وزیراعظم‘ آرمی چیف اور عمران خان سمیت سب کو آنا ہوگا‘
آرمی چیف کو بطور گواہ یا بیان حلفی کون لائے گا
اسلام آباد(خصو صی رپورٹ) سپریم کورٹ نے وزیراعظم میاں نواز شریف کی نااہلی کیخلاف دائر درخواستوں کی سماعت 15 اکتوبر تک ملتوی کرتے ہوئے درخواست گزاروں کو درخواستوں میں ترمیم کرنے کی اجازت دے دی۔ عدالت نے کہا کہ درخواستیں واپس نہیں ہوں گی‘ اگلی سماعت پر درخواستوں کے قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کرسکتے ہیں‘ درخواست سماعت کیلئے منظور کرلی گئی تو پھر اس کی سماعت کے طریقہ کار کا تعین کریں گے جبکہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں‘ درخواست گزاروں نے اچھا کیا کہ معاملہ سپریم کورٹ لے آئے‘ وزیراعظم‘ آرمی چیف اور عمران خان سمیت سب کو آنا ہوگا‘ ملک کے اصل حاکم عوام ہیں ان تک حقائق کا پہنچنا ضروری ہے‘ پولیٹیکل اسٹیبلشمنٹ اور آرمی کے درمیان کچھ تو بات ہوئی ہے اس کی تہہ تک جائیں گے‘ بند دروازوں میں کیا ہوتا رہا کسی کو کچھ معلوم نہیں‘ عوام کو بھی پتہ چلنا چاہئے کہ اصل حقائق کیا ہیں؟ عوام کا حق ہے کہ ان کی قسمت کا فیصلہ انہیں معلوم ہونا چاہئے‘ آرمی چیف کو بطور گواہ یا بیان حلفی کون لائے گا‘ اخباری خبروں پر درخواست ڈال دی گئی اب اس کا فیصلہ تو کرنا پڑے گا‘ بات آگے تک جائے گی‘ بیانات ہوں گے اور جرح بھی ہوگی‘ بتایا جائے کہ فوج کی تضحیک کے کیا الفاظ استعمال کئے گئے‘ ہمیں سب سے پہلے اپنے اختیار سماعت کا طے کرنا ہے جبکہ جسٹس مشیر عالم نے ریمارکس دئیے ہیں‘ فیصلہ کسی کے بھی گلے پڑ سکتا ہے‘ آئین کے تحت نااہلی کا سوال سزا کے بعد ہوتا ہے‘ سابق وزیراعظم سزا کے بعد نااہل ہوئے جبکہ جسٹس دوست محمد خاننے کہا کہ صحابہ کرامؓ کے بعد شاید ہی کوئی صادق و امین رہا ہو‘ وزیراعظم اور آرمی چیف کے درمیان کیا باتیں ہوئیں کوئی نہیں جانتا‘ سود حرام ہے مگر ہم سب کھاتے ہیں‘ وزیراعظم نے آرمی چیف کو بلایا تھا یا نہیں تردید یا تصدیق آرمی چیف ہی کرسکتے ہیں۔ انہوں نے یہ ریمارکس جمعرات کے روز مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین اور تحریک انصاف سمیت دیگر کی درخواستوں کی سماعت کے دوران دئیے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں قائم تین رکنی بنچ نے سماعت شروع کی تو اس دوران درخواست گزار گوہر نواز سندھو پیش ہوئے تو عدالت نے ان سے پوچھا کہ آپ کو بنچ پر کوئی اعتراض ہے تو اس پر سندھو نے کہاکہ باتیں چل رہی ہیں مگر انہیں کوئی اعتراض نہیں۔ وزیراعظم نے پارلیمٹ کے فلور پر جھوٹ بولا ہے اس کی تقریر سپیکر سے لے کر نہیں دے سکتے اس پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ یہ تقریر ہم آپ کو قومی اسمبلی کی ویب سائٹ سے لے کر دے سکتے ہیں۔ سندھو نے کہا کہ وزیراعظم آرٹیکل 62 کے تحت صادق اور امین نہیں رہے اس پر جسٹس دوست محمد خان نے کہا کہ اب تو اس قوم کا اللہ ہی حافظ ہے کیونکہ صحابہ کرامؓ کے بعد شاید ہی کوئی صادق اور امین رہا ہو باقی ساری کتابی باتیں ہیں۔ جسٹس مشیر عالم نے درخواست گزار سے کہا کہ کیا آپ کو معلوم ہے کہ آرٹیکل 62 میں کیا کہا گیا ہے اس پر سندھو کا کہنا تھا کہ یہ کسی بھی رکن کے صادق اور امین ہونے کا فیصلہ کرتا ہے اس پر جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ رکن پر سزا سے قبل نااہلی کیسے لاگو ہوسکتی ہی۔ سابقوزیراعظم کو بھی سزا کے بعد نااہلی ہوئی۔ جسٹس جواد نے کہا کہ آپ کی بات مان لیں جوکہ اخباری خبر ہے اس پر تحریک انصاف کے وکیل نے کہا کہ آپ کو بھی حالات اخبارات کی خبروں کو پڑھنے کے بعد ہوتے ہیں۔ جسٹس جواد نے کہا کہ اس سارے معاملے کیلئے آرمی چیف سے بیان حلفی لینا پڑے گا یا پھر آپ کو ان کی تصدیق کیلئے بلانا پڑے گا آپ یہ سب کیسے کریں گے۔ سماعت جاری تھی کہ درخواست گزاروں نے عدالت سے استدعاء کی کہ انہوں نے اپنی درخواستوں میں مزید ترامیم کرنی ہیں اس کی اجازت اور مہلت دی جائے اس پر عدالت نے کہا کہ آپ ترمیم کرلیں ہم یہ کیس واپس نہیں کریں گے۔ درخواست گزار گوہر نواز سندھو نے کہاکہ یہ کیس ان کیلئے وسیلہ نجات ہے وہ کیسے واپس لے سکتے ہیں۔ بعدازاں عدالت نے سماعت 15 اکتوبر تک ملتوی کرتے ہوئے کہا کہ پہلے عدالت اپنے اختیار سماعت کا جائزہ لے گی۔ درخواست کے قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کیا جائے گا۔ درخواست سماعت کیلئے منظور کرلی تو پھر سماعت کے طریقہ کار کا تعین کیا جائے گا۔