دیامر بھاشا اور مہمند ڈیمز فنڈز کیس کی سماعت،
ہم توڈیم نہیں بناسکتے توعملدرآمد کس بات کاکررہے ہیں،ڈیم فنڈز کی رقم ہم اپنے پاس نہیں رکھ سکتے،  چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ
  ابھی جوپیسے ہیں وہ کہاں ہیں،کیا آئین میں کوئی گنجائش ہے کہ ہم ڈیم کی تعمیر کی نگرانی کریں؟
 سپریم کورٹ اپنے احکامات پر عملدرآمد کے لئے عملدآمد بینچ نہیں بناسکتی
 سپریم کورٹ کاسابق اٹارنی جنرل خالدجاوید خان، سابق اٹارنی جنرل انورمنصور خان اور عدالتی معاون مخدوم علی خان کونوٹس جاری، آئندہ سماعت پر طلب
 تمام فریقین کوبھی نوٹس جاری ،آئندہ سماعت پر جواب طلب ۔ کیس کی آئندہ سماعت 3ہفتے بعدہوگی

اسلام آباد(صباح نیوز)

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ ڈیموں کی تعمیر کے حوالہ سے ہم کیوں پیش رفت رپورٹ مانگ رہے تھے، کیا صرف کاغذکاٹکڑا مانگا تھا جس کوپڑھنا ہی نہیں تھا، کیا رپورٹ کامقصد سپریم کورٹ کو تعلیم دینا تھا، کیوں، پارلیمنٹ اورحکومت کی بجائے سپریم کورٹ کوپیش رفت رپورٹ واپڈا نے دینا تھی،ہماری توکوئی تکنیکی مہارت نہیں، کیا واپڈا سورہا تھا اس لئے رپورٹ مانگی تھی۔ عملدرآمد بینچ کرے گا کیا ؟ ہم توڈیم نہیں بناسکتے توعملدرآمد کس بات کاکررہے ہیں، کیاسپریم کورٹ عملدرآمد بینچ بناسکتی ہے، آئین میں کہاں سے یہ اختیارلیا گیا کہ آپ یہ کرسکتے ہیں، سپریم کورٹ اپنے احکامات پر عملدرآمد کے لئے عملدآمد بینچ نہیں بناسکتی، صوبہ کی متعلقہ سول عدالت عملدرآمد کرنے والی عدالت ہوگی۔ڈیم فنڈز کی رقم ہم اپنے پاس نہیں رکھ سکتے، ابھی جوپیسے ہیں وہ کہاں ہیں، ان کوکون جاری کرتا ہے اورکون دستخط کرتا ہے۔ کل کوکوئی حادثہ ہوتا ہے توکیا سپریم کورٹ ذمہ دارہوگی، کیا آئین میں کوئی گنجائش ہے کہ ہم ڈیم کی تعمیر کی نگرانی کریں۔جبکہ عدالت نے سابق اٹارنی جنرل خالدجاوید خان، سابق اٹارنی جنرل انورمنصور خان اور عدالتی معاون مخدوم علی خان کونوٹس جاری کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر طلب کرلیا۔ عدالت نے تمام فریقین کوبھی نوٹس جاری کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر جواب طلب کرلیا۔جبکہ عدالت نے قراردیا ہے کہ آڈیٹر جنرل آف پاکستان خودآئندہ سماعت پر حاضر ہوں یا سینئر افسر کونامزد کریں جورقم کی منتقلی کے حوالہ سے عدالت کی رہنمائی کرے۔ عدالتی حکم کی کاپی اٹارنی جنرل اور عدالتی معاون کو بھجوائی جائے۔ کیس کی آئندہ سماعت 3ہفتے بعد منعقد ہوگی۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس عرفان سعادت خان، جسٹس نعیم اخترافغان اور جسٹس شاہد بلال حسن پر مشتمل 4رکنی لارجر بینچ نے بدھ کے روز دیامر بھاشا اور مہمند ڈیمز فنڈز کیس کی سماعت کی۔ دوران سماعت درخواست گزار وفاقی حکومت کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل چوہدری عامر رحمان جبکہ واپڈا کی جانب سے سعد رسول ایڈووکیٹ، زاہدخان اوردیگر کی جانب سے محمد منیر پراچہ اور پرویز اقبال زاہد کی جانب سے میاں عبدالرائوف بطور وکیل پیش ہوئے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کیادرخواستین ہمارے پاس آج آئی ہیں۔اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل چوہدری عامر رحمان نے بتایا کہ وفاقی حکومت اور واپڈا کی جانب سے درخواستیں دائر کی گئی ہیں، ڈیمز فنڈز کے پیسے وفاق اور واپڈا کو دیے جائیں، سپریم کورٹ کی نگرانی میں اسٹیٹ بینک نے اکانٹ کھولا تھا۔چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ کیوں سپریم کورٹ نے آرڈر جاری کیا تھا، کیس شروع کیسے ہوا۔ سعد رسول کاکہنا تھا کہ ایک کیس کی سماعت کے دوران سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے 2016میں ازخودنوٹس لیا تھا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہمیں علم نہیں ہم حقائق جاننا چاہتے ہیں۔ چیف جسٹس کاایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ چوہدری صاحب ! آپ کیا چاہتے ہیں۔ چوہدری عامر رحمان کاکہنا تھاکہ وفاق اورعملدرآمد کرنے والی ایجنسیز کو پیسے دے دینے چاہیں۔ چوہدری عامر رحمان کاکہنا تھا کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے اکائونٹ میں پیسے موجود ہیں۔ سعد رسول کاکہنا تھا کہ 20ارب روپے کے قریب پیسے ہیں، اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے پاس یہ پیسے سپریم کورٹ کی ملکیت ہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کوئی شخص ہمارے پاس آیا تھا یا ہم نے ازخود نوٹس لیا تھا۔ سعد رسول کاکہنا تھا کہ پرویز زاہد اقبال کا ڈیم کاکچھ حصہ تعمیر کرنے کاتنازعہ سپریم کورٹ آیا تھاجس کے دوران ازخود نوٹس لیا گیا۔ سعد رسول کاکہنا تھا کہ وفاقی کابینہ اورایکنک نے ڈیمز بنانے کی منظوری دی۔جسٹس عرفان سعادت خان کاکہنا تھا کہ 7جنوری2019کو سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ کے فیصلے کی روشنی میں کاعملدرآمد بینچ بنا۔ سعد رسول کا کہناتھاکہ بینچ نے اینکرپرسن غریدہ فاروق کے پروگرام کانوٹس لیا جس میں کہا گیا تھا کہ ڈیمز کے تعمیر کے لئے سامان کی خریداری پی پی آر اے رولز کے مطابق نہیں کی گئی۔ چیف جسٹس کاکہنا تھاکہ کیا عدالت نے کہا کہ یہ توہین عدالت ہے۔سعد رسول کاکہنا تھا کہ بینچ نے یہ کہا یہ ڈیمز کی تعمیر میں رکاوٹ ڈالنے کے مترادف ہے۔ سعد رسول کاکہنا تھا کہ واپڈا ڈیمز کرنے والی ایجنسی ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کیا واپڈا کے دیگر سارے کاموں کو بھی سپریم کورٹ سپروائزکررہی ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کتنے ڈیم ہیں۔ اس پر سعد رسول کاکہناتھا کہ 2ڈیم ہیں، مہمند ڈیم ضلع مہمندمیں ہے جبکہ دیامربھاشا ڈیم کاکچھ حصہ خیبرپختونخواکے بارڈر پراورزیادہ حصہ گلگت بلتستان میں ہے۔ سعد رسول کاکہنا تھا کہ ڈیموں کی تعمیر کے حوالہ سے گلگت بلتستان اور پشاور میں مقدمات زیر التوا ہیں۔ جسٹس عرفان سعادت خان کاکہنا تھا کہ لاہور ہائی کورٹ نے کیوں کیسز واپس کئے کہ سپریم کورٹ جائیں۔ وکیل واپڈا نے بتایا کہ ڈیمز کی تعمیر کے معاملے پر پرائیویٹ فریقین کے درمیان بھی تنازعات تھے، سپریم کورٹ نے پرائیویٹ فریقین کے تنازعات متعلقہ عدالتوں کے بجائے اپنے پاس سماعت کیلئے مقرر کیے، ہماری استدعا ہے کہ پرائیویٹ فریقین کے تنازعات متعلقہ عدالتی فورمز پر ہی چلائے جانے چاہئیں۔سعد رسول کاکہنا تھا کہ 2018میں وفاقی حکومت نے قومی آبی پالیسی جاری کی جس کے بعد سپریم کورٹ میں پانی کی بچت کے حوالہ سے سیمینار کاانعقاد بھی کیا گیا۔ چیف جسٹس کاکہناتھا کہ درخواست گزار بیرسٹر ظفراللہ، ایڈووکیٹ سپریم کورٹ کہاں ہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہم کیوں پیش رفت رپورٹ مانگ رہے تھے، کیا صرف کاغذکاٹکڑا مانگا تھا جس کوپڑھنا ہی نہیں تھا، کیا رپورٹ کامقصد سپریم کورٹ کو تعلیم دینا تھا، کیوں پارلیمنٹ اورحکومت کی بجائے سپریم کورٹ کوپیش رفت رپورٹ واپڈا نے دینا تھی،ہماری توکوئی تکنیکی مہارت نہیں، کیا واپڈا سورہا تھا اس لئے رپورٹ مانگی تھی۔چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہرحکم کے حوالہ سے کوئی وجہ ہونی چاہیئے، میں وکیل کوکہہ دوں کمرہ عدالت میں نکر میںکر کھڑے ہوجائو، کوئی وجہ ہوگی، کوئی توہین عدالت کی ہوگی۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ یہ زبانی یقین دہانی کیا ہوتی ہے، میں بینچ میں شامل نہیں تھااس لئے کیس سمجھنا چاہتا ہوں،دونوں ڈیموں پرکام شروع ہواکہ نہیں۔ سعد رسول کاکہنا تھا کہ دونوں ڈیموں پر کام شروع ہے، صرف دیامربھاشاڈیم کے آخری حصہ کاٹھیکہ ابھی نہیں ہوا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کل کوکوئی حادثہ ہوتا ہے توکیا سپریم کورٹ ذمہ دارہوگی، کیا آئین میں کوئی گنجائیش ہے کہ ہم ڈیم کی تعمیر کی نگرانی کریں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھاکہ بیرسٹر ظفراللہ کونوٹس دیں کہ وہ آکر سمجھائیں، سرکار اورواپڈا جانے ہم کیوں بچے کوسنبھالیں، کیاہم رقم اپنے پاس سکتے ہیں۔ چیف جسٹس کاچوہدری عامر رحمان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آئین میں کیا لکھا ہے، زبانی نہ بتائیں پڑھ کربتائیں، کیا بحریہ ٹائون کی رقم والا حکم موجود ہے وہ دکھائیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ آپ اس پر سوال بھی اٹھاسکتے ہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ منصوبہ کی تعمیر کامجوزہ تخمینہ کیا ہے۔ اس پرسعد رسول کاکہنا تھا کہ مہمند ڈیم کی تعمیر کاتخمینہ 260ارب روپے اور دیامربھاشاڈیم کی تعمیر کاتخمینہ 480روپے ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ اس میں زمین کے تنازعے ہوں، ٹھیکیدارکابل پاس نہیں ہوتاتوکیاسارے کام ہم کریں گے۔چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہم اس بات کوخوش آمدید کہیں گے کہ ہماری غلطی کی نشاندہی کریں، کل کوکوئی دیوار گرتی ہے اورکوئی شخص مرتا ہے تو کیا ہم ذمہ دار ہوں گے، فرض کریں کوئی انجینئر غلط کام کرتا ہے توکیا ہم ذمہ دارہوں گے۔سعد رسول کاکہنا تھا کہ سپریم کورٹ رقم کے حوالہ سے فیصلہ کرسکتی ہے، دیگر معاملات کے لئے چھ، سات فورم موجود ہیں۔ چوہدری عامررحمان کاکہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 78کے تحت عدالتوں میں جمع ہونے والی رقم وفاقی حکومت کے اکائونٹ میں جائے گی۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہم رقم اپنے پاس نہیں رکھ سکتے، ابھی جوپیسے ہیں وہ کہاں ہیں، ان کوکون جاری کرتا ہے اورکون دستخط کرتا ہے۔ چوہدری عامر رحمان کاکہناتھا کہ وہ اکائونٹ میں پڑے ہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ آئینی طور پر دلائل دیں۔ سعد رسول کاکہنا تھا کہ رقم سپریم کورٹ نہیں رکھ سکتی۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ پہلے اس پر اعتراض کیوں نہیں کیا، آج بھی آپ کی درخواست نہیں بلکہ وفاق کی درخواست ہے۔ جسٹس عرفان سعادت خان کاسعد رسول کومخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کیاآپ کی جانب سے فنڈز جاری کرنے کی درخواست نہیں آنی چاہیئے تھی۔ سعد رسول نے بتایا کہ اس وقت اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے پاس کل 18.6ارب روپے موجود ہیں، اس میں سے 9.5ارب روپے اندرون ملک اور1.9ارب روپے بیرون ملک سے جمع ہوئے تھے جبکہ 7.8ارب روپے منافع ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ظفراللہ صاحب کو بلائیں۔ اس پرچوہدری عامررحمان کاکہنا تھاکہ ظفراللہ خان وفات پاچکے ہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ اُس وقت اٹارنی جنرل کون تھے۔ سعد رسول کاکہنا تھا کہ انورمنصورخان اٹارنی جنرل تھے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہم نوٹس جاری کریں گے ، کوئی فیصلہ نہیں کریں گے اوردوسری سمت کو بھی سنیں گے۔ چوہدری عامر رحمان کاکہنا تھا کہ اس کی ضرورت نہیں کیوں سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس کے تحت کاروائی کاآغاز کیاتھا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ اس میں عدالتی معاون بھی ہیں۔ چوہدری عامررحمان کاکہنا تھا عدالتی معاون کونوٹس دے دیں۔ جسٹس عرفان سعادت خان کاکہنا تھا کہ جب سپریم کورٹ کاپہلا حکم جاری ہوااس وقت خالد جاوید خان اٹارنی جنرل تھے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ آیٹر جنرل پاکستان سے کسی کوبلائیں وہ ہمیں چیزیں سمجھادیں، خالد جاوید خان اور انورمنصور خان کو بھی بلالیں، عدالتی معاون کو بھی بلالیں۔ سعد رسول کاکہنا تھا کہ رقم واپڈا کوفراہم کی جائے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ جو پیسے آئے ہیں وہ کسی اورچیزپرخرچ نہیں ہوں گے۔ چوہدری عامررحمان کاکہنا تھا کہ رقم ڈیموں کی بروقت تعمیر پر خرچ ہوگی۔چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ اُس وقت کے اٹارنی جنرل ہماری رہنمائی فرمادیں گے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کوئی بھی یہ نہیں کہہ رہا کہ ڈیم تعمیر نہیںہونے چاہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ عملدرآمد بینچ کرے گا کیا، ہم توڈیم نہیں بناسکتے توعملدرآمد کس بات کاکررہے ہیں، کیاسپریم کورٹ عملدرآمد بینچ بناسکتی ہے، آئین میں کہاں سے یہ اختیارلیا گیا کہ آپ یہ کرسکتے ہیں، سپریم کورٹ اپنے احکامات پر عملدرآمد کے لئے عملدآمد بینچ نہیں بناسکتی، صوبہ کی متعلقہ سول عدالت عملدرآمد کرنے والی عدالت ہوگی۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ اگر ہم توہین عدالت میں ملز م کوسزادیں گے توجیل حکام اس سزاپر عملدرآمد کروائیں گے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہم سب کونوٹس جاری کردیتے ہیں جوآنا چاہے آئے اور جونہ آنا چاہے نہ آئے۔ جسٹس عرفان سعادت خان کاکہنا تھا کہ 5رکنی بینچ کے احکامات ہیں ہم 4ججز ہیں۔ اس پر چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈپروسیجر بل2023کے تحت قائم تین رکنی کمیٹی نے 29فروری2024کو ہوانے والے اجلاس میں فیصلہ کیا تھا کہ چیف جسٹس کی سربراہی میں 3رکنی بینچ اس معاملہ کی سماعت کرے گا، اگر ضرورت محسوس ہوئی تودیکھ لیں گے اورپانچ رکنی بینچ بنالیں گے، اس میں کوئی نظرثانی کامعاملہ تونہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ نظرثانی کس بات کی کریں، حکم پر عملدرآمد ہوچکا ہے، اگرآئینی سوال آگیا توواپس کمیٹی کوبھجوادیں گے۔ چیف جسٹس کاحکم لکھواتے ہوئے کہنا تھا کہ سپریم کورٹ اوروزیر اعظم ڈیمز فنڈ میں اکٹھی ہونے والی رقم کی حوالگی کے لئے واپڈاوروفاقی حکومت کی جانب سے درخواستیں دائر کی گئی ہیں۔ درخواستوں میں استدعا کی گئی ہے کہ رقم واپڈا کے نیشنل بینک کے اکائونٹ میں منتقل کی جائے اور یہ رقم صرف ڈیموں کی تعمیر پر خر چ ہوگی۔حکم میں کہا گیا ہے کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان رپورٹ دے کہ کتنی رقم اکائونٹ میں موجود ہے ا س حوالہ سے تمام تفصیلات فراہم کی جائیں۔ سابق اٹارنی جنرل خالدجاوید خان، سابق اٹارنی جنرل انورمنصور خان اور عدالتی معاون مخدوم علی خان کونوٹس جاری کئے جاتے ہیں۔حکمنامہ میں کہا گیا ہے کہ سعد رسول نے واپڈا کی جانب سے ڈیموں کی تعمیر کے حوالہ سے 2023اور2024کی پیش رفت رپورٹ جمع کروائی۔ اٹارنی جنرل اگر جواب جمع کروانا چاہیں توکرواسکتے ہیں۔ تمام فریقین کوبھی نوٹس جاری کئے جاتے ہیں۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان خودآئندہ سماعت پر حاضر ہوں یا سینئر افسر کونامزد کریں جورقم کی منتقلی کے حوالہ سے عدالت کی رہنمائی کرے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ آج کے حکم کی کاپی اٹارنی جنرل اور عدالتی معاون کو بھجوائی جائے۔ عدالت نے سماعت ملتوی کرتے ہوئے کہاآئندہ سماعت 3ہفتے کے بعد منعقد کی جائے گی۔ ZS
#/S