خیبر پختونخوا میں قیام امن کے لیے تمام پارٹیوں سے بالاتر ہو کر جرگہ بلایاجائے،، مولانا فضل الرحمان
جب بھی قبائل کا مسئلہ آتا ہے ہمارے اندر ایک تحریک جنم لے لیتی ہے، قبائلی مشران سے خطاب
ڈیرہ اسماعیل خان (ویب نیوز)
جمعیت علمائے اسلام پاکستان (جے یو آئی) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے صوبہ خیبر پختونخوا میں قیام امن کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کی پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ قیام امن کے لیے ایک بڑا جرگہ بلایا جائے جس میں تمام قبائل کے لوگ شامل ہوں۔ مجھے کہا جائے گا تو حکومت سمیت جس سے بات کرنا ہو گی کریں گے۔ جب بھی قبائل کا مسئلہ آتا ہے ہمارے اندر ایک تحریک جنم لے لیتی ہے۔ہفتہ کے روز ڈیرہ اسماعیل خان میں قبائلی مشران سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ صوبے میں قیام امن کے لیے رمضان المبارک سے پہلے پہلے دوسرا جرگہ بلایا جائے، تمام مکاتب فکر کا متفقہ فیصلہ ہے کہ اسلحے کا راستہ اختیار نہیں کرنا ہے۔انہوں نے کہا کہ ایک اور جرگہ بلایا جائے جس میں تمام قبائل کے لوگ شامل ہوں، تمام پارٹیوں سے بالاتر ہو کر قبائلی مشران کو بالا کر اگلا جرگہ بلائیں گے۔ مجھے کہا جائے گا تو حکومت سمیت جس سے بات کرنا ہو گی کریں گے۔ حکومت قبائلی مشران اور لوگوں سے پوچھ لے وہ کیا چاہتے ہیں،مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ کسی طور پر ظلم و جبر کا ساتھ نہیں دیں گے، ہماری سینیٹ کی آٹھ سیٹیں غائب کردی گئیں، قومی اسمبلی کی سیٹوں پر بھی ڈاکا ڈالا گیا، قبائل اور مشران سے گزارش ہے آپس میں نہ لڑیں، وزیراعلی کے پی کو پتہ نہیں کہ کچھ معاملات اسٹیٹ کے تحت ہوتے ہیں، جرگہ عمائدین کو شکایت ریاست سے ہے۔مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ میں خود کو قبائل کا حصہ سمجھتا ہوں، ہم نے 2012 سے مستقل قبائلی جرگہ بنایا ہوا ہے، جرگے میں مختلف مذاہب، مسلک اور شعبے کے لوگ شامل ہیں۔انہوں نے کہا کہ قبائلیوں کی آواز کو سنا جائے، ہم ایک اور جرگہ بلائیں گے، جس میں اگلا لائحہ عمل طے ہوگا، قبائل کے لوگ ہماری بات سنتے ہیں، میں نے کہا مجھے بھیج دیں، حالات کنٹرول کرا سکتا ہوں، اب چاہتے ہوئے بھی قبائلی علاقوں میں نہیں جاسکتے۔سربراہ جے یو آئی(ف) نے مزید کہا کہ پاکستان ہمارا ہے، فوج ہماری ہے، قبائل بھی ہمارے ہیں، مجھ طاقت کا استعمال بھی آتا ہے اور سب چیزوں کی سمجھ بھی ہے،انہوں نے کہاکہ قبائل کے ووٹ بھی نہیں تھے لیکن مقتدر حلقے اس پر بھی ناراض تھے، ہم سیاسی جماعت ہیں اور سیاسی لوگ ہیں ہم قوم کے پاس جائیں گے اور ہم پر پابندیاں لگا دی، پھر ایک وقت آیا امریکا نے افغانستان پر حملہ کردیا، میں نے مقتدر حلقوں کو کہا ہے کہ قبائلی علاقوں میں مجھے چھوڑ دیں، مجھے اپنے آپ پر بھروسہ ہے کہ قبائل کبھی بھی حکومت کے خلاف اسلحہ نہیں اٹھائیں گے۔سربراہ جے یو آئی کا کہنا تھا کہ مجھے امید تھی کہ میرے قبائل اور میرے قبائل کے نوجوان کبھی بھی ہمارے سامنے اسلحہ نہیں اٹھائیں گے لیکن اگر آج میں چاہوں بھی صحیح تو قبائلی علاقوں میں جا کر کچھ نہیں کر سکتا۔مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ حق یہ بنتا ہے کہ میں تمام قبائل اور تمام مشران کو ایک ایک کر کے ملوں لیکن وقت کی کمی کی وجہ سے میں سب کو نہیں مل سکا ، میں خود کو قبائل کا حصہ سمجھتا ہوں اور جب بھی قبائل کا مسئلہ آتا ہے ہمارے اندر ایک تحریک جنم لے لیتی ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم ہمیشہ قبائلوں کے لیے حق کے لیے بات کرتے ہیں، میں نے ہمیشہ قبائل اور اس خطے کی امن کے لیے کوششیں کی ہیں اور کرتا رہوں گا، اس جرگہ میں معتبر قبائل بھی موجود ہیں جو آنے والے حالات اور گزرے ہوئے حالات حاضرہ پر نظر رکھتے ہیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ 2012 سے ہم نے مستقل قبائلی جرگہ بنایا ہوا ہے ، اس میں چاہے مشران ہیں یا پھر پارٹیوں کے لوگ ہیں تمام شامل ہیں، قبائلی جرگے میں تمام مذاہب مسلک اور شعبے کے لوگ شامل ہیں۔ بعد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بار بار دہرا رہا ہوں کہ موجودہ اسمبلیاں عوام کی نمائندہ اسمبلیاں نہیں ہیں، حکومت بہر حال اسٹیبلشمنٹ کی ہے۔ان سے سوال پوچھا گیا کہ قبائلی علاقوں میں امن و امان کے لیے یہ جرگہ آپ کی طرف دیکھ رہا ہے کہ جمعیت علمائے اسلام (ف)کی تمام توانائیاں وہ سب ان کے سپرد کی ہیں، اور انشا اللہ متحدہ جدوجہد کے ساتھ اس معاملے کو آگے بڑھائیں گے، ہم تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیں گے،صحافی نے سوال کیا کہ اپوزیشن اور حکومت کے درمیان مذاکرات ختم ہو رہے ہیں، جس پر مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ شروع کب ہوئے تھے؟ مجھے اس کا بھی پتا نہیں، انہوں نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی والے 100 بار ہمارے پاس آئیں، ان سے بات کریں گے۔مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ ملکی سیاست میں ایسا پلیٹ فارم ہو کہ جہاں مل کر تمام معاملات پر تبادلہ خیال کریں اور مجموعی سیاسی حل سامنے آ جائے، بار بار دہرا رہا ہوں کہ موجودہ اسمبلیاں عوام کی نمائندہ اسمبلیاں نہیں ہیں۔سربراہ جمعیت علمائے اسلام (ف) کا کہنا تھا کہ حکومت بہر حال اسٹیبلشمنٹ کی ہے، دوسری دنیا کے ساتھ بھی روابط انہی کے ہیں، معاملات وہی چلا رہے ہیں، یہ انہی کے نمائندے ہیں، یہ عوام کے نمائندے نہیں ہیں۔انہوں نے کہا کہ بدامنی نے قبائلی علاقوں کا برا حال کر رکھا ہے، نہ وہاں اسکول کی کوئی افادیت ہے، نہ کسی کالج کی افادیت ہے، نہ کسی ہسپتال اور سڑک کی افادیت ہے، کوئی چیز ایسی نہیں ہے کہ جس سے لوگ استفادہ کر سکیں۔سیاسی انتشار سے متعلق سوال کے جواب میں مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ ریاست کھل کر بات کرے، یہ نہ کہے کہ ہم نے 10 یا 20 سال بعد یہاں تک پہنچنا ہے، کبھی جرگے ہو رہے ہیں، کبھی یا ہو رہا ہے، ہمیں واضح بتایا جائے کہ عالمی قوتوں کا ایجنڈا کیا ہے اور اسٹیٹ کا ایجنڈا کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ جہاں 20 سال سے زیادہ عرصہ ایک ہی منطقے پر جنگ فوکس کر رہا ہو، خون بہہ رہا ہوں، یہ چیز کسی جغرافیائی تبدیلیوں کی نشاندہی کر رہی ہوتی ہے، میں اس بارے میں پریشان ہوں کہ کہیں ہمارے جغرافیے میں تو کوئی تبدیلی نہیں لائی جارہی، میرا وہم ہے کہ یہ خطرہ موجود ہے، میری خواہش ہوگی کہ میری بات صحیح ثابت نہ ہو۔مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ ہمارے صوبے میں کوئی امن ہے نہ حکومت، ہر طرف کرپشن ہی کرپشن ہو رہی ہے، ایک طرف بدامنی کی صورتحال ہے کہ اسے کنٹرول نہیں کیا جاسکتا، ہمارا صوبہ ان خرابیوں کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔





