• پی ٹی آئی سے مذاکرات کا عمل کامیاب ہونا چاہیے، کسی کی سیاست کو دفن نہیں کیا جاسکتا، سعد رفیق
  • اگر کوہالا کا پل کو بلاک کیا گیا، پاکستان کا جھنڈا یا قائداعظم کی تصویر اتاری گئی ہے تو ہمیں تشویش ہے کہ یہ کیسے ہوگیا
  • جو آج جیل میں ہیں لیکن آج تک شاید وہ ابھی بھی نہیں سمجھے، جو آج اقتدار میں ہیں، وہ جیل کا مزہ چکھ چکے ہیں یہ متحد نہ ہوئے تو جیل کی باریاں لگی رہیں گی
  • نئی امریکی انتظامیہ آرہی ہے ، ان کو عمران خان سے کوئی دلچسپی نہیں، ان کی دلچسپی وہی ہے جو امریکی استعمار کی ہے اور وہ پاکستان کا جوہری پروگرام، پاکستان کا بیلسٹک میزائل پروگرام ہے
    پاکستان ریموٹ کنٹرول جمہوریت سے آگے نہیں بڑھ سکتا. سینئر سیاست دان ملک کو ٹریک پر واپس لانے کے لیے سوچ بچار کریں ،سیمینار سے خطاب

لاہور (ویب  نیوز)

مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ ملک آپس کی دھنگا مستی میں گھرا ہوا ہے، اگر یہی حالات رہے تو بہت سے لوگ غیر متعلقہ ہوجائیں گے جب کہ پاکستان ریموٹ کنٹرول جمہوریت سے آگے نہیں بڑھ سکتا تاہم یہ نہیں ہوسکتا صرف سیاستدان ہی رگڑا کھائیں۔لاہور میںاپنے والدخواجہ محمد رفیق شہید کے 52ویں یوم شہادت پر منعقدہ قومی سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے خواجہ سعد رفیق کا کہنا تھا کہ تاجروں کے نام پر ایک ایکشن کمیٹی بناکر لوگ نکلتے ہیں اور ریاست گھٹنے ٹیک دیتی ہے تو پھر اس پر سوالیہ نشان تو ہوں گے کیوں کہ اس طرح لوگ جتھے بناکر نکلیں گے تو کس کس کی بات آپ مانیں گے، اگر کوہالا کا پل کو بلاک کیا گیا، پاکستان کا جھنڈا یا قائداعظم کی تصویر اتاری گئی ہے تو ہمیں تشویش ہے کہ یہ کیسے ہوگیا۔انہوں نے کہا کہ یہ ایک رات میں تو نہیں ہوا ہوگا، کشمیری تو پاکستانیوں سے بڑی کشمیری ہیں، ان کے دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتے ہیں تو پر اس پار ایسا کیا ہوا، کیوں وہاں ایک ایسا آدمی بٹھایا گیا جس کا کشمیر کی سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ہم نے جب کہا تھا کہ یہ کام نہ ہو، ہم نے مشورہ دیا تھا لیکن کوئی ہماری سنے تو صحیح، آپ کب تک ڈرائنگ روم میں بند ہوکر آہ وذاری کریں گے، ہمیں بات کرنی پڑے گی لیکن کون بات کرے گا۔خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ میں اسی لیے حکومت کا حصہ نہیں ہوں اور میرے ساتھیوں کو اس بات کا پتہ ہے، میں بالکل اپنی پارٹی کے اندر ہوں لیکن جہاں خرابی ہوگی، اب چپ نہیں رہا جاسکتا اس پر بات کرنی پڑے گی، اس پر سوال کرنا پڑے گا، اس کا راستہ تلاش کرنا پڑے گا۔انہوں نے کہا کہ بڑے ادب سے کہنا چاہتا ہوں، یہ جو نئی امریکی انتظامیہ آرہی ہے ، ان کو عمران خان سے کوئی دلچسپی نہیں، ان کی دلچسپی وہی ہے جو امریکی استعمار کی ہے اور وہ پاکستان کا جوہری پروگرام، پاکستان کا بیلسٹک میزائل پروگرام ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ہمیں شاید اپنی طاقت کا اندازہ نہیں لیکن ہمارے دشمن کو ہے، جب آپ کے ارد گرد گھیرا وڈالا جارہا اور آپ کو دکھائی بھی دے رہا ہو تو کیا آنکھیں بند کی جاسکتی ہیں، کیا خاموش رہا جاسکتا ہے۔سعد رفیق کا کہنا ہے کہ آج جہاں کھڑے ہیں اس کے ذمے دار بانی پی ٹی آئی، ثاقب نثار اور باجوہ ہیں۔انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی والے کہتے ہیں کہ ہم ان کی بات نہیں کرتے، یہ اپنی غلطی نہیں مانتے، فاشسٹ سوچ کے ساتھ آنا چاہتے ہیں، انہوں نے ایک اقتدار کے لیے ہماری حکومت گرائی۔مسلم لیگ ن کے رہنما کا کہنا ہے کہ میری اس وقت بھی بات نہیں سنی گئی اور آج بھی کوئی نہیں سنتا، آج سیاسی مذاکرات شروع ہو چکے ہیں، ہم ان کی حمایت کرتے ہیں، ان مذاکرات کو غیر مشروط ہونا چاہیے، ایک دوسرے پر گولہ باری ہوتی رہے لیکن گفتگو میں سنجیدگی ہونی چاہیے، توقع ہے کہ مذاکرات سنجیدہ ہوں گے اور کوئی راستہ نکلے گا۔مسلم لیگ(ن) کے رہنما نے کہا کہ میری تجویز ہے کہ پاکستان تحریک انصاف سے مذاکرات کا عمل کامیاب ہونا چاہیے۔انہوں نے ملک کو موجودہ سیاسی بحرانوں سے نکالنے کے لیے قومی کمیٹی کی تجویز دے دیتے ہوئے کہا کہ مولانا فضل الرحمن، حافظ نعیم الرحمن، شاہد خاقان عباسی، ڈاکٹر مالک بلوچ، آفتاب خان شیرپاو، پیر پگارا، چوہدری نثار علی خان سمیت دیگر اسٹیک ہولڈز کو کمیٹی کا حصہ بنانا چاہیے، جو نہ حکومت اور نہ ہی پی ٹی آئی اتحاد کا حصہ ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ سینئر سیاست دان ملک کو ٹریک پر واپس لانے کے لیے سوچ بچار کریں ، یہ نہ ہو کہ مزید نقصان اٹھانا پڑے، ریاستی اداروں کی توہین کی جارہی ہے اور اس پر دوسری جانب سے ردعمل آرہا ہے، سمجھ نہیں آرہی ہے کہ سچا کون اور جھوٹا کون ہے۔سعد رفیق نے مزید کہا کہ سیاست میں کوئی دفن نہیں ہوسکتا، یہ غلط فہمی سب کو دور کرلینی چاہیے، نہ بھٹو کی سیاست کوئی ختم کرسکا اور نہ نواز شریف کی کرسکا اور نہ ہی سیاست کو غیر فطری طریقے سے روکا جاسکتا، سیاست کا مقابلہ غیر سیاسی طریقوں سے نہیں کیا جاسکتا۔معروف صحافی اور دانشور سہیل وڑائچ نے کہا کہ خواجہ سعد رفیق نے درست فرمایا  پاکستان، جمہوریت اور آئین اہم ہیں، آئین پر عمل کر کے ہی جمہوریت آگے چل سکتی ہے، آئین میں لکھا ہے کہ پارلیمان آئین اور قانون بنا سکتی ہے ہمیں یہ کہنے کا بڑا شوق ہے کہ ملک میں بحران ہے ہم نے آئین اور پارلیمان کے ذریعے ان بحرانوں سے نکلنا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتوں میں خوبیاں بھی ہیں لیکن ان میں ایک دوسرے کے لئے نفرت بھی ہے جو مفاہمت کی راہ میں رکارٹ ہے، آج ایک فوج کا حامی تو دوسرا مخالف ہوتا ہے، پاکستان مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی نے ایک دوسرے کو کیا کچھ نہیں کہا لیکن پھر ایک دوسرے سے معافی مانگی گئی اور 10 سال حالات اچھے گزرے آج پی ٹی آئی کا بھی یہی حال ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اس وقت کے مقتدرہ جنرل پاشا سے جنرل فیض تک سب کہتے تھے کہ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کو ختم کر کے ایک جماعت کو آگے لانا ہے میڈیا ہاوسز بند کئے گئے لیکن کسی نے کسی کا ساتھ نہیں دیا، مفاہمت ہونی چاہیے لیکن بنیادی باتیں طے ہونی چاہیئں مثلا ایک دوسرے کا اقتدار نہیں چھینا جائے گا آئین کے نکات سے بالا کوئی مصلحت نہیں ہو گی کوئی آئین کو چھیڑے گا تو سب اکٹھے ہو جائیں گے اگر یہ طے نہ ہوا تو مکمل طاقت و اختیار کبھی نہیں ملے گا۔مجیب الرحمان شامی نے کہا کہ میں گذشتہ برسوں سے مسلم لیگ کو ڈھونڈتا پھر رہا ہوں مجھے میدان میں وہ نظر نہیں آ رہی آج مسلم لیگ نے اپنی زندگی کا ثبوت دیا ہے جس دن خواجہ رفیق شہید ہوئے میں اس دن جیل میں تھا جن لوگوں نے انہیں شہید کیا تھا، ان کا کیا حال ہوا، سب سے دیکھا۔انہوں نے کہا کہ قتل کرنے والے اسی حکومت کے دوران اسی حکومت کے ہاتھوں نشانہ بنے، خواجہ رفیق نے بیرون ملک جانے کے بجائے تحریک پاکستان سے ناطہ جوڑا آمریت کیخلاف جدوجہد کرتے رہے اور اپنی جائیدار کا کوئی کلیم داخل نہیں کیا، لیاقت علی خان نے بھی اپنی جائیداد کا کوئی کلیم داخل نہیں کیا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ خواجہ رفیق لوٹنے نہیں بلکہ لٹانے کا نام ہے بحرانوں سے نکلنا کوئی راز نہیں ہے اہل سیاست متحد ہو جائیں اور غیر سیاسی طاقت سے دور رہیں تو سب ٹھیک ہو جائے گا ایک دوسرے کو نشانہ بناتے رہیں گے تو جمہورہت پٹڑی پرنہیں چڑھے گی ہم ان کو بھی سمجھاتے رہے جو آج جیل میں ہیں لیکن آج تک شاید وہ ابھی بھی نہیں سمجھے، جو آج اقتدار میں ہیں، وہ جیل کا مزہ چکھ چکے ہیں یہ متحد نہ ہوئے تو جیل کی باریاں لگی رہیں گی۔انہوں نے کہا کہ دنیا میں پاکستان منفرد ملک ہے جہاں حکومت کا مستقبل ہمیشہ زیر بحث ہوتا ہے اب تو ملک کے مستقبل کا سوال ہونے لگ گیا ہے سیاسی لڑائیوں نے ملک اور معیشت کو انتہائی کمزور کر دیا ہے آج ایک ہی راستہ ہے کہ سب طے کرلیں اسلام آباد پر دھاوے کی روش ختم ہونی چاہیے۔انہوں نے کہا کہ دھرنے والے آج ریٹائرڈ ہو چکے ہیں 2014 میں دھرنا ہوا تو ہم نے اس کی مخالفت کی تھی پاکستان میں ووٹ کے ذرہعے حکومت آنی اور جانی چاہیے ورنہ ہم بحرانوں کا شکار رہیں گے بنگلہ دیش آج تڑپ رہا ہے، وہ آج ہماری طرف محبت سے دیکھ رہا ہے اور ہمیں محبت سے انہیں جواب دینا ہے۔