غزہ، بارشوں  میں  13 ہزارخاندانوں نے بچھا کھچا سامان بھی کھو دیا

خیموں اور پناہ گاہ کے لیے سارا سامان تیار موجود ہے،  غزہ میں داخل  کی اجازت نہیں دی جا رہی

غزہ  کے ہزاروں خاندان اب مکمل طور پر سخت موسم کی زد میں ہیں اقوامِ متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی    انرو

غزہ (  ما نیٹرنگ ڈیسک   )  اقوامِ متحدہ کے مطابق غزہ میں بارشوں سے 13 ہزار سے زائد خاندان متاثر ہوئے، اور ہزاروں نے وہ تھوڑا سا سامان بھی کھو دیا جو ان کے پاس بچا تھا اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی    انروا کے مطابق بارش نے غزہ کے انسانوں پر ٹوٹتی آفتوں کی شدت مزید بڑھا دی ہے۔ ادارہ کہتا ہے کہ اس کے پاس خیموں اور پناہ گاہ کے لیے سارا سامان تیار موجود ہے، مگر اسے تاحال غزہ میں داخل کرنے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔ ادارے نے جاری صورت حال کو ”تباہ کن نتائج” کا پیش خیمہ قرار دیا ہے۔ اقوام متحدہ کے ترجمان اسٹیفن دوجاریک نے بھی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ”ہزاروں خاندان اب مکمل طور پر سخت موسم کی زد میں ہیں، جس سے بیماریوں اور صحت کے مسائل کا خطرہ کئی گنا بڑھ گیا ہے”۔ اوتچا کا کہنا ہے کہ اس کی امدادی ٹیمیں کئی ہفتوں سے بارش کے متوقع اثرات کم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

ادارے نے بتایا کہ حالیہ ایام میں اس نے 1 ہزار خیمے دیر البلح اور خان یونس میں، 7 ہزار کمبل،15 ہزار ترپال اور 500 سے زائد خاندانوں کے لیے سرمائی ملبوسات تقسیم کیے ہیں۔ اسی طرح بعض عارضی رہائشی علاقوں میں آلودہ پانی کے بہاؤ کے خطرے کو کم کرنے کے لیے نکاسی آب کے پمپوں کی محدود مرمت بھی کی گئی ہے۔ یاد رہے سرد موسم  میں محض چند گھنٹوں کی تیز بارش نے غزہ کی بے سہار ا آبادی کی بقیہ آسائشوں کا پردہ چاک کر دیا۔ خان یونس کے مغربی علاقے المواصی کی خیمہ بستیاں دلدل میں بدل گئیں اور ہزاروں خاندان ایک نئی جنگ میں گھر گئے، جنگ سردی کی، پانی کی، کیچڑ کی اور بے کسی کی۔ اُس کڑاکے دار رات میں میساء ابو عنزہ نے خود کو بچوں کو چیخیں مار کر جگاتے ہوئے پایا، جب طوفانی بارش ان کی خیمہ نما پناہ گاہ کو چیرتی ہوئی اندر داخل ہو گئی۔ بستر بھیگ گئے، کپڑے بھیگ گئے اور ان کے پاس بچا کھچا سب کچھ پانی میں ڈوب گیا۔ سالی کے پاس بچ نکلنے کا واحد راستہ اپنے بھائی کی خیمہ گاہ تھی، جو اُس کے بقول ”تھوڑی کم خراب” تھی۔ اس کے لہجے میں گذشتہ رات کی کپکپی آج بھی لرز رہی تھی۔ ایک دوسرے سے چپکے خیمے جیسے ایک دوسرے سے حفاظت مانگ رہے ہوں، اپنی حفاظت تک نہ کر سکے۔ درجنوں خیمے مکمل طور پر ڈوب گئے، کیوں کہ خیمہ بستی نشیبی زمین پر قائم تھی اور بارش کے پانی کی نکاسی کا کوئی انتظام موجود نہ تھا۔ بارش نے خیمہ بستی کی گلیوں اور دھنسی ہوئی راہداریوں کو کیچڑ کے دریا بنا دیا۔ قریب ہی ”ام احمد” اپنا کپکپاتا ہوا پوتا اٹھائے اندھیرے میں خشک جگہ کی تلاش میں سرگرداں تھی۔ اس کا خیمہ دو سال سے زیادہ عرصہ موسموں کی مار جھیلنے کے بعد اب بارش روکنے کے قابل نہ رہا تھا۔ وہ دکھ سے کہتی ہے ”نیا خیمہ اب اتنا مہنگا ہے کہ خرید ہی نہیں سکتے، یہاں دو ہزار سے زیادہ خاندان اب بھی پھٹے پرانے خیموں میں زندہ رہنے کی کوشش کر رہے ہیں”۔ اس کے مطابق بازار میں ایک خیمے کی قیمت 500 ڈالر تک پہنچ چکی ہے اور موسم سرما کی آمد کے باوجود ہزاروں بے گھر افراد کے پاس اب بھی کوئی متبادل نہیں۔ صلاح زنون جو ”المسلخ الترکی” کے قریب مقیم ہے ایسی جگہ رہ رہا ہے جسے خیمہ کہنا بھی مشکل ہے۔ محض ایک چادراور کچھ کپڑے، جو لکڑی کے ڈنڈوں کے گرد باندھے گئے ہیں۔ اس کے دو بچے شدید معدے کی سوزش کے باعث ہسپتال منتقل کیے گئے، جس کی بنیادی وجہ خیمے کی نمی اور ہڈیوں میں اترتی سردی تھی۔ صلاح کہتا ہے کہ ”جنگ نے لوگوں کی جیبیں کھوکھلی کر دی ہیں۔ ہم خیراتی کھانوں اور امداد پر زندہ ہیں، کوئی پائیدار سہارا باقی نہیں”۔ ”فلسطین کیمپ” کے نامزد نمائندہ محمد النجار کا کہنا ہے کہ گذشتہ موسمی دباؤ کے دوران ایک سو سے زیادہ خیموں میں پانی داخل ہو گیا تھا۔ اس کے مطابق پوری خیمہ بستی میں موجود چھ سو خیموں میں سے نصف کو فوری طور پر تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ اپنے بیان میں کہتا ہے کہ ‘ہم ایک مہینہ پہلے سے خبردار کر رہے تھے… ہم جانتے تھے کہ پہلی بارش ہی ایک بڑی آفت بنے گی’۔ اسی طرح بعض عارضی رہائشی علاقوں میں آلودہ پانی کے بہاؤ کے خطرے کو کم کرنے کے لیے نکاسی آب کے پمپوں کی محدود مرمت بھی کی گئی ہے۔ مگر یہ سب بھی کافی نہیں۔ اوتچا کے مطابق قابض اسرائیل 11 اکتوبر سے اب تک خیموں، موصلہ سامان، بستر، اور کچن کے بنیادی آلات سمیت 23 ہنگامی امدادی درخواستیں مسترد کر چکا ہے۔   غزہ میں قید ایک پوری قوم کے لیے سخت سردیوں کا تصور کرنے کے لیے کسی بڑے تخیل کی ضرورت نہیں۔ جگہ جگہ چاک ہو چکے خیمے، کیچڑ سے اٹی زمین، بے رحم ٹھنڈ کے تھپیڑے اور وہ بچے جو رات کو یا تو بارش کے شور پر جاگتے ہیں یا مسلسل کھانسی کی اذیت پر۔