پارلیمنٹ کاتقدس برقراررہنا چاہیئے، پالیسی معاملات حکومت کاکام ہے،سپریم کورٹ
اراکین پارلیمنٹ ملک کے وفادار بنیں پارٹی کے وفادارنہ بنیں۔ اگر 10 فیصد ٹیکس لگ رہا ہے، نتیجہ کیا نکلے گا
ججز کے سپرٹیکس معاملے پر دوران سماعت ریمارکس
اسلام آباد(ویب نیوز)
سپریم کورٹ آف پاکستان کے آئینی بینچ میں سُپرٹیکس کے نفاذ کے معاملہ پرلاہور، سندھ اور اسلام آباد ہائی کورٹس کے فیصلوں کے خلاف دائر درخواستوںکی سماعت کے دوران بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیئے ہیں کہ یہ بات بھی سامنے ہونی چاہیے کہ اگر 10 فیصد ٹیکس لگ رہا ہے تو کتنے لوگ متاثر ہوں گے اورکتنوں کوفائدہ ہوگا، نتیجہ کیا نکلے گا۔ پالیسی معاملات حکومت کاکام ہے۔جبکہ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے ہیں کہ سب ارکان ملک کے مفاد کودیکھیں، یہ نہ دیکھیں ان کی پارٹی کیاکہتی ہے، پارلیمنٹ میں کوئی پارٹی نہیں یہ آئین میں ہے، پارلیمنٹ کے اند پارلیمانی پارٹی ہوتی ہے۔ کہا گیا کہ عدالتوں کوسیاسی معاملات سے دوررہنا چاہیئے، سیاست کہاں سے آئی ہے، آئین سے آئی ہے، وکیل بار، بار ساکھ کی بات کرکے سیاست میں جارہے ہیں، پارلیمنٹ کاتقدس برقراررہنا چاہیئے۔ پارلیمنٹ کافیصلہ کاروبارکے لئے مثبت ہے یا منفی ہے، ہم پارلیمنٹ کااحترام کرتے ہیں، مقصد یہ ہونا چاہیئے کہ ٹیکس لگتارہے اورعوام پر بوجھ بھی نہ ہو اور ٹیکس بڑھتا بھی رہے۔ اپوزیشن نے مخالفت ہی کرناہوتی ہے۔ کوروناکے وقت میڈیکل آلات بنانے والوں نے زیادہ منافع کمایا۔ سرکاری ملازمین کوکہتے ہیں اتنی تنخواہ بڑھا رہے ہیںا ور اُتنا ٹیکس کاٹ لیتے ہیں، ایک ہاتھ سے دیتے ہیں اوردوسرے ہاتھ سے واپس لے لیتے ہیں۔ مدعلیہان ملک کے وسیع ترمفاد میں اپنا نقصان کرلیں۔ بادشاہ توکچھ بھی کرسکتا ہے، جمہوریت اور بادشاہت میں یہی فرق ہے کہ قانون کے مطابق کام کرتے ہیں، عوامی مفاد میں کسی کاروبار کوبند کرسکتے ہیں اورکسی کی جائیداد کی ریاست تحویل میں لے سکتے ہیں تاہم اس کے لئے وضاحت کرنا ہوگی۔ سماجی اور معاشی انصاف آئین کے مطابق ہونا چاہیئے، مدعاعلیہ ریاست سے انصاف چاہتے ہیں اور کہہ رہے ہیں جو کرنا ہے انصاف کریں۔جبکہ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے ہیں کہ کسی ٹیکس ماہر سے پوچھیں گے تووہ بھی یہی کہے گا یا مجھ سے پوچھیں گے تومیں بھی کہوں گاکہ کم ازکم ٹیکس لگانا چاہیئے۔ آخرمیں صارف نے ہی ادائیگی کرنی ہے۔جبکہ جسٹس سید حسن اظہررضوی نے ریمارکس دیئے ہیں کہ اراکین پارلیمنٹ ملک کے وفادار بنیں پارٹی کے وفادارنہ بنیں۔اراکین پارلیمنٹ عوام کے ووٹ سے منتخب ہوتے ہیں انہیں پتا ہونا چاہیے عوامی مسائل کیا ہیں،کیا آج تک کسی رکن اسمبلی نے عوامی مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے تجاویز دی ہیں، کیوں کمیٹیوں میں کوئی بحث نہیں ہوتی،کوئی بحث ہوتی بھی ہے یا ایسے ہی بل آتا ہے اور پاس ہوجاتاہے۔سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں جسٹس جمال خان مندوخیل،جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس سید حسن اظہررضوی اورجسٹس شاہد بلال حسن پر مشتمل 5رکنی آئینی بینچ نے جمعرات کے روز فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر )کی جانب سے سُپرٹیکس کے نفاذ کے معاملہ پرلاہور، سندھ اور اسلام آباد ہائی کورٹس کے فیصلوں کے خلاف دائر2044 درخواستوںپر سماعت کی۔ دوران سماعت مدعاعلیہان کے وکیل سابق اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے دلائل دیئے جبکہ وہ آج (جمعہ)کو بھی دلائل کاسلسلہ جاری رکھیں گے۔ خالد جاوید خان کاکہنا تھا کہ ونڈفال منافع یہ ہے کہ کوئی ڈالر خریدتا ہے اوراس کی قیمت بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے یا کوئی پانچ ڈالرز کی لاٹری خریدتاہے اوراس کے دو کروڑ روپے نکل آتے ہیں۔ خالد جاوید خان کاکہنا تھا کہ سندھ ہائی کورٹ نے 4-Bکوبرقراررکھاتھا اس لئے اُس نے 4-Cکو بھی برقراررکھا۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ 2022کا مالی سال کب شروع ہوگا، کیاآپ کامختلف نقطہ نظر ہے۔ خالد جاویدخان کاکہنا تھا کہ میں اس حوالہ سے کچھ نہیں کہوں گا، اگر4-Bمخصوص مقصد کے لئے تھا توپھر یہ ٹیکس نہیں تھا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے خالد جاوید سے استفارکیا کہ کیاآپ 4-Bکے حق میں ہیں۔ اس پر خالد جاوید خان کہنا تھا کہ میں اس حوالہ سے آپ کوکسی نجی محفل میں بریف کروں گا۔ 4-Bمیں ہرکوئی شامل تھااور4-Cمیں مخصوص شعبوں کوشامل کیا گیا ہے، بینکنگ کمپنیوں کے علاوہ دیگر کے لئے سال 2022میں 4-Bزیروفیصد تھا۔ خالد جاوید کاکہنا تھا کہ اگر 15مخصوص شعبوں میں موجود کوئی کمپنی دیگرکاروبارکرتی ہے اور اُس کی 90فیصد آمدن اُس کاروبارسے آتی ہے تواسے بھی 10فیصد سُپرٹیکس دینا پڑے گا۔ جسٹس جمال مندوخیل کاکہنا تھا کہ کیاٹیکس لگانے سے قبل کوئی ٹیکس ماہرین سے مشاورت ہوتی ہے، پارلیمنٹ میں بل لانے کا طریقہ کار کیا ہے۔اس پر خالد جاوید خان کاکہنا تھا کہ پالیسی بنانا اور ٹیکس وصولی دو مختلف چیزیں ہیں، ٹیکس کلیکٹر ایف بی آر میں سے ہوتے ہیں جو ٹیکس اکھٹا کرتے ہیں، پالیسی بنانا پارلیمنٹ کا کام ہے، اگر میں پالیسی میکر ہوں تو میں ماہرین سے پوچھوں گا کہ کیا عوام کو اس کا فایدہ ہے یا نقصان۔خالد جاوید خان کاکہنا تھا کہ میں پہلے نارمل ٹیکس دوںگا پھر سُپر ٹیکس لگے گااورپھر 2024سے سرچارج ٹیکس بھی لگادیا۔ خالد جاوید خان کاکہنا تھا کہ 2021میں کوروناکی وجہ سے ایئرلائنز کامنافع5فیصد تھا جو 2022میں کاروبار کھلنے پر زیادہ ہوگیااور کہا گیا کہ بہت زیادہ منافع ہوگیااس لئے سُپر ٹیکس لگادیا۔ خالد جاوید کاکہنا تھا کہ 2021میں کوئی معاشی سرگرمی نہیں تھی اورلوگ آن لائن کام کرتے تھے تاہم آئی ٹی سیکٹر پرکوئی ٹیکس نہیں لگایا گیا۔ جسٹس جمال مندوخیل کاکہنا تھا کہ کوروناکے وقت میڈیکل آلات بنانے والوں نے زیادہ منافع کمایا۔جسٹس سید حسن اظہررضوی کاکہنا تھا کہ اراکین پارلیمنٹ عوام کے ووٹ سے منتخب ہوتے ہیں انہیں پتا ہونا چاہیے عوامی مسائل کیا ہیں،کیا آج تک کسی رکن پارلیمنٹ نے عوامی مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے تجاویز دی ہیں، کیوں کمیٹیوں میں کوئی بحث نہیں ہوتی،کوئی بحث ہوتی بھی ہے یا ایسے ہی بل آتا ہے اور پاس ہوجاتاہے۔ خالد جاوید خان کاکہنا تھا کہ مجھے نہیں یاد پڑتا کہ آج تک کسی ٹیکس ماہرسے رائے لی گئی ہوگی۔ خالد جاوید خان کاکہنا تھا کہ قومی اسمبلی میں آج تک کسی ٹیکس ایکسپرٹ کو بلا کر ٹیکس کے بعد نفع نقصان پر بحث نہیں ہوئی، وزیر خزانہ نے کہا کہ وہ سپر ٹیکس کے حامی ہیں، قومی اسمبلی میں ایسی بحث نہیں ہو سکتی جو ایک کمیٹی میں ہوتی ہے۔جسٹس سیدحسن اظہررضوی کاکہنا تھا کہ یہی سوال ہم نے ایف بی آر کے وکلا سے پوچھا تھا، ایف بی آر کے وکلا نے جواب دیا تھا مختلف چیمبرز آف کامرس سے ماہرین کو بلایا جاتا ہے،اگر ایسی کوئی میٹنگ ہوئی ہوتووہ بھی جمع کروائیں، اگر یہ تجاویز قوم کی بہتری کے لئے ہیں توانہیں نافذ کیا جائے،ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ مختلف کمیٹیاں ہیں،، مختلف کمیٹیاں ہیں ان کاکیا نتیجہ ہوتا ہے یہ سمجھ نہیں آتا۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہناتھا کہ اصول تو یہ ہے کہ ٹیکس نافذ کرنے سے پہلے ماہرین کی رائے ہونی چاہیے۔جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ کسی ٹیکس ماہر سے پوچھیں گے وہ بھی یہی کہے گا یا مجھ سے پوچھیں گے تومیں بھی کہوں گاکہ کم ازکم ٹیکس لگانا چاہیئے۔جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ یہ بات بھی سامنے ہونی چاہیے کہ اگر 10 فیصد ٹیکس لگ رہا ہے تو کتنے لوگ متاثر ہوں گے اورکتنوں کوفائدہ ہوگا، نتیجہ کیا نکلے گا۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ آخرمیں صارف نے ہی ادائیگی کرنی ہے۔خالد جاوید خان کاکہنا تھا کہ جوبھی تجاویز آتی ہیں وہ پارلیمنٹ کے سامنے توپیش کرنی چاہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ آپ کااپنا ڈوزیئرتوبنے۔ جسٹس سید حسن اظہررضوی کاکہنا تھا کہ ڈوزیئر پھاڑ کر اچھالنے میں کام آتے ہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل کاکہنا تھا کہ اپوزیشن نے مخالفت ہی کرناہوتی ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل کاکہنا تھا کہ پارلیمنٹ کافیصلہ کاروبارکے لئے مثبت ہے یا منفی ہے، ہم پارلیمنٹ کااحترام کرتے ہیں، مقصد یہ ہونا چاہیئے کہ ٹیکس لگتارہے اورعوام پر بوجھ بھی نہ ہو اور ٹیکس بڑھتا بھی رہے۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ رولز آف بزنس میں کیا پروسیجر ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل کاکہنا تھا کہ سب ارکان ملک کے مفاد کودیکھیں، یہ نہ دیکھیں ان کی پارٹی کیاکہتی ہے، پارلیمنٹ میں کوئی پارٹی نہیں یہ آئین میں ہے، پارلیمنٹ کے اند پارلیمانی پارٹی ہوتی ہے۔ جسٹس سید حسن اظہررضوی کاکہنا تھا کہ ارکان کم ازکم تجاویز تودیں۔ جسٹس سید حسن اظہررضوی کا کہنا تھا کہ اراکین پارلیمنٹ ملک کے وفادار بنیں پارٹی کے وفادارنہ بنیں۔ خالد جاوید خان کاکہنا تھا کہ جس طرح تحمل کے ساتھ یہ بینچ وکلاء کوسن رہا ہے اس طرح کسی اوربینچ میں نہیں سنا جاتا۔ خالد جاوید خان کاکہنا تھا کہ ایک ہی قسم کاٹیکس دوبارہ نافذ نہیں کیاجاسکتا،4-Bلگ رہا ہے تو 4-Cنہیں لگ سکتا، ایک ہاتھ سے دے رہے ہیں اوردوسرے ہاتھ سے واپس لے رہے ہیں ایسانہیں ہوسکتا۔ جسٹس جمال مندوخیل کاکہنا تھا کہ سرکاری ملازمین کوکہتے ہیں اتنی تنخواہ بڑھا رہے ہیںا ور اُتنا ٹیکس کاٹ لیتے ہیں، ایک ہاتھ سے دیتے ہیں اوردوسرے ہاتھ سے واپس لے لیتے ہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل کاکہنا تھا کہ اگر 4-Bکو غیر قانونی قراردیا جاتا ہے توپھر بینکنگ کمپنیاں توکوئی ٹیکس نہیں دیں گی۔ خالد جاوید خان کاکہنا تھا کہ 2023میں 4-Bنہیں لگا اس کی کٹ آف ڈیٹ 2021ہونی چاہیئے تھی۔ خالد جاوید خان کاکہنا تھا کہ سندھ ہائی کورٹ نے قراردیا کہ 4-Bکے تحت پیداشدہ حقوق کو 4-Cکے زریعہ واپس نہیں لیاجاسکتا۔ جسٹس جمال مندوخیل کاکہنا تھا کہ مدعلیہان ملک کے وسیع ترمفاد میں اپنا نقصان کرلیں۔ خالد جاوید کاکہنا تھا کہ ریاست کے حقوق نہیں بلکہ اختیارات ہیں، حقوق شہریوں کے ہوتے ہیں، اگر پارلیمنٹ کچھ کہے کہ 2010تک کرسکتے ہیں اور پھر اسے 2008تک تبدیل کردے توپھر پارلیمنٹ کی کیاساکھ رہ جائے گی، پارلیمنٹ کی ساکھ ایگزیکٹو سے زیادہ ہونی چاہیئے۔ جسٹس جمال مندوخیل کاکہنا تھا کہ کہا گیا کہ عدالتوں کوسیاسی معاملات سے دوررہنا چاہیئے، سیاست کہاں سے آئی ہے، آئین سے آئی ہے، وکیل بار، بار ساکھ کی بات کرکے سیاست میں جارہے ہیں، پارلیمنٹ کاتقدس برقراررہنا چاہیئے۔ جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ پالیسی معاملات حکومت کاکام ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل کاکہنا تھا کہ بادشاہ توکچھ بھی کرسکتا ہے، جمہوریت اور بادشاہت میں یہی فرق ہے کہ قانون کے مطابق کام کرتے ہیں، عوامی مفاد میں کسی کاروبار کوبند کرسکتے ہیں اورکسی کی جائیداد کی ریاست تحویل میں لے سکتے ہیں تاہم اس کے لئے وضاحت کرنا ہوگی۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ ایف بی آر وکلاء کو4-Bاور4-Cکے درمیان فرق بتاناہے۔ جسٹس جمال مندوخیل کاکہنا تھا کہ سماجی اور معاشی انصاف آئین کے مطابق ہونا چاہیئے، مدعاعلیہ ریاست سے انصاف چاہتے ہیں اور کہہ رہے ہیں جو کرنا ہے انصاف کریں۔ خالد جاوید کاکہنا تھا کہ جسٹس محمد علی مظہر کافیصلہ ہے کہ ٹیکس لینا ہے توکسی طریقہ سے لیں۔ اس پر جسٹس جمال مندوخیل کاکہنا تھا کہ کہیں بائونڈری پر کیچ نہ ہوجائے۔ جسٹس جمال مندوخیل کاکہنا تھا کہ یہ ہوسکتا ہے کہ حکومت کل کو 4-Bکے تحت ماضی کاٹیک دوبارہ مانگ لے، ہم نہیں لگائیں گے لگانے والے لگائیں گے، یہ نہ ہولینے کے دینے پڑجائیں۔ خالد جاوید کابینچ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ لگانے والے ہیں توبچانے والے بھی ہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل کاکہنا تھا کہ اگر قانون میں ابہام ہے توپارلیمنٹ قانون میں ترمیم کرکے ابہام دورکردے۔ خالد جاوید کاکہنا تھا کہ ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ 4-Bکے تحت 2023میں ٹیکس لے سکتے ہیں 2022کے لئے نہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل کاکہنا تھا کہ کسی نے بتادیا ہوگا کہ آپ کمارہے ہیں۔ بینچ نے کیس کی مزید سماعت آج (جمعہ)تک ملتوی کردی۔ ZS




