش سے اعتراض کیا، ماضی میں حکومت کو اس طرح کے برے حالات کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔وباء سے نمٹنے کے لیے 100 ارب روپے رکھے جا رہے ہیں۔

7. فی کس آمدنی میں 15 فیصد اضافہ ہوا ہے، کم سے کم اجرت 20 ہزار روپے ماہانہ کی جا رہی ہے، وفاقی سرکاری ملازمین کو 10 فیصد ایڈہاک ریلیف فراہم کیا جائے گا، تمام پنشنرز کی پنشن میں 10 فیصد اضافہ کیا جائے گا، اردلی الاؤنس 14 ہزار روپے سے بڑھا کر ساڑھے 17 ہزار روپے کیا جا رہا ہے۔

8. لارج اسکیل مینوفیکچرنگ کے شعبے میں روزگار کے مواقع پیدا ہوئے۔ کورونا وائرس کی وباء کے باوجود فی کس آمدنی میں 15 فیصد اضافہ ہوا۔ اس سال ایکسپورٹ میں 14 فیصد اضافہ ہوا۔

9. ملک میں ٹیکسوں کی وصولی 4 ہزار ارب کی نفسیاتی حد عبور کر چکی ہے، ٹیکس وصولیوں میں 18 فیصد بہتری آئی ہے، ٹیکس ری فنڈ کی ادائیگی میں 75 فیصد اضافہ کیا ہے، اس سال ایکسپورٹ میں شاندار نمو دیکھنے میں آئی۔

10. ترسیلاتِ زر میں 25 فیصد ریکارڈ اضافہ ہوا ہے، روپے کی قدر میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ الیکٹرک گاڑیوں کے لیے سیلز ٹیکس کی شرح میں 17 فیصد سے ایک فیصد تک کمی۔ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 2018ء میں ایک بہت برا چیلنج تھا اس پر قابو پالیا گیا ہے ۔ اوورسیز پاکستانیوں نے کھاتوں میں بہتری لانے میں اہم کردار ادا کیا۔

11. کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ سرپلس ہو گیا ہے۔ بیرونِ ملک سے ترسیلات میں اضافہ عمران خان کی قیادت پر اعتماد ہے۔ ٹیلی مواصلات پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی شرح میں 17فیصد سے 16 فیصد کمی کی تجویز ہے۔ بیرونِ ملک سے ترسیلات میں 25 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

12. گزشتہ سال کے مقابلے میں خام تیل کی قیمت میں 180 فیصد اضافہ ہوا۔ چینی کی سطح پر بین الاقوامی سطح پر 56 فیصد اضافہ ہوا، ملکی سطح پر چینی کی قیمت میں 18 فیصد اضافہ ہوا۔ اگلے سال کیلئے معاشی ترقی کا ہدف 4.8 رکھا ہے۔ روزگار کے مواقع پیدا کریں گے، برآمدات میں اضافہ کیا جائے گا۔

13. کنسٹرکشن انڈسٹری سے وابستہ صنعتوں کو فروغ ملا ہے۔ ہاؤسنگ اسکیموں کیلئے ٹیکسوں میں رعایت کا پیکیج وضع کیا گیا ہے۔ کم آمدنی والوں کیلئے گھروں کی تعمیر کیلئے 3 لاکھ کی سبسڈی دی جا رہی ہے، بینکوں کو مکانات کی تعمیر کیلئے ایک سو ارب روپے قرض کی درخواست ملی ہے۔

14. مکانات کی تعمیر کیلئے 70 ارب روپے کی منظوری ہو چکی ہے، ادائیگی جاری ہے، اس وقت پاکستان میں ایک کروڑ رہائشی مکانات کی کمی ہے، ہم تاریخ کا رخ موڑنا چاہتے ہیں۔

15. کراچی ٹرانسفارمیشن پلان کے لیے 739 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے، وفاقی حکومت کراچی ٹرانسفارمیشن پلان کے لیے 98 ارب روپے دے گی، کراچی ٹرانسفارمیشن پلان کے لیے سرکاری و نجی شعبے کے اشتراک سے 509 ارب روپے شامل ہوں گے۔

16. داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ سے بجلی پیدا کرنے کے لیے 8 5 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے، اس پراجیکٹ کے پہلے مرحلے کے لیے 57 ارب روپے مختص کیئے گئے ہیں۔

17. تین بڑے ڈیموں داسو، بھاشا اور مہمند کی تعمیر ہماری ترجیح ہوگی، دیامر بھاشا ڈیم کے لیے 23 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے، مہمند ڈیم کے لیے 6 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے، نیلم جہلم پاور پراجیکٹ کے لیے 14 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے، آبی تحفظ کے لیے 91 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

18. احساس پروگرام کے تحت ایک درجن سے زائد پروگراموں کا آغاز کیا گیا ہے۔ زرعی شعبے کے لیے 12 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے، ٹڈی دل اور فوڈ سیکیورٹی پراجیکٹ کے لیے 1 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔

19. چاول، گندم، کپاس، گنے اور دالوں کی پیداوار بڑھانے کے لیے 2 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے، زیتون کی کاشت بڑھانے کے لیے 1 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔

20. کسانوں کو 31 سو ارب روپے آمدن ہوئی جو گزشتہ سال 23 سو ارب روپے تھی، گندم، گنے، چاول کی پیداوار میں اضافہ ہوا ہے، اگلے سال زرعی شعبے کیلئے 12 ارب روپے مختص کیئے ہیں۔

21. ترقیاتی بجٹ کو 630 ارب سے بڑھا کر 900 ارب روپے کرنے کی تجویز ہے، ترقیاتی بجٹ میں 40 فیصد سے زیادہ کا اضافہ کر رہے ہیں۔

22. اگلے دو سے تین سال میں 6 سے 7 فیصد گروتھ کے اقدامات کر رہے ہیں، اگلے مالی سال کے لیے معاشی ترقی کا ہدف 4 اعشاریہ 8 فیصد رکھا ہے۔

23. کورونا سے نمٹنے کے لیے 100 ارب روپے رکھے جائیں گے، تنخواہ دار پر کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جائے گا، ٹیکس نظام کو سادہ بنانے کے لیے نئے قوانین لا رہے ہیں۔

24. سندھ کے لیے 14 سے زائد ترقیاتی منصوبے شروع کیے جائیں گے۔ ٹیلی کام سیکٹر کے لیے ایکسائز ڈیوٹی 17 سے 16 فیصد کر دی گئی۔ 850 سی سی گاڑیوں میں ساڑھے چار فیصد ٹیکس کی چھوٹ دی جائے گی۔ چھوٹی گاڑیوں پر سیلز ٹیکس 17 سے 12.5 فیصد کیا جا رہا ہے۔

25. آزادکشمیرکے لیے 60 ارب روپے مختص کیے گئے، گلگت بلتستان کےلیے 47 ارب روپے مختص کیے گئے۔ ہائرایجوکیشن پر 66 ارب روپے خرچ کیے جائیں گے۔ بجلی کی ترسیل کیلئے 118ارب روپے مختص کیے جائیں گے۔ موبائل فون کے استعمال پر ود ہولڈنگ ٹیکس میں کمی کی جا رہی ہے۔ 12 فیصد سے دس فیصد کیا جائے گا اور بعد میں یہ 8 فیصد ہو جائے گی۔

قومی اسمبلی میں بجٹ کی تقریر کے دوران وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں معیشت کوبحران سےنکال کرلائے۔ ہماری حکومت نے مشکل حالات کا مقابلہ کیا۔ یہ کامیابی وزیراعظم کی قیادت کے بغیرممکن نہیں تھی۔ ہمیں خراب حالات ورثے میں ملے۔ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 20ارب ڈالرکی بلند ترین سطح پرتھا۔ وزیراعظم کی سربراہی میں معیشت کو بڑے بحرانوں سے نکال لائے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بجٹ کا حجم 8ہزار 487 ارب روپے ہو گا، 20 ارب ڈالر کے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو سرپلس میں بدل دیا۔ سابق حکومت نے قرض لیکر زر مبادلہ ذخائر بڑھائے،بڑا چیلنج ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچایا تھا۔ گزشتہ دور میں درآمدات میں 100 فیصد اضافہ ہوا تھا، شرح سود مصنوعی طور پر کم رکھی گئی ، بجٹ خسارہ جی ڈی پی کا 6.6 فیصد تھا۔

وفاقی وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ آئندہ 2 سال میں 6 سے 7 فیصد گروتھ کو یقینی بنانا چاہتے ہیں، ترسیلات زرمیں ریکارڈ اضافہ بیرون ملک پاکستانیوں کا وزیراعظم پراعتماد کا اظہار ہے۔ 40ملین افرادکواحساس کےذریعےنقدامدادی رقوم دی گئی، کم آمدنی والےطبقےکواحساس پروگرام کےذریعےامدادفراہم کی گئی، صحت کےشعبےمیں خاطرخواہ اقدامات کیے۔

شوکت ترین نے کہا کہ گزشتہ مالی سال زراعت کےشعبےمیں ترقی کی شرح منفی میں تھی، رواں سال زراعت کے شعبےنے 9 فیصدترقی کی، حکومت میں آئےتوزرعی شعبےمیں ٹڈی دل حملےکاسامناکیا، زراعت کےشعبےمیں تاریخی کامیابی حاصل کی۔ ہمیں زراعت پر توجہ دینا پڑے گی اگلے سال کسانوں کو رعایتیں دیں گے، چاہتے ہیں آئندہ سال ہمیں باہر سے زرعی چیزیں منگوانی نہ پڑے۔ ہر کاشتکار گھرانے کو ڈیڑھ لاکھ بلاسود قرض ملے گا۔

انہوں نے کہا کہ کوروناوباکی دو اضافی لہروں کا سامنا کرنا پڑا، استحکام سےمعاشی نموکی طرف گامزن ہوئے، اخراجات میں کمی اور کفایت شعاری مہم پرعمل پیرا رہے، مشکل فیصلے کیے بغیر اس صورتحال سے نکلنا ممکن نہیں تھا، کورونا وبا کی وجہ سے معیشت کومستحکم کرنے میں وقت لگا۔ غذائی اجناس درآمدکرنےکی وجہ 2019میں کم پیداوارتھی۔ ادائیگیوں کےتوازن میں استحکام پیداکیا۔ برآمدات میں14فیصداضافہ ہوا۔

وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ لوگوں کی آمدنی میں اضافہ ہواہے، زرمبادلہ کےذخائر3ماہ کی درآمدات کیلئے کافی ہیں، زرمبادلہ کے ذخائر 16ارب ڈالر ہو گئے ہیں۔ برآمدات ماضی کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے، ٹیکسوں کی وصولی 4 ہزار ارب روپے کی نفسیاتی حد عبور کر چکی ہے۔ ٹیکس وصولیوں میں 18فیصداضافہ ہواہے۔

شوکت ترین کا کہنا تھا کہ سی پیک کے نئےمنصوبے 28 ارب ڈالر کے ہیں، اب تک 13 ارب ڈالر کے 17 بڑے منصوبے مکمل کیے۔ 21 ارب ڈالر کے مزید 21 منصوبوں پر کام جاری ہے۔ ریلوے کے ایم ایل ون منصوبے کے لیے 9 ارب ڈالر رکھے گئے۔ زرعی شعبے کے لیے 12 ارب مختص کیے گئے۔ ٹڈی دی ایمرجنسی اور فوڈ سکیورٹی کے لیے 12 ارب روپے مختص کیے۔ نیلم جہلم پراجیکٹ کے لیے 14 ارب روپے رکھے گئے۔ ہم نے خام تیل کی قیمتوں میں 45 فیصد اضافہ کیا ہے۔ آبی گزرگاہوں کی مرمت اور بہتری کیلئے 3 ارب روپے مختص رکھے گئے ہیں۔

اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آئندہ دو سال میں 6 سے 7 فیصد گروتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں، یہ بجٹ ترقی کا تیز خیمہ ثابت ہو گا، ملک میں ایک کروڑ مکانات کی کمی ہے، ہاؤسنگ پروگرام کی وجہ سے صنعتوں کو فروغ ملا، کم آمدنی والوں کو گھر بنانے کے لیے تین لاکھ تک سبسڈی دے رہے ہیں۔ آئندہ سال ہرگھرانےکوصحت کارڈ دیا جائے گا۔

توانائی منصوبوں کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ بڑےڈیموں کی تعمیر ترجیح ہے، بجٹ میں .بھاشا ڈیم کے لیے 23 ارب روپے رکھے گئے ہیں، مہمند ڈیم کے لیے 6 ارب روپے رکھے گئے ہیں، نیلم جہلم کے لئے 14 روپے مختص کیے گئے ہیں۔ داسو ڈیم کے لیے 57 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ جامشورو کوئل منصوبے کے لیے 22 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ کراچی کے ون منصوبے سمیت دیگر منصوبوں کے لیے ساڑھے 16 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ایم ایل ون منصوبے کو تین پیکیج مراحل میں شروع ہو گا، پہلا مرحلہ تین رواں سال مارچ میں شروع ہوچکا ہے، آخری پیکیج کا آغاز آئندہ سال 2022ء میں ہو گا۔

وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ پسماندہ علاقوں کی ترقی کے لیے فنڈز مختص کیے گئے ہیں، یہ پیکیج وزیراعظم عمران خان کے ویژن کا عکاس ہیں، اس کے لیے 100 ارب روپے رکھے گئے ہیں، کراچی ٹرانسفارمر پیکیج کے لیے 700 ارب روپے سے زائد رکھے گئے ہیں اس کے لیے 98 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پرائیویٹ پارٹنر شپ اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے فنڈز سے ملا کر 500 ارب روپے مختص کیے ہیں۔ چھوٹی صنعتوں کےفروغ کیلئے 12ارب روپےخرچ کیے جائیں گے۔ ترقیاتی بجٹ 630 سے 900ارب روپے کر رہے ہیں، بجلی کی ترسیل کیلئے 118ارب روپےمختص کیے گئے ہیں۔ ہائرایجوکیشن پر 66 ارب روپے خرچ کیے جائیں گے۔ پی آئی اے کو 20 اورپاکستان سٹیل کو 16ارب روپے دیئے جائیں گے۔ آزاد کشمیرکے لیے 60 ارب روپے مختص کیے گئے۔ گلگت بلتستان کے لیے 47 ارب روپے مختص کیے گئے۔