لڑکی خوشی سے طلاق تونہیں لے رہی، پینشن فلاح کے لئے ہے، ۔جسٹس محمد علی مظہر
پینشن پر حکومت کاکوئی حق نہیں یہ سرکاری ملازم کاحق ہے، سندھ حکومت کی جانب سے درخواست دائر کرنے کی کوئی وجہ نہیں بنتی،جسٹس عائشہ اے ملک
ہم کسی کورہاکرنے یا قید کرنے کا نہیں کہہ سکتے، ہم رہاکرنے نہیں بیٹھے بلکہ ایپلٹ کورٹ کے فیصلہ میں خامیاں دیکھ رہے ہیں
اسلام آباد( ویب نیوز )
سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر جج جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے ہیں کہ خاتون پینشنر کی بیٹی کی شادی ہوگئی اور پھر طلاق ہوگئی تواُس کاکھانا پینا، خرچہ کہاں سے چلے گا، یہ ریاست کی ذمہ داری ہے۔ لڑکی خوشی سے طلاق تونہیں لے رہی، پینشن فلاح کے لئے ہے، سندھ حکومت کاکوئی کیس نہیں بنتا، سوری ، درخواست خارج کی جاتی ہے۔ ہم کسی کورہاکرنے یا قید کرنے کا نہیں کہہ سکتے، ہم رہاکرنے نہیں بیٹھے بلکہ ایپلٹ کورٹ کے فیصلہ میں خامیاں دیکھ رہے ہیں۔ اضافی شواہد ہائی کورٹ خود بھی ریکارڈ کرسکتی ہے یا پھر جوڈیشل مجسٹریٹ کو ریکارڈ کروانے کے لئے کیس واپس بھجواسکتی ہے۔ ڈیپوٹیشن پر یوٹیلیٹی بلز، فون، بچوں کی فیس اورانٹرٹیمنٹ الائونس یہ سب چیزیں توملازم کونہیں ملتیں۔ جبکہ جسٹس عائشہ اے ملک نے ریمارکس دیئے ہیں کہ پینشن پر حکومت کاکوئی حق نہیں یہ سرکاری ملازم کاحق ہے، سندھ حکومت کی جانب سے درخواست دائر کرنے کی کوئی وجہ نہیں بنتی۔جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں جسٹس عائشہ اے ملک پر مشتمل 2رکنی بینچ نے جمعرات کے روز کیسز کی سماعت کی۔ بینچ نے ہمایوں اقبال شامی کی جانب سے جوائنٹ سیکرٹر ی وزارت بندرگاہیں وجہازرانی ، اسلام آباد اوردیگر کے خلاف ڈیپوٹیشن کے دوران7لاکھ57ہزار الائونسز کی ادائیگی نہ کئے جانے کے معاملہ پراسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس عامر فاروق کے فیصلہ کے خلاف دائر درخواست پرسماعت کی۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ ڈیپوٹیشن پر یوٹیلیٹی بلز، فون، بچوں کی فیس اورانٹرٹیمنٹ الائونس یہ سب چیزیں توملازم کونہیں ملتیں۔ جسٹس عائشہ اے ملک کادرخواست گزار کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ نے تمام الائونسز اپنی طرف سے بنالیے ہیں، یوٹیلیٹی بلز فری، فون فری، میڈیکل، بچوں کی فیس سب کچھ فری۔اس پر درخواست گزار کے وکیل کاکہنا تھا کہ ان کے موئکل 18ویں گریڈ میں ڈیپوٹیشن پر آئے تھے اوران کے سات لاکھ57ہزارروپے کے بقایاجات ہیں۔ اس پر جسٹس محمد علی مظہر نے عدالتی عملے کوہدایت کی کہ وہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل کوبلائیں تاکہ معاملہ کی وضاحت ہوسکے۔ عدالت کی جانب سے طلب کرنے پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل چوہدری عامر رحمان بینچ کے سامنے پیش ہوئے۔ جسٹس محمد علی مظہر کاایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ درخواست گزار کے مطابق اسٹبلشمنٹ ڈویژن کی جانب سے جاری لیٹر کے شرائط وضوابط میں تمام الائونسز لکھے ہیں، اگر شرائط وضوابط میں ہے توپیسے دینے چاہیں۔ جسٹس عائشہ اے ملک کاایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ مجموعی طور پر معاملہ کودیکھ لیں، سات، تین یا کچھ نہیں بنتا اسٹیبلشمنٹ ڈویژن والے آرڈر پاس کردیں گے۔ عدالت نے درخواست پر نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا۔ جبکہ بینچ نے قتل کیس میں ہائی کورٹ کی جانب سے کیس دوبارہ شواہد ریکارڈ کرنے کے حکم کے خلاف وسیم حسن خان کی جانب سے ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد اوردیگر کے توسط سے ریاست پاکستان کے خلاف دائر درخواست پرسماعت کی۔ جسٹس محمد علی مظہر کادرخواست گزارکی خاتون وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہناتھا کہ کیاہائی کورٹ کے پاس بطور ایپلٹ کورٹ کیس واپس ماتحت عدالت کوبھجوانے کااختیار ہے کہ نہیں، آرڈر میں غلطی بتائیں کیا ہے، ریمانڈ آرڈر میں کیا غلطی سرزد کی گئی ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ اضافی شواہد ہائی کورٹ خود بھی ریکارڈ کرسکتی ہے یا پھر جوڈیشل مجسٹریٹ کو ریکارڈ کروانے کے لئے کیس واپس بھجواسکتی ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ سی آرپی سی کی دفعہ 428کہاں استعمال ہونی چاہیئے، 428کودفعہ 411سے الگ کیا گیا ہے، اگر ہائی کورٹ شواہدریکارڈ کرنے میں کوئی نقص محسوس کرے گی تووہ اپنے پاس منگواسکتے ہیں، ہمیں معاملہ ہائی کورٹ کوبھجوانا پڑے گا۔ وکیل کاکہنا تھا کہ اُن کے مئوکل 7مارچ2023سے جیل میں ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ ہم کسی کورہاکرنے یا قید کرنے کا نہیں کہہ سکتے، ہم رہاکرنے نہیں بیٹھے بلکہ ایپلٹ کورٹ کے فیصلہ میں خامیاں دیکھ رہے ہیں۔جسٹس عائشہ اے ملک کاکہنا تھا کہ ہم ہائی کورٹ کوکہیں گے کہ وضاحت کرے۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ ہم فیصلے سے مطمئن نہیں ، ہائی کورٹ نئے شواہد بھی منگواسکتی ہے اور پرانے شواہد پربھی فیصلہ کرسکتی ہے۔ بینچ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کافیصلہ کالعدم قراردیتے ہوئے معاملہ دوبارہ فیصلہ کے لئے ہائی کورٹ کوبھجوادیا۔ بینچ نے حکم دیا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ دونوں فریقین کو سننے کے بعد نئے سرے سے کیس کافیصلہ کرے۔ جبکہ بینچ نے حکومت سندھ، کراچی اوردیگر کی جانب سے طلاق یافتہ بیٹی کووالدہ کی پینشن دینے کے معاملہ پرمسمات صورتھ فاطمہ کے خلاف دائردرخواست پرسماعت کی۔ سندھ حکومت کی جانب سے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سبطین محمود پیش ہوئے۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ خاتون پینشنر کی بیٹی کی شادی ہوگئی اور پھر طلاق ہوگئی تواُس کاکھانا پینا، خرچہ کہاں سے چلے گا، یہ ریاست کی ذمہ داری ہے۔جسٹس عائشہ ملک کاکہنا تھا کہ پینشن پر حکومت کاکوئی حق نہیں یہ سرکاری ملازم کاحق ہے، سندھ حکومت کی جانب سے درخواست دائر کرنے کی کوئی وجہ نہیں بنتی۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ لڑکی خوشی سے طلاق تونہیں لے رہی، پینشن فلاح کے لئے ہے، سندھ حکومت کاکوئی کیس نہیں بنتا، سوری ، درخواست خارج کی جاتی ہے۔ ZS



