پاکستان کی تاریخ میں پہلا کیس ہے، کوئی سنیارٹی کاقانون موجود نہیں،جسٹس محمد علی مظہر
ہمیں مستقبل کے لیے اس مقدمے کا فیصلہ کرنا ہے،مستقبل میں اس فیصلہ کے اہم اثرات ہوں گے،ججز سنیارٹی کیس میں ریمارکس
اسلام آباد( ویب نیوز )
سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں تین ہائی کورٹس سے ججز کے اسلام آباد ہائی کورٹ میں تبادلہ اور سنیارٹی کے معاملہ پردائر درخواستوں کی سماعت کے دوران بینچ کے سربراہ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے ہیں کہ موجودہ کیس میں پاکستان میں کوئی فیصلہ نہیں ہوا، یہ فرسٹ امپریشن کاکیس ہے،ہمیں مستقبل کے لیے اس مقدمے کا فیصلہ کرنا ہے، مستقبل میں اس فیصلہ کے اہم اثرات ہوں گے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلا کیس ہے، کوئی سنیارٹی کاقانون موجود نہیں،یہ اتناآسان معاملہ نہیں جتنا ہم سمجھ رہے ہیں۔مستقل تعیناتی اور تبادلہ دومختلف چیزیں ہیں۔ ججز کاتبادلہ عوامی مفاد میں تھا کہ نہیں یاعدلیہ کی آزادی کے خلاف ہے کہ نہیں، اس میں تین چیف جسٹسز شامل ہیں، ہر چیز ایگزیکٹو کے ہاتھ میں نہیں تھی، تبادلے پر جج سے رضامندی بھی لی جاتی ہے، معاملہ دیکھنے والے توچیف جسٹسز ہی ہیں۔جبکہ جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیئے ہیں کہ تبادلے کا اختیار تو صدر پاکستان کا ہے، ججز کے ٹرانسفر کا عمل صدر مملکت کی بجائے وزارت قانون نے شروع کیا،سیکرٹری قانون کنٹریکٹ پرکام کررہاہے۔جبکہ دوران سماعت اسلام آباد کے پانچ ججز کے وکیل بیرسٹر سید صلاح الدین احمدجواب الجواب دلائل مکمل نہ کرسکے جس کے بعد بینچ نے کیس کی مزید سماعت 16 جون صبح ساڑھے 9بجے تک ملتوی کر دی۔ جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں جسٹس نعیم اخترافغان ، جسٹس شاہد بلال حسن ، جسٹس صلاح الدین پہنور اور جسٹس شکیل احمد پر مشتمل پانچ رکنی آئینی بینچ نے تین ہائی کورٹس سے ججز کے اسلام آباد ہائی کورٹ تبادلہ اورسنیارٹی کے معاملہ پر دائر 12درخواستوں پر سماعت کی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے پانچ ججز کے وکیل بیرسٹر سید صلاح الدین احمد کا کہنا تھا سینئر وکیل منیر احمد ملک کی طبعیت ٹھیک نہیں اس لئے میں جواب الجواب میں دلائل دوں گا، اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ججز کے تبادلے مستقل ہیں، جن ہائی کورٹس سے ججز آئے وہاں آسامیاں خالی ہوگئیں اور اسلام آباد ہائی کورٹ میں آسامیاں پُرہوگئی ہیں، کوئی الائونسز ججز کونہیں مل ہررہے اور اگر مستقل نہ ہوتے توالائونسز ملتے، نیا حلف لینے کی ضرورت نہیں اور تبادلہ کی صورت میں جج اپنی سنیارٹی اپنے ساتھ لے کرچلے گا، صدر کواپنی رائے دینے یا کابینہ کی منظوری کی ضرورت نہیں بلکہ صدر نے وزیر اعظم کی ایڈوائس پر عمل کرنا ہے۔صلاح الدین احمد کاکہنا تھا کہ1973کے آئین کے تحت ایک بھی تبادلہ مستقل نہیں بلکہ تمام تبادلے مخصوص وقت کے لئے ہوئے تھے، اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیف جسٹسز کی براہ راست تعیناتیاں ہوئی تھیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ موجودہ کیس میں پاکستان میں کوئی فیصلہ نہیں ہوا، یہ فرسٹ امپریشن کاکیس ہے۔ صلاح الدین احمد کاکہنا تھا کہ پارلیمنٹ نے کبھی بھی آئین کے آرٹیکل 200میں ترمیم کی زحمت نہیں کی، اگر جج کی کوئی آسامی خالی ہوتی ہے تویہ جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے ممبران کاحق ہے کہ اس پر نامزدگی کریں۔جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ مستقل تعیناتی اور تبادلہ دومختلف چیزیں ہیں۔صلاح الدین احمد کاکہنا تھا کہ تبادلوں میں بامعنی مشاورت نہیں ہوئی، تمام متعلقہ حقائق اور معاملات مشاورت کرنے والوں کے ساتھ شیئر کرنا چاہیں تھے جو کہ نہیں کئے گئے۔جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ ججز کاتبادلہ عوامی مفاد میں تھا کہ نہیں یاعدلیہ کی آزادی کے خلاف ہے کہ نہیں، اس میں تین چیف جسٹسز شامل ہیں، ہر چیز ایگزیکٹو کے ہاتھ میں نہیں تھی، تبادلے پر جج سے رضامندی بھی لی جاتی ہے، معاملہ دیکھنے والے توچیف جسٹسز ہی ہیں اور آرٹیکل175 اے کے تحت نئی تقرری ہوسکتی ہے۔صلاح الدین احمد کاکہنا تھا کہ مستقل تقرری کا اختیار صرف جوڈیشل کمیشن کے پاس ہے، اور آرٹیکل 175 اے کے تحت نئی تقرری ہی ممکن ہے، جب کہ تقرری اور تبادلہ دو الگ الگ مفہوم رکھتے ہیں، جج کے تبادلے کے لیے با معنی مشاورت ضروری ہے اور بامعنی مشاورت کے بغیر کیا گیا سارا عمل محض دکھاوا ہے۔انہوں نے عدالت کو بتایا کہ اس معاملے میں معلومات کو چھپایا گیا اور غلط بیانی سے کام لیا گیا، اسلام آباد ایکٹ کے سیکشن 3 میں تقرری کی بات کی گئی ہے، جب کہ ٹرانسفر کا ذکر تک موجود نہیں ہے، انہوں نے جوڈیشل کمیشن رول 6 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس میں ریجن کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔اس موقع پر اٹارنی جنرل منصورعثمان اعوان نے عدالت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جوڈیشل کمیشن کی میٹنگ کے منٹس عدالت کے پاس موجود ہیں، جنہیں دیکھا جا سکتا ہے۔اس پر صلاح الدین احمد نے جواب دیا کہ ان کے پاس میٹنگ منٹس کا کوئی خزانہ موجود نہیں ہے۔ جسٹس نعیم اختر افغان کا کہنا تھا کہ میٹنگ منٹس سے متعلق کچھ سوالات وہ آخر میں کریں گے۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ یہ فرسٹ ایمپریشن کا کیس ہے اور ہمیں مستقبل کے لیے اس مقدمے کا فیصلہ کرنا ہے، مستقبل میں اس فیصلہ کے اہم اثرات ہوں گے۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ ہمارے پاس کوئی نظائر نہیں یہ پہلا کیس ہے۔ وکیل صلاح الدین نے کہا کہ پہلے رائونڈ میں بھی انہوں نے یہی مئوقف اختیار کیا تھا کہ جوڈیشل کمیشن نے اس معاملے پر غور ہی نہیں کیا، جہاں قانون خاموش ہے، وہاں لازمی شقوں کا اضافہ نہیں کیا جا سکتا، وزیراعظم کو جو سمری بھیجی گئی اس میں کہا گیا کہ پنجاب سے ایک جج اسلام آباد ہائی کورٹ میں موجود ہے اس لئے ایک اور جج کی پنجاب سے ضرورت ہے ۔صلاح الدین احمد کاکہنا تھا کہ تبادلے کے وقت تین ججز پنجاب سے کام کررہے تھے جن چیف جسٹس عامر فاروق،سرداراعجاز اسحاق خان اور بابر ستارشامل ہیں، اگر دھوکہ دہی سے چیف جسٹس کی منظوری لی جائے گی تویہ قانون نہیں بلکہ حقائق میں بدنیتی ہوگی۔ ان کاکہنا تھا کہ 28جنوری کی سمری میں تبادلہ ہوکرآنے والے تین ججز کے ہی نام دیئے گئے تھے باقی ججوں کوکیوں زیر غور نہیں لایا گیا۔جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیئے کہ تبادلے کا اختیار تو صدر پاکستان کا ہے، ججز کے ٹرانسفر کا عمل صدر مملکت کی بجائے وزارت قانون نے شروع کیا،سیکرٹری قانون کنٹریکٹ پرکام کررہاہے۔صلاح الدین احمد کاکہنا تھا کہ تبادلہ ہوکرآنے والے ججز اضافی الائونسز حاصل کررہے ہیں جس کی تصدیق اے جی پی آر سے کروائی جاسکتی ہے۔ صلاح الدین احمد کاکہنا تھا کہ یہ کہنا کہ یہ ایک ہی آفس ہے درست نہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ اگر تبادلہ مستقل نہیں توحلف کاکیا اثرہوگا، وکیل کہہ رہے ہیں کہ اگر نیاحلف لیاجائے گاتوسنیارٹی کامسئلہ نہیںہوگا۔ وکیل کاکہنا تھا کہ تبادلہ پر عارضی حلف ہوتا ہے اور واپس جاکردوبارہ حلف اٹھانے کی ضرورت نہیں، عارضی طور پر کام کے لئے بھی دوبارہ حلف اٹھاناہے، حلف میں ہرہائی کورٹ کانام پڑھا جاتاہے، ہائی کورٹ ججز کی سنیارٹی آئین اور قانون میں درج نہیں، تمام اصول سپریم کورٹ فیصلوں سے آتے ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ سول سروس میں سنیارٹی کے تعین کے لئے بہت سے رولز ہیں ، بھارت میں ہائی کورٹس کے ججز کی سنیارٹی کاقانون موجود ہے تاہم پاکستان میں ایسا نہیں ہے، یہ پاکستان کی تاریخ میں پہلا کیس ہے، کوئی سنیارٹی کاقانون موجود نہیں، یہ اتناآسان معاملہ نہیں جتنا ہم سمجھ رہے ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ بھارت میں نئے حلف پر بھی سنیارٹی متاثر نہیں ہوتی، پاکستان میں آل پاکستان کیڈر موجود نہیں، وکیل کہہ رہے ہیں تبادلہ پر بھی حلف ہوگا ، مستقل ہونے پر بھی حلف ہوگاتاہم سنیارٹی لے کرنہیں چلے گا۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ اگر پرانی سروس ختم ہوجائے گی تو پینشنری بینفٹس اور ریٹائرمنٹ پر ایک سال کی تخواہ کے ساتھ چھٹی ختم ہوجائے گی۔ وکیل کاکہنا تھا کہ مراعات اور پینشن کے لئے جج پرانی سنیارٹی لے کرچلے گا۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ ہماری تنخواہ کی سلپ پر سروس کی مدت لکھی ہوتی ہے۔جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ اگر لاہور ہائی کورٹ کے ججز کو جسٹس محمد سرفرازڈوگر کے تبادلہ پر اعتراض تھا تووہ اپنے چیف جسٹس کے پاس ری پریزینٹیشن جمع کرواسکتے تھے۔ سماعت کے اختتام پر عدالت نے ججز کی سینارٹی اور ٹرانسفر سے متعلق کیس کی سماعت 16 جون تک ملتوی کر دی۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ اگر 16 جون کو کیس کی سماعت مکمل ہو گئی تو مشاورت کے بعد شارٹ آرڈر دے دیا جائے گا۔وکیل صلاح الدین نے عدالت سے استدعا کی کہ کل تک کیس کی سماعت مکمل کر دی جائے تاہم جسٹس نعیم اختر افغان نے وضاحت کی کہ کل بنچ میں موجود کچھ ججز دستیاب نہیں ہوں گے، صلاح الدین احمد نے تجویز دی کہ آج دن ایک بجے کے بعد سماعت دوبارہ رکھی جائے، لیکن جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آج سماعت مکمل نہیں ہو پائے گی کیونکہ جواب الجواب دلائل میں سوالات بھی شامل ہو جاتے ہیں، جس پر جسٹس صلاح الدین پنہور نے بھی اتفاق کیا۔ZS





