غزہ شہر پر اسرائیلوں حملوں میں شدت،مزید 51 فلسطینی شہید
قحط اور غذائی قلت کے باعث مزید دو اموات، بھوک سے مرنے والوں کی تعداد 442 ہو گئی
غزہ ( ویب نیوز)
اسرائیلی فوج نے غزہ شہر پر حملوں کو مزید شدید کر دیا ہے۔ عرب میڈیا کے مطابق ہفتے کے روز شہر کے مختلف علاقوں میں غیر معمولی فضائی بم باری کی گئی، جبکہ اسرائیلی ٹینک پہلی مرتبہ غزہ کے مرکزی علاقے شارع الجلا اور شیخ رضوان محلے کے قریب تک پہنچ گئے ہیں۔ یہ اقدام شہر کے اہم ترین راستوں پر پیش قدمی کا اشارہ ہے۔طبی ذرائع نے بتایا کہ صرف ایک دن میں اسرائیلی حملوں میں 51 فلسطینی شہید ہوئے، جن میں 43 افراد غزہ شہر ہی کے رہائشی تھے۔ اس کے ساتھ ہی وزارت صحت نے اعلان کیا کہ قحط اور غذائی قلت کے باعث مزید دو افراد جان کی بازی ہار گئے۔ اس طرح قحط کا شکار ہو کر موت کے منہ میں جانے والے افراد کی مجموعی تعداد 442 ہو گئی ہے جن میں 147 بچے شامل ہیں۔ وزارت صحت نے عالمی اداروں سے فوری اور ہنگامی مدد کی اپیل دہرائی ہے۔اسرائیلی ویب سائٹ "ویلا” کے مطابق تل ابیب نے غزہ شہر پر قبضے کی کارروائی میں تین بڑی فوجی ڈویژن تعینات کی ہیں، جو بیک وقت مختلف سمتوں سے حملہ آور ہیں۔ اسرائیلی افسران نے دعوی کیا کہ پیش رفت توقعات سے کہیں زیادہ تیز ہے۔ ادھر غزہ کے سول ڈیفنس نے بتایا کہ اب تک 4.5 لاکھ فلسطینی شہر چھوڑ کر جنوب کی طرف جا چکے ہیں، جبکہ اسرائیلی فوج کے مطابق یہ تعداد تقریبا 4.8 لاکھ ہے.عالمی سطح پر بھی ردِ عمل کا سلسلہ جاری ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا کہ دنیا کو اسرائیل کی انتقامی دھمکیوں سے خوف زدہ نہیں ہونا چاہیے کیونکہ تل ابیب اپنی پالیسیوں پر ہر حال میں قائم رہے گا۔ ان کے مطابق اسرائیلی حکومت غزہ کی مکمل تباہی اور مغربی کنارے کے تدریجی انضمام کی طرف بڑھ رہی ہے۔ انھوں نے غزہ کے حالات کو اپنی زندگی اور عہدے کی بد ترین صورت حال قرار دیا۔یورپ میں فلسطینی ریاست کے اعتراف کے اعلانات سامنے آ رہے ہیں۔ فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے اعلان کیا کہ پیر کے روز ان کی حکومت با ضابطہ طور پر فلسطینی ریاست کو تسلیم کرے گی۔ ان کے مطابق یہ اقدام ایک جامع امن منصوبے کا حصہ ہے، جس کا مقصد اسرائیلیوں اور فلسطینیوں دونوں کے لیے امن و سلامتی کو یقینی بنانا ہے۔واضح رہے کہ 7 اکتوبر کے بعد شروع ہونے والی اسرائیلی فوجی کارروائیوں میں اب تک غزہ کی صحت حکام کے مطابق 65 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت عام شہریوں کی ہے۔




