سابق گورنر سٹیٹ بینک آف پاکستان ڈاکٹر شمشاد اختر نے کہا ہے کہ کورونا وبا کی وجہ سے ترقی پزیر ممالک، خصوصا پاکستان جیسے گنجان آباد ممالک کو خوراک کی فراہمی بحال رکھنے کا ایک بڑا چیلنج درپیش ہے۔ ان ممالک خصوصا جن کا تعلق ایشیا۔ پیسفک خطے سے ہیںمیں معیاری اصلاحات نہ ہونے کی وجہ سے صحت کا شعبہ توجہ سے محروم رہا ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی(ایس ڈی پی آئی)کے زیر اہتمام یو این اسکیپ کا اقتصادی و معاشی سروے برائے ایشیا و پیسیفک2020- پاکستان کیا سیکھ سکتا ہے کے زیر عنوان آن لائن مکالمے کے دوران گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ ڈاکٹر شمشاد اختر نے کہا کہ دوسرے ترقی پزیر ممالک کی طرح پاکستان کی رقوم خرچ کرنے کی صلاحیت بھی خاصی کم رہی ہے۔ تاہم بین الاقوامی مالیاتی اداروں نے کورونا سے نمٹنے میں مدد دینے کے لیے حال ہی میں جن سہولتوں کی پیشکش کی ہے، ان کا کافائدہ اٹھاتے ہوئے صحت اور سماجی تحفظ کے شعبوں کی بہتری پر توجہ مبذول کی جا سکتی ہے۔یو این اسکیپ کے افسر اقتصادی امور ڈاکٹر ڈینیل جیانگ ڈائے لی نے یونیسکیپ کے سروے 2020 کی تفصیلی پیش کرتے ہوئے کہا کہ بلند شرح نمو کے نتیجے میں گزشتہ دو دہائیوں کے دوران ایشیا۔پیسفک خطے میں ایک ارب کے قریب لوگ خط غربت سے اوپر آئے ہیں تا ہم آمدنی اور مواقع کے حوالے سے کئی نا ہمواریاں بھی پیدا ہوئی ہیں جن کے آنے والی نسلوں کی بہبود پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ماحولیاتی ایکٹ 2017، اورکوئلے پر کم انحصارکا منصوبہ درست سمت میں اقدامات کی بنیاد بن سکتے ہیں اور گرین اکستان فنانسنگ سے ان اہداف کے حصول میں مدد مل سکتی ہے۔ ایس ڈی پی آئی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر عابد قیوم سلہری نے کہا کہ وبا کے نتیجے میں غذائی بحران کے بڑہتے ہوئے خدشے کے پیش نظر خطے کے ممالک کو باہمی تعاون میں اضافہ کرنا چاہئے تھا۔ سارک اس ضمن میں اہم کردار ادا کر سکتا تھا مگر اس موقع کو ضائع کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں پیداوار اور استعمال کے پائیدار نظام کی اشد ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں سماجی تحفظ کے نظام کا مطالبہ اور علاقائی اور بین الاقوامی ربط کو مثر بننانے کے لیے ورچول پلیٹ فارمز پر توجہ دینی ہو گی۔ ایس ڈی پی آئی کے جائنٹ ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر وقار احمدنے کہا کہ ہمیں پیداوار کے آلودگی سے پاک طریقوں کو اپنانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکسوں کو کم کرتے ہوئے ہم صنعتکاروں پر بوجھ میں کمی لا سکتے ہیں اور مرکزی بینک گرین پروڈکشن کے فروغ میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔