فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ملٹری ٹرائل درست قرار ، سپریم کورٹ کے5رکنی بینچ کا23اکتوبر2023کا فیصلہ کالعدم
فیصلہ 5-2کی اکثریت سے سنایا گیا،سپریم کورٹ کے آئینی ببینچ نے آرمی ایکٹ کواس کی اصل شکل میں بحال کردیا
وزارت دفاع سمیت دیگرفریقین کی جانب سے دائر 38 اپیلیں منظور
اسلام آباد( ویب نیوز)
سپریم کورٹ آف پاکستان کے 7رکنی آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کے خلاف دائر انٹرا کورٹ اپیلوں پر فیصلہ سناتے ہوئے سپریم کورٹ کے5رکنی بینچ کی جانب سے فوجی عدالتوں میں سویلینزکے ٹرائل کو غیر آئینی قرار دینے کا23اکتوبر2023کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔فیصلہ 5-2کی اکثریت سے سنایا گیا ہے۔سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز ٹرائل کو غیر آئینی قرار دینے کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے آرمی ایکٹ کی شق2 ڈی ون اور ٹو کو بحال کردیا، سپریم کورٹ نے آرمی ایکٹ کی شق 59(4) کو بھی بحال کردیا۔بینچ نے آرمی ایکٹ کواس کی اصل شکل میں بحال کردیا۔ سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے وزارت دفاع سمیت دیگرفریقین کی جانب سے دائر 38 اپیلوں کو منظور کرلیا۔اپیلیں منظور کرنے والے ججزمیںبینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان، جسٹس محمد علی مظہر،جسٹس سید حسن اظہررضوی، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس شاہد بلال حسن شامل ہیں۔جبکہ اختلاف کرنے والے ججز میں جسٹس جمال خان مندو خیل اورجسٹس نعیم اخترافغان شامل ہیں۔ سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے بدھ کے روزکھلی عدالت کیس مختصر فیصلہ پڑھ کرسنایا جبکہ تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔بینچ نے فوجی عدالتوں کے فیصلے کیخلاف اپیل کا حق دینے کیلئے معاملہ حکومت کو بھجوا دیا گیا، فیصلے میں کہا گیاکہ حکومت اپیل کا حق دینے کے حوالے سے قانون سازی کرے، ہائی کورٹ میں اپیل کا حق دینے کیلئے آرمی ایکٹ میں ترامیم کی جائیں، اٹارنی جنرل کے مطابق 39 فوجی تنصیبات پر 9مئی کو حملے ہوئے۔سپریم کورٹ نے آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی کالعدم دفعات بحال کر دیں۔بینچ نے فوجی عدالتوں کے فیصلے کیخلاف اپیل کاحق دینے کیلئے معاملہ حکومت کو بھجوا تے ہوئے حکم دیا ہے کہ حکومت 45 دن میں اپیل کا حق دینے سے متعلق قانون سازی کرے جبکہ ہائیکورٹ میں اپیل کا حق دینے کیلئے آرمی ایکٹ میں ترامیم کی جائیں۔جسٹس نعیم اختر افغان نے اختلافی نوٹ میں کہا کہ آرمی ایکٹ آرمڈ فورسز کے لیے ہے،آرٹیکل 175 کے تحت عدالتوں کے قیام اور اختیارات واضح ہیں، آرٹیکل 175 کے تحت عدالتی نظام ایگزیکٹو سے مکمل الگ ہے۔اختلافی نوٹ میں کہا گیا کہ آئین اور اسلام میں شفاف ٹرائل اور معلومات تک رسائی کا حق دے رکھا ہے، آئین کا آرٹیکل 10 اے اور آرٹیکل 25 بالکل واضح ہے، نو مئی کے ملزمان کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل کالعدم قرار دیا جاتا ہے، نو مئی کے تمام کیسز عام عدالتوں میں چلائے جائیں، گرفتار ملزمان کا درجہ انڈر ٹرائل قیدی کا ہو گا۔واضح رہے یاد رہے کہ جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بنچ نے تقریبا 5 ماہ تک سماعت کرتے ہوئے 56سماعتوں کے بعد 5 مئی بروز سوموار کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا۔





