پولیس لاشیں خرید کر پریس کانفرنس کرتی ہے ،سندھ ہائیکورٹ
ڈکیتیوں اور چوریوں کی وارداتیں بڑھ رہی ہیں، صوبے میں لوگ مر رہے ہیں
شہید پولیس اہلکاروں کے اہلِ خانہ کو معاوضہ دینے کے معاملے پر تضاد کیوں ہے؟جسٹس آفتاب احمد گورڑ
پولیس کو بھی اختیار نہیں کہ کس شہید اہلکار کو کتنا معاوضہ دینا ہے، ایڈووکیٹ جنرل سندھ
عدالت نے کیس کی مزید سماعت یکم مارچ تک ملتوی کر دی
کراچی (ویب نیوز)
سندھ ہائی کورٹ نے انسپکٹر جنرل(آئی جی)پولیس سندھ مشتاق مہر کی سرزنش کر تے ہوئے کہا ہے کہ آئی جی صاحب! آپ سے مٹھی بھر ڈاکو کنٹرول نہیں ہو رہے، پولیس لاشیں خرید کر پریس کانفرنس کرتی ہے۔ شہید ڈی ایس پی کے اہلِ خانہ کو معاوضے کی عدم ادائیگی کے خلاف درخواست پر عدالت نے آئی جی سندھ کو ذاتی حیثیت میں طلب کیا تھا۔سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس آفتاب احمد گورڑ اور جسٹس عدنان الکریم پر مشتمل ڈویژن بنچ نے کیس کی سماعت شروع کی تو آئی جی سندھ مشتاق مہر ان کے روبرو پیش ہوئے۔ بنچ کے سربراہ جسٹس آفتاب احمد گورڑ نے مشتاق مہر کو دیکھتے ہی کہا کہ آئی جی صاحب! آپ سے سندھ میں مٹھی بھر ڈاکو کنٹرول نہیں ہو پا رہے، ڈکیتیوں اور چوریوں کی وارداتیں بڑھ رہی ہیں، صوبے میں لوگ مر رہے ہیں، پولیس والے بھی شہید ہو رہے ہیں، آپ 3 سال سے آئی جی ہیں، پولیس کے کمانڈر ہیں کچھ نہیں کر پا رہے؟۔انہوں نے کہا کہ کندھ کوٹ میں پل بن رہا ہے، ڈاکو ان سے بھی پیسے مانگ رہے ہیں، کہا گیا کہ 4 ڈاکو مار دیئے، ڈاکو پولیس نے نہیں مارے، ڈاکوئوں کے ایک گروپ نے دوسرے گروہ کے ڈاکو مارے، پولیس والے لاشیں خریدتے ہیں پھر پریس کانفرنس کر کے کریڈٹ لیتے ہیں۔جسٹس آفتاب احمد گورڑ نے ریمارکس دیئے کہ اندر سے سب ملے ہوتے ہیں، ایک دوسرے کو سپورٹ کرتے ہیں، آئے دن چوریوں اور ڈکیتیوں کی وارداتیں ہو رہی ہیں۔انہوں نے آئی جی سندھ مشتاق مہر کو متوجہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ سب آپ سے کیوں کنٹرول نہیں ہو پا رہا؟۔جسٹس آفتاب احمد گورڑ کی جانب سے سرزنش کے دوران آئی جی سندھ مشتاق مہر ہاتھ باندھ کر خاموش کھڑے رہے۔شہید ڈی ایس پی عبد المجید کے اہلِ خانہ کو حکومت کی جانب سے معاوضے کی عدم ادائیگی کے خلاف درخواست کی سماعت کے حوالے سے عدالت نے آئی جی سندھ مشتاق مہر سے پھر استفسار کیا کہ آئی جی صاحب 3 سال سے آپ آئی جی ہیں لیکن عدالتی احکامات پر عمل درآمد نہیں ہو رہا، جس افسر کو جواب جمع کرانے کا کہتے ہیں وہ کہتا ہے میری ابھی پوسٹنگ ہوئی ہے۔جسٹس آفتاب گورڑ نے استفسار کیا کہ شہید پولیس اہلکاروں کے اہلِ خانہ کو معاوضہ دینے کے معاملے پر تضاد کیوں ہے؟۔اس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ سلمان طالب الدین نے جواب دیا کہ کسی شہید پولیس اہلکار کو سندھ پولیس نے معاوضہ نہیں دیا، ڈی ایس پی عبدالفتح سانگھڑی کے اہلِ خانہ کو معاوضہ وزیراعلیٰ سندھ نے دیا تھا۔ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے مزید کہا کہ وزیرِ اعلیٰ سندھ نے اپنی صوابدید پر شہید ڈی ایس پی عبدالفتح سانگھڑی کے اہلِ خانہ کو 2 کروڑ روپے معاوضہ دیا۔درخواست گزار کے وکیل اعجاز ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ شہید ہونے والے ایک ڈی ایس پی کو 2 کروڑ روپے جبکہ دوسرے ڈی ایس پی عبدالمجید کے اہلِ خانہ کو 20 لاکھ روپے دیئے گئے۔ درخواست گزار کے وکیل نے اعتراض اٹھایا کہ ایک شہید ڈی ایس پی کے اہلِ خانہ کو 2 کروڑ روپے دوسرے کو 20 لاکھ روپے معاوضہ دینا امتیازی سلوک ہے، شہید پولیس اہلکاروں کے اہلِ خانہ کو کتنا معاوضہ دینا ہے اس حوالے سے کوئی قانون موجود ہی نہیں۔ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے جواب دیا کہ پولیس کو بھی اختیار نہیں کہ کس شہید اہلکار کو کتنا معاوضہ دینا ہے، ڈی ایس پی عبدالمجید کے معاوضے کے لیے پولیس نے محکمہ داخلہ اور خزانہ کو 18 جنوری کو خط لکھا ہے، اگر کوئی قانون موجود نہیں ہے پھر عدالت پولیس اور حکومت کو کیسے حکم نامہ جاری کر سکتی ہے؟۔ڈبل بنچ کے رکن جسٹس عدنان الکریم نے ریمارکس دیئے کہ وزیرِ اعلی نے بھی کسی شہید اہلکار کو زیادہ رقم دی تو وہ بھی غلط دی۔عدالت نے سوال اٹھایا کہ وزیرِ اعلی سندھ پبلک منی کسی کو اپنی مرضی سے کیسے دے سکتے ہیں؟۔عدالت نے واضح کیا کہ سپریم کورٹ بھی واضح کر چکی ہے کہ وزیرِ اعظم یا وزیرِ اعلی پبلک منی کا اپنے صوابدیدی اختیارات کے تحت استعمال نہیں کر سکتے۔عدالت نے کیس کی مزید سماعت یکم مارچ تک ملتوی کر دی۔