لاہور : چیف جسٹس لاہورہائی کورٹ جسٹس محمد قاسم خان نے پیٹرول بحران کی تحقیقات کے لئے اعلیٰ سطح کمیشن تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ عدالت نے اٹارنی جنرل آف پاکستان سے پیٹرول بحران کی تحقیقات کے لئے کمیشن کے ارکان اور سربراہ کے نام اور کمیشن کی تشکیل کے حوالہ سے ٹی او آرز مانگ لئے ،عدالت نے قراردیا ہے کہ کمیشن کے لئے نام بہتر نہ ہوئے تو عدالت خود نام تجویز کرے گی۔جبکہ چیف جسٹس لاہورہائی کورٹ نے کہا ہے کمیشن کا سربراہ وہ ہونا چاہئے جو وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری محمد اعظم خان کو بھی طلب کر کے ان کا بیان ریکارڈ کر سکے اورا گر ان کے خلاف کچھ ہے تو ان کے خلاف لکھنے کی ہمت رکھتا ہو، ایسا کمیشن تشکیل دیا جائے گا جو تمام حقائق کو سامنے لائے گا اور اس کمیشن س حقائق چھپائے گئے تو عدالت ان افسران کے خلاف کاروائی کرے گی اور اس رپورٹ کو منظر عام پر لایا جائے گا تاکہ تمام بحران کے ذمہ داران کو سامنے لایا جاسکے اور ان کے خلاف کاروائی کی جاسکے۔ حکومت نے چار آئل کمپنیوں کو چار کروڑ روپے کا جرمانہ کر کے سات ارب روپے کا فائدہ دے دیا۔ وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری کی رپورٹ میں الفاظ کے گورکھ دھندے کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ مجھے کمیشن میں مضبوط لوگ چاہییں، اٹارنی جنرل کی جانب سے کمیشن کے لئے تجویز کردہ نام بہتر نہ ہوئے تو عدالت نام تجویز کرے گی، بادی النظر میں اس حمام میں سب کپڑے اتریں گے، اگر کسی سرکاری ریکارڈ کو چھپانے کوشش کی تو سخت کارروائی ہوگی۔چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کی سربراہی میںبینچ نے پیٹرول بحران کے حوالہ سے کیس کی سماعت کی۔ دوران سماعت اٹارنی جنرل آف پاکستان بیرسٹر خالد جاوید خان ، وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری محمد اعظم خان،چیئرپرسن اوگرا عظمیٰ عادل خان اور دیگر حکام طلب کرنے پر عدالت میں پیش ہوئے۔ دوران سماعت چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ آپ کو کہا گیا تھا کہ اسپیکر سے پوچھ کے بتائیں کہ وہ کمیٹی بنا رہے ہیں یا نہیں، آپ کو کہا گیا تھا کہ اس حوالے سے واضح پالیسی لے کر آئیں، آپ نے بتایا نہیں کہ بحران پیدا کرنے والوں کے خلاف آپ نے کیا کارروائی کی، جس پر اٹارنی جنرل نے عدالت کو کہا کہ آپ کے حکم پر میں نے سپیکر قومی اسمبلی سے ملاقات کی، اسپیکر قومی اسمبلی نے وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کے سامنے معاملہ رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پیٹرولیم بحران کے معاملے پر ایسا لگتا ہے کچھ بڑے شامل ہیں، بظاہر لگتا ہے آئل مافیا نے فائدہ اٹھانے کے لیے پیٹرول کی قلت پیدا کی گئی، حکومت ہر مہینے کی پہلی تاریخ کو پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھاتی ہے لیکن گزشتہ ماہ 26 جون کو پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھا کر مافیا کو اربوں روپے کا فائدہ پہنچایا گیا، جب تک بحران کے ذمہ دار پکڑے نہیں جائیں گے تب تک بحران پر قابو نہیں پایا جا سکتا ، پرنسپل سیکریٹری کے تحریری جواب میں الفاظ کا گورکھ دھندا نظر آتا ہے، پرنسپل سیکریٹری بتائیں کہ پیٹرولیم بحران پر کب کارروائی شروع ہوئی ؟ بحران کا معاملہ وزیر اعظم کے علم میں کب لایا گیا ؟اٹارنی جنرل نے تجاویز پر مبنی رپورٹ چیف جسٹس کو پیش کرتے ہوئے کہا کہ میری ذاتی تجاویز عدالت کے سامنے ہیں اگر عدالت اس میں ردو بدل کرنا چاہے تو کر سکتی ہے۔چیف جسٹس لاہورہائی کورٹ جسٹس محمد قاسم خان کا کہنا تھا کہ حکومت نے چار آئل کمپنیوں کو چار کروڑ روپے کا جرمانہ کر کے سات ارب روپے کا فائدہ دے دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری کی رپورٹ میں الفاظ کے گورکھ دھندے کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ اس پر اٹارنی جنرل آف پاکستان بیرسٹر خالد جاوید خان کا کہنا تھا کہہم نے کچھ نہیں چھپنانا جو ذمہ دار ہو گا اس کے خلاف کاروائی کی جائے گی۔ چیف جسٹس لاہورہائی کورٹ نے دوران سماعت وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کیا وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری عدالت میں موجود ہیں۔ اس پر وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری اٹھ کر روسٹرم پر آئے تو چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے کہا کہ یہ بہت بڑے آدمی ہیں پورا ملک بھی یہی چلاتے ہیں اور اسٹیبلشمنٹ کو بھی یہی چلاتے ہیں ، چار، چار مرتبہ بلانے کے باوجود وزیر اعظم کا پرنسپل سیکرٹری نہیں آتا یہ وفاقی حکومت کی خراب گورننس کی انتہا ہے ، اگر حکومت نے پیڑول بحران کے حوالہ سے عدالت کو مطمعن نہ کیا تو تحریری آرڈر میں لکھیں گے کہ وفاقی حکومت نے خراب گورننس کی انتہا کررکھی ہے۔اس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ اس حوالہ سے عدالت کو ہر حوالہ سے مطمعن کیا جائے گا اور جو بھی ذمہ دار وہ گا اس کے حوالہ سے کاروائی ہو گی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اس وقت جو حالات ہیں ذمہ داروںکے حوالہ سے سرجری کرنے کی ضرورت ہے۔ اس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ حکومت کچھ نہیں چھپا رہی جو ذمہ دار ہو گا اس کے خلاف کاروائی ہو گی اور اس کو بے نقاب کیا جائے گا چاہے اس کا تعلق جس کسی سے بھی ہو ۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر کسی افسر نے ریکارڈ چھپانے کی کوشش کی تو اس کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیجیں گے اور اس کے خلاف قانون کے مطابق سخت کاروائی کریں گے ۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ بادی النظر میں اوگرا عدالت کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کررہا ہے ،اوگرا کا جواب تصدیق شدہ نہیں یہ صرف ردی کی ڈھیری ہے۔چیئرپرسن اوگرا عظمیٰ عادل خان لوگوں کو بچانے کی کوشش کررہی ہیں۔ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے چیئرپرسن اوگرا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ سیدھا بیان دیں یہ نہ ہو کہ باقی بچ جائیں اور آپ پھنس جائیں۔ عدالتی نوٹس کے بعد اوگرانے آئل کمپنیوں کو نوٹس جاری کیا۔ چیف جسٹس لاہورہائی کورٹ کا کہنا تھا کہ کمیشن کا سربراہ وہ ہونا چاہیئے جو وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری محمد اعظم خان کو بھی طلب کر کے ان کا بیان ریکارڈ کر سکے اورا گر ان کے خلاف کچھ ہے تو ان کے خلاف لکھنے کی ہمت رکھتا ہو۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت 14جولائی تک ملتوی کرتے ہوئے اٹارنی جنرل آف پاکستان سے پیٹرول بحران کی تحقیقات کے لئے کمیشن کے ارکان اور سربراہ کے نام اور کمیشن کی تشکیل کے حوالہ سے ٹی او آرز مانگ لئے ہیں۔