لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل، الیکشن کمیشن آج ہی شیڈول کا اعلان کرے: سپریم کورٹ

ضلعی انتظامیہ کو ڈی آر اوز اور آر اوز تعینات کرنے کا لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کیا

 1014 افسران کا تعلق انتظامیہ سے ہے، ٹریننگ 1 دن ہوئی، 7 دن ہونا تھی

اسلام آباد: ( ویب  نیوز)
سپریم کورٹ آف پاکستان نے ریٹرننگ افسران اور ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران کے بارے میں لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو آج ہی الیکشن شیڈول جاری کرنے کا حکم دے دیا۔

سپریم کورٹ نے لاہور ہائی کورٹ کو مزید کسی کارروائی سے روک دیا، سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ عدالت حکم دیتی ہے لاہورہائی کورٹ اس درخواست پر مزید کارروائی نہ کرے۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ضلعی انتظامیہ کو ڈی آر اوز اور آر اوز تعینات کرنے کا لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جس پر چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی۔

الیکشن کمیشن کی درخواست پر سپریم کورٹ میں سماعت شروع ہوئی، الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی نے الیکشن کمیشن کی جانب سے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی، الیکشن کمیشن کی جانب سے کہا گیا کہ سپریم کورٹ 8 فروری کو انتخابات کرانے کے فیصلے پر عملدرآمد کرائے۔

چیف جسٹس پاکستان نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے سوال کیا کہ کیا جلدی تھی کہ اس وقت آنا پڑا؟ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ الیکشن شیڈول جاری کرنے میں وقت بہت کم ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے تو 8 فروری کو الیکشن کرانے ہیں، وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ کوشش ہے کہ الیکشن کروا دیں، جس پر جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ کوشش کیوں؟ آپ نے کرانے ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اگر میں فلائٹ پر نکل جاتا تو کیا ہوتا؟ خیر، آئینی ذمے داری ہے، پوری کرنی ہے، پھر عدالت نے استفسار کیا کہ کیا پہلےانتخابات میں جوڈیشل ڈی آر اوز تھے؟ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ 2018ء کے الیکشن میں ریٹرننگ افسران عدلیہ سے لیے گئے۔

الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ میں پی ٹی آئی کے عمیر نیازی نے درخواست دائر کی ہے، چیف جسٹس نے سوال کیا کہ عمیر نیازی کی درخواست انفرادی ہے یا پارٹی کی جانب سے؟ عمیر نیازی پی ٹی آئی کے ایڈیشنل سیکرٹری جنرل ہیں، لاہور ہائی کورٹ میں الیکشن ایکٹ کی دفعہ 50 اور 51 چیلنج کی گئی ہیں، سجیل سواتی کا جواب۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے بتایا کہ جسٹس اعجاز الاحسن تین رکنی بینچ کا حصہ نہیں بنے، جسٹس اعجاز الاحسن کی کچھ اور مصروفیت تھی، جسٹس منصور علی شاہ کو سینئر جج ہونے پر گھر سے بلایا ہے، جو بینچ یہ مقدمہ سن رہا ہے اس کی منظوری جسٹس اعجاز الاحسن نے بھی دی، اب میں اکیلے بنچ تشکیل نہیں دے سکتا۔

وکیل سجیل سواتی نے کہا کہ درخواست گزار کہتے ہیں انتظامی افسران کی آر او تعیناتی ہمیشہ کیلئے ختم کی جائے، درخواست میں استدعا تھی کہ الیکشن کمیشن کو عدلیہ سے ریٹرننگ افسران لینے کی ہدایت کی جائے، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ یہ شق تو کبھی بھی چیلنج کی جا سکتی تھی اب ہی کیوں؟۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ہائیکورٹ کے خط کے بعد درخواست گزار کیا انتخابات ملتوی کرنا چاہتے تھے؟ وکیل نے کہا کہ درخواست گزار کہتے ہیں انتظامی افسران کی آر او تعیناتی ختم کی جائے، سارے ڈی آر اوز سارے ڈپٹی کمشنرز لگائے ہیں، ہم نے پک اینڈ چوز نہیں کیے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا لاہور ہائیکورٹ نے سندھ، کے پی اور بلوچستان کے آر اوز کا نوٹیفکیشن بھی معطل کر دیا؟ الیکشن کمیشن کے وکیل نے لاہور ہائی کورٹ کا آرڈر پڑھ کر سنایا، چیف جسٹس نے کہا کہ ایک جج جب معاملہ لارجر بینچ کے لئے بھیج رہا ہے پھر ساتھ آرڈر کیسے جاری کر سکتا ہے؟ کیا لاہور ہائیکورٹ میں لارجر بینچ بن گیا؟ جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ جی لارجر بینچ بن گیا ہے، چیف جسٹس نے پوچھا لاہور ہائیکورٹ میں بینچ کا سربراہ کون ہے؟ وکیل سجیل سواتی نے کہا کہ وہی جج سربراہ ہیں جنہوں نے پہلے سماعت کی، جس پر چیف جسٹس نے حیرت کا اظہار کیا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ مجموعی طور پر کتنے آراوز اور ڈی آر اوز تقرر کیے، وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ 1014 افسران کا تعلق انتظامیہ سے ہے، ٹریننگ 1 دن ہوئی، 7 دن ہونا تھی، جسٹس سردارطارق نے ریمارکس دیئے کہ عدالت کا آرڈر آیا لیکن ٹریننگ تو نہیں روکنی چاہیے تھی، وکیل نے کہا کہ ان کا کہنا ہے کہ ایگزیکٹو شفاف الیکشن نہیں کرائیں گے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اگر الیکشن کمیشن بھی الیکشن نہ کرائے، جوڈیشل افسران بھی نہ کرائیں تو پھر کون الیکشن کرائے؟ وکیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی اولین ترجیح عدلیہ سے ریٹرننگ افسران لینا ہی تھا لیکن عدلیہ نے زیر التوا مقدمات کے باعث جوڈیشل افسران دینے سے معذوری ظاہر کی تھی، چیف جسٹس نے پوچھا وکیل پی ٹی آئی آخر چاہتے کیا تھے؟ جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ پی ٹی آئی کا موقف ہے آر اوز، ڈی آر اوز کی تعیناتی کیلئے چیف جسٹس ہائیکورٹ سے مشاورت کی جائے۔

چیف جسٹس نے پوچھا ابھی تک آپ نے الیکشن شیڈول نہیں دیا، ٹریننگ روک دی آپ کا شیڈول کدھرہے؟ شیڈول دکھائیں، وکیل نے کہا کہ ٹریننگ کے بعد الیکشن شیڈول دیں گے، جسٹس سردار طارق نے ریمارکس دیئے کہ یہ کہاں لکھا ہوا ہےکہ ٹریینگ کےبعد شیڈول جاری ہوگا، ٹریننگ کو جاری رہنے دیتے کوئی فرق نہیں پڑنا تھا، لگتا ہے آپ بھی نہیں چاہتے کہ الیکشن ہوں، آپ کو ہائی کورٹ نے ٹریننگ سے نہیں روکا تھا۔

چیف جسٹس کے فیصلہ لکھوانے کے دوران خاتون وکیل روسٹرم پر آگئیں، جس پر چیف جسٹس نے خاتون وکیل کو جھاڑ پلاتے ہوئے کہا کہ آپ کون ہیں؟ کیسے فیصلے کے درمیان بول رہی ہیں؟ پیچھے جا کر بیٹھیں، دوبارہ ایسی حرکت کی تو توہین عدالت کا نوٹس دیں گے۔

عام انتخابات اگر 8 فروری کو ہونے ہیں تو الیکشن کمیشن کو آج یا کل تک لازمی الیکشن شیڈول جاری کرنا ہو گا۔

آئینی اور قانونی طور پر انتخابی شیڈول 54 دن کا ہوتا ہے، سپریم کورٹ نے 8 فروری کو انتخابات کرانے کا حکم دے رکھا ہے، انتخابی شیڈول کے مطابق 17 دسمبر پہلا دن اور 8 فروری 54 واں دن بنتا ہے۔

لاہور ہائیکورٹ نے بدھ کی رات ضلعی انتظامیہ افسران کو ڈی آر او اور آر او تعینات کرنے سے روکا تھا، لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے بعد گزشتہ روز الیکشن کمیشن نے آر اوز اور ڈی آر اوز کی ملک بھر میں تربیت روک دی تھی۔

اس وقت سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ انتخابی شیڈول جاری ہوگیا توکاغذات نامزدگی کون دے گا اور کون وصول کرے گا؟