آج کا یہی حکم سمجھیں۔ عدالت میں ہم وزیر اعظم کو نہیں بلاسکتے،6 ججز کے خط پر ازخود نوٹس کی سماعت پر حکم

عدالتوں کو مچھلی منڈی نہیں بنانا چاہیئے۔عدلیہ کی آزادی کے حوالہ سے میری طرف سے زیروٹالر ینس ہے

کیس کی آئندہ سماعت 29یا30اپریل کوکی جائے گی، روزانہ کی بنیاد پر سماعت کرکے معاملہ ختم کریں گے،دوران سماعت ریمارکس

اسلام آباد (ویب نیوز)

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سات رکنی لارجر بینچ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے6ججز کی جانب سے سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھے گئے خط پر لئے گئے ازخود نوٹس کی سماعت کے بعد حکم دیا ہے کہ ہم عدالتی معاملات میں کوئی مداخلت برداشت نہیں کریں گے، آج کا یہی حکم سمجھیں۔ عدالت میں ہم وزیر اعظم کو نہیں بلاسکتے۔ جبکہ چیف جسٹس نے قراردیا ہے کہ کچھ ججز اپنی درخواست پر لاہور اورکراچی میں کیسز کی سماعت کررہے ہیں، ہوسکتا ہے ہم مشاورت سے معاملہ کی سماعت کے لئے فل کورٹ تشکیل دیں۔ کیس کی آئندہ سماعت 29یا30اپریل کوکی جائے گی اور روزانہ کی بنیاد پر سماعت کرکے معاملہ ختم کریں گے کیونکہ عدالت عظمیٰ میں زیر التواکیسز کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ جبکہ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے ہیں کہ درخواست دائر ہونے سے پہلے چھپ جاتی ہے کیاایساکرنا عدلیہ پر دبائوڈالنانہیں۔ عدالتوں کو مچھلی منڈی نہیں بنانا چاہیئے۔عدلیہ کی آزادی کے حوالہ سے میری طرف سے زیروٹالرینس ہے۔ عدلیہ کی آزاد ی پرحملہ ہوگاتو میں سب سے پہلے آئوں گا اور پھر دیگر ججزمیرے ساتھ آئیں گے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس سید منصورعلی شاہ، جسٹس یحییٰ خان آفریدی، جسٹس جمال خان مندوخیل ،جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل سات رکنی لارجر بینچ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججز کی جانب سے سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھے گئے خط کے معاملہ پر لئے ازخود نوٹس پر بدھ کے روز سماعت کی۔ کیس کی سماعت سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر براہ راست دکھائی گئی۔ اٹارنی جنرل بیرسٹر منصورعثمان اعوان نے پیش ہوکرعدالتی سوالات کے جواب دیئے۔ جبکہ صدر سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن بیرسٹر محمدشہزادشوکت نے بھی عدالت کے سوالات کے جواب دیئے۔ سینئر سیاستدان محمود خان اچکزئی، حامد خان ایڈووکیٹ،علی محمد خان،محمد اکرم شیخ، شعیب شاہین ایڈووکیٹ اوردیگر سینئر وکلاء بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔ جبکہ صحافیوں کی بڑی تعداد بھی عدالتی کاروائی رپورٹ کرنے کے لئے کمرہ عدالت میں موجود تھی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ میراخیال ہے کہ سپریم کورٹ کی پریس ریلیز سے کاروائی شروع کریں۔ اس موقع پر حامد خان ایڈووکیٹ روسٹرم پر آئے اور کہا کہ میں نے لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی جانب سے گزشتہ روز درخواست دائر کی ہے، ازخود نوٹس کے ساتھ اس درخواست پر سماعت کے لئے مقرر کیا جائے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اب وہ زمانے گئے، اب سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023کے تحت سپریم کورٹ کی تین رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے، اس قانون کو سپریم کورٹ کی جانب سے سراہا گیا ہے، اس پر عمل کریں گے، ہم چیزیں مکس اپ کرتے رہتے ہیں، عدالت کو کمیٹی اورکمیٹی کو عدالت کا دائرہ اختیار استعمال نہیں کرنا چاہیئے، درخواست ہمارے سامنے نہیں آئی، کمیٹی کی توجہ اس جانب دلوائیں، ایک اوردونمبر یہاں بیٹھے ہیںا ورتین نمبر یہاں موجود نہیں ہوسکتا ہے ان کی اوررائے ہو ، ہمیں اپنی اصلاح کرنی چاہیئے، ہم قانون پر چلیں گے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم نے پوری قوم کی توجہ دلادی، پوراپاکستان آپ کو لائیودیکھ رہا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ درخواست دائر ہونے سے پہلے چھپ جاتی ہے کیاایساکرنا عدلیہ پر دبائوڈالنانہیں، میں توکبھی دبائو میں نہیں آئوں گا، نئی چیزیں شروع ہو گئی ہیںوکیل کہہ رہا ہے کہ ازخود نوٹس لیں، اگر ایسا وکیل کہہ رہاہے توپھر اسے وکلالت چھوڑ دینی چاہیئے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا صدر سپریم کورٹ بار روسٹرم پر آجائیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدالتوں کو مچھلی منڈی نہیں بنانا چاہیئے، آج شہزادشوکت وکیلوں کے نمائندہ ہیں، ہمارا تعلق سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن سے ہے، ہم صدر سپریم کورٹ بار کی قدر کریں گے، حامد خان بھی ان کو مان لیں کہ وہ جیت گئے ہیں، میں انفرادی طور پر وکیلوں سے نہیں ملتا، میں نے سپریم کورٹ بار اورپاکستان بار کونسل کے نمائندوں سے ملاقات کی، کیا حامد خان چاہتے ہیں کہ کمیٹی کے اختیارات پر تجاوز کیا جائے، میں ایسانہیںکروں گا۔ اس دوران بیرسٹر چوہدری اعتزازاحسن کے وکیل خواجہ احمد حسین نے بھی پیش ہوکرکہا کہ ان کی درخواست بھی اسی کیس کے ساتھ منسلک کر کے سنی جائے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پتا نہیں پراپیگینڈا کے زریعہ ہمیں گوئبلز کے زمانہ میں واپس لارہے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6ججز کی جانب سے 25مارچ کو لکھا گیا خط 26مارچ موصول ہوا اور میں نے سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس سید منصورعلی شاہ کے ہمراہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس عامر فاروق سمیت تمام ججز سے ملاقات کی، اگر ہم اس بات کو اہمیت نہ دیتے تومیٹنگ ر مضان کے بعد بھی رکھ سکتے تھے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدلیہ کی آزادی کے حوالہ سے میری طرف سے زیروٹالرینس ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ میرے حلف اٹھانے کے اگلے روز 18ستمبر کو پہلی فل کورٹ میٹنگ ہوئی تھی، اس سے پہلے چارسال تک فل کورٹ میٹنگ نہیں ہوئی، سارے وکیل کہاں تھے، اس وقت عدلیہ کی آزادی کیوں یادنہیں آئی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدلیہ کی آزاد ی پرحملہ ہوگاتو میں سب سے پہلے آئوں گا اور پھر دیگر ججزمیرے ساتھ آئیں گے، اگر کسی اورکا کوئی ایجنڈا ہے توپھر یاتووہ جج بن جائے یا سپریم کورٹ بار کا صدر بن جائے، ہم کسی کے دبائو میں نہیں آئیں گے، ہم وزیر اعظم سے انتظامی طور پر ملے، کوئی گھر یا چیمبر میں ملاقات نہیں کی، وزیر اعظم کو اکثریت کی حمایت حاصل ہے اس لئے وہ وزیر اعظم ہیں۔ اس موقع پر اٹارنی جنرل منصورعثمان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم نے ہرقسم کاتعاون کرنے کی یقین دہانی کروائی تھی، سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کے نام پر کابینہ اجلاس میں بحث ہوئی۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ قانون تمام وفاقی اورصوبائی حکومتوں کو کمیشن کی معاونت کرنے کا پابند بناتا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ نام بتادیں کس نے تجویز کئے تھے۔اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ سابق چیف جسٹس ناصرالمک اور سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کے نام چیف جسٹس اورسپریم کورٹ نے تجویز کئے تھے۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ جمعہ کے روز وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ سے لاہور میں ملاقات کی اورانہیں بتایا کہ آپ کانام کمیشن کی سربراہی کے لئے عدلیہ اورسپریم کورٹ کی طرف سے آیا ہے۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ اس بات پر اتفاق ہوا تھا کہ کمیشن کادفتر وفاقی شرعی عدالت میں قائم کیاجائے گا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا سے دبائو آیا، میراخیال ہے کہ ان پر ذاتی حملے بھی شروع ہو گئے، یہ مداخلت ہے، کون شریف آدمی خدمت کرے گا، ہم نے ایسا آدمی تعینات کیا جائے جس پر کم ازکم انگلی اٹھائی جائے، سوشل میڈیا پر ان کے حوالہ سے ایسی ، ایسی باتیں کی گئیں جس سے مجھے شرمندگی ہوئی کیونکہ میں نے اورجسٹس سید منصور علی شاہ نے ان کا نام تجویز کیا تھا ۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم نے سیدھا ، سیدھا فیصلہ کر لیا ہے کہ ملک اورقوم کو تباہ کرنا ہے، کسی پر حملہ کرنا، شریف آدمی توجواب نہیں دے گا،انہوں نے انکار کردیا اورتحریری طور پر لکھ کردیا، ہر شریف آدمی کہے گا آپ ہی سنبھالو میں توچلا اِدھر سے۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ تصدق حسین جیلانی نے وزیر اعظم کو خط لکھ کر کمیشن کی سربراہی قبول کرنے سے انکار کیا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر میں جمہوریت پر یقین رکھتا ہوں تومیں نے اپنا کوئی اختیار استعمال نہیں کیا، بلکہ ہر موقع پر مشاورت کی ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز نے مجھے سے اورجسٹس منصورعلی شاہ سے کہا کہ آپ جو بہتر سمجھیں وہ کریں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ تاثر غلط اوربے بنیاد ہے کہ سپریم کورٹ نے اپنے اختیارات جوڈیشل کمیشن یا حکومت کو دے دیئے، آئین توہم نے پڑھنا ہی چھوڑدیا ہے، آئین کی کتاب اٹھا لیں، سپریم کورٹ کا کہاں ذکر آتاہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم ہر کام نہیں کرسکتے، آئین کے آرٹیکل 184سے187تک ہمارادائرہ اختیار ہے، ہر ادارے کواپنے دائرہ اختیار میں رہ کرکام کرنا چاہیئے، پہلے یہ ادارہ شاید تجاوز کررہا ہو، میری کوشش ہے کہ آئین کے مطابق چلا جائے، ہمارے طور پر آئینی طور پر کمیشن بنانے کا ختیار نہیں،پارلیمنٹ نے کمیشن بنانے کااختیار حکومت کودیا ہے، کمیشن بنانے کااختیار سرکار کاہے۔ اٹارنی جنرل کاکہنا تھا کہ عدلیہ کی آزادی کے اوپروفاقی حکومت کوئی سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں۔ اٹارنی جنرل کاکہنا تھا کہ ماضی میں اس عدالت سے جے آئی ٹیز بنیں، مانیٹرنگ ججز تعینات ہوئے جو کہ آئین کے آرٹیکل 203کی خلاف ورزی تھی، یہ سب کچھ یہاں ہوتا رہا ہے۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ میں چیف جسٹس کے حوالہ سے اہم باتیں کرنے لگاہوں۔ اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ میں سیٹ بیلٹ باندھ لوں۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ افتخارالدین نامی شخص کی جانب سے قتل کی دھمکیاں دی گئیں اوراس کی ویڈیو موجود تھی، تواس پر چیف جسٹس کی اہلیہ سرینا عیسیٰ نے ایف آئی آر کے لئے درخواست دی توایف آردرج نہیں کی گئی اوراور انسداد دہشت گردی کی دفعات نکال کر پیکا قانون کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی، سرینا عیسیٰ نے161کا بیان ریکارڈ کروایا جس میں انہوں نے مرزاشہزاد اکبر اور سابق ڈی آئی ایس آئی فیض حمید کا ذکر کیا تاہم ان کے خلاف اس وقت کی وفاقی حکومت کی جانب سے کوئی کاروائی نہیں ہوئی۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھاکہ قانون وفاقی حکومت کو کمیشن کی کاروائی میں مداخلت کی اجازت نہیں دیتا، 11ماہ پرانے واقعات کے شواہد کو اکٹھا کرنا ہو گا، اورگواہوں کے بیان ریکارڈ کرنا ہوں گے، جس قسم کی معاونت اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے چاہیئے وفاقی حکومت فراہم کرے گی،ایک طرف عدلیہ کی آزادی ہے اور دوسری طرف ایگزیکٹو کی ساکھ بھی خطرے میں ہے ۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ میں نے اس خط کو کئی مرتبہ پڑھا ہے، ہم اس خط کو پوری سنجیدگی سے لے رہے ہیں، اس خط کے کئی پہلو ہیں، یہ خط سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھا گیاہے، میں ایک رکن ہے۔چیف جسٹس کا کہنا تھاکہ تصدق حسین جیلانی کی بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ یہ سپریم جوڈیشل کا اختیار ہے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ججز کے خط میں مشہور زمانہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کیس کا تذکرہ ہے، انہیں سپریم جوڈیشل کونسل نے اپنے عہدے سے ہٹایا تھا کہ انہوں نے کچھ الزامات لگائے تھے اورایک تقریر کی تھی ،سپریم کورٹ بیٹھی اورکہا کہ یہ فیصلہ برقرارنہیں رکھا جاسکتا کیونکہ انہیں اپنا مئوقف ثابت کرنے کا موقع نہیں ملا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ دبائو کولیگز، فیملی ممبرز، بچوں اوردوستوں سے بھی آسکتا ہے کہ میرا کیس ہے خیال کرنا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ نئی وباپھیلی ہے سوشل میڈیا ، میڈیا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پولیس، ایف آئی اے، نیب کون تحقیقات کریں، ہم یہ تونہیں چاہتے کہ یہ ادارے تحقیقات کریں، ہم چاہتے ہیں کہ کوئی معتبر شخصیت کریں تاکہ ججز کا پردہ بھی رکھا جاسکے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز نے کھل کر بات نہیں بلکہ اشارہ کیا ہے، ہم نے کسی جج کے کام میں مداخلت پر جج کو متعلقہ مداخلت کرنے والے شخص کے خلاف توہین عدالت کی کاروائی سے نہیں روکا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ججز کو توہین عدالت کی پاورز آئین میںدی گئی ہیں جن کو کم نہیں کیاجاسکتااور کمزورنہیں کیا جاسکتا، میں کسی اورعدالت کی توہین عدالت کی پاور استعمال نہیں کرسکتا، وہ اسی عدالت کے پاس ہے،جو لوگ چلے گئے ان میں انگلی نہیں اٹھانا چاہتا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ججز کے خط پر سابق چیف جسٹس عمر عطابندیال نے بطور سینئر ترین جج مجھے نہ کبھی بلایا اورنہ میرے ساتھ کوئی مشاورت کی، اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز سے اس وقت میری ملاقات ہوئی تاہم میرے پاس اس وقت کوئی انتظامی ، قانونی اورآئینی اختیارات نہیں تھے کہ میں کچھ کرسکتا، سینئر ترین جج کے ساتھ چلنا توچاہیئے، دوخطور کا ذکر ہے میرے پاس ان کی کاپی نہیں آئی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ خط میں ججز نے میرے حوالہ سے جولکھا میں اس میں نہیں پڑنا چاہتا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدالت میں ہم وزیر اعظم کو نہیں بلاسکتے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہم وفاقی حکومت کو نوٹس دیں گے توسیکرٹری قانون آجائیں گے یا اٹارنی جنرل کو بھیج دیں گے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ نشاندہی کریں کہ ہم نے عدلیہ کی آزادی پر سمجھوتہ کیا ہو، کسی کی بے عزتی کرنا ہمارا کام نہیں، ایک طرف پارلیمنٹ ہے، ایک طرف حکومت ہے اور ایک طرف عدالت ہے، ہم کسی کی بے عزتی نہیں کرنا چاہتے، نظام چلے گا جب ہر کوئی اپنا کرے گا، الیکشن نہ ہونے پر شرطیں لگی تھیں ، ہم نے متعلقہ حکام سے 12دن میں الیکشن کی تاریخ دلوا کرکیس کا فیصلہ کیا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم اپنی ذامہ داری پوری کریں گے اوراگردوسرے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کریں گے توہم ان سے ان کی ذمہ داری پوری کروائیں گے جب میں چیف جسٹس بنا ہوں تو مجھے کسی جج نے شکایت نہیں کی کہ میرے کام میں کسی نے مداخلت کی ہو۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سب کو اپنے ، اپنے کام کرنے دیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ 300وکیلوں کے نام لکھے تھے ، میرا نام بھی لکھ دیتے، کسی کے دستخط خط پر موجود نہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل نے کسی میاں افتخار کاذکر کیا، آپ کی حکومت کب آئی کیاآپ نے اس کیس کو کسی منطقی نتیجہ تک پہنچایا، بدقسمتی کی بات ہے کہ ہر کوئی جانتا ہے کہ کیا ہورہا ہے، تاہم ہرکوئی مکر کررہا ہے جیسے کچھ واقع نہیں ہورہا،اٹارنی جنرل نے ایک بات توکہہ دی، پراسیکیوشن ایگزیکٹو کا فنگشن ہے، آپ صرف اس عدالت کے سامنے کھڑے ہوکربیان نہیں دے سکتے، اگر وہ کیس اتنا اہم تھا تواس کو منطقی انجام تک پہنچاتے، جو کہ ہے، کچھ وقت تک پولیٹیکل انجینئرنگ تھی،اورہوسکتا ہے کہ یہ تاثر بھی ہے کہ یہ عدالت بھی اس میں ملوث تھی،خط کیا کہہ رہا ہے کہ وہ جاری ہے،اوریہ انتہائی اہمیت کامعاملہ ہے،ہمیں یہ مکر نہیں کرنا چاہیے کہ کچھ واقع نہیں ہورہا،ہمیں اس چیز کو انتہائی سنجیدگی سے لینا چاہیئے،انہوں نے جس بات کی نشاندہی کی ہے وہ یہ کے کہ ریاست کی جانب سے آئین کے انحراف کو نارملائزیشن کے کلچر میں تبدیل کیا جارہا ہے ، یہ سوال ہے جو عوامی اہمیت کامعاملہ ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس آیاجو کہ خارج بھی ہوا اورسابق وزیر اعظم نے تسلیم کیا کہ یہ غلطی تھی جو مجھ سے کروائی گئی تھی، کیا وہ معلوم کیا کہ وہ غلطی کس نے کی تھی اورکیوں کی تھی، کیا یہ عدالت کے معاملات میں مداخلت نہیں تھی؟ اس وقت کے وزیر اعظم سے پوچھیںوہ کیا تھا، کیوں تھا اورکن حالات میں وہ ہوا تھا، اس پر کیا ایکشن لیا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ یاتوپھر یہ کرنا ہو گا کہ سٹاپ کردیں اور آگے چلیں کہ آگے کچھ نہ ہو۔ چیف جسٹس کہا ہم ایک دوسرے پر کب تک انگلیاں اٹھائیں گے، آگے چلیں، ایک جج کے ساتھ ناصافی ہوئی اس کو ہم نے درست کیا اورجج کااحتساب بھی کیا، حکومت بھی اپنا احتساب کرے۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ یہ چوائس ہی نہیں کہ دوسری طرف احتساب نہ ہو۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ چیزیں ہوتی رہی ہیں اور ہم شترمرغ کی طرح سرزمین میں رکھ کر نہیں بیٹھ سکتے، اسلام آباد ہائی کورٹ کے معزز ججز نے لکھ کرچیزیں بتادیں، ورنہ شاید یہ چیزیں ہورہی ہیں اور بڑے عرصہ سے ہورہی ہیں، یہ ہمارا فرض ہے کہ آزاد عدلیہ کو برقراررکھنے کے لئے بہت سخت کوڈ بنانا ہے جس سے یقینی بنایاجائے کہ ایسی مداخلت نہ ہو، اگر ایک سول جج کے ساتھ کچھ ہوتا ہے تووہ کیا کرے، کس کوبتائے اوراگراس کا چیف جسٹس کچھ نہ کرے تو پھر کیا ہونا چاہیئے، اوراگر وہ بھی کچھ نہ کرے توپھرہمارا کیا کردارہوگا، تینوں تہوں کواس عدالتی کاروائی میں کوئی طریقہ کارواضح کرنا پڑے گا،ہمیں ادارہ جاتی ریسپانس واضح طور پر دینا پڑے گاکہ سول جج، ڈسٹرکٹ جج ،ہائی کورٹ کے جج، ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اور پھر ہمارے تک معاملہ آتا ہے توکیا ہوگا، ہم اس کو ایک نظام کے زریعہ پلگ کریں، اٹارنی جنرل اورشہزادشوکت کچھ تجاویز دیں ، کچھ ہمارے اپنے آئیڈیاز بھی ہیں تاکہ ہم اس چیپڑ کو ہم ہمیشہ ، ہمیشہ کے لئے بند کریں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ ہم یہ اپنے لئے نہیں کررہے بلکہ ہم نے لوگوں کے لئے یہ کرنا ہے۔جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ میں نے پچھلے دنوں اخبار میں پڑھاکہ عدالت نے کچھ ملزمان کی ضمانت منظور کی، ایم پی اوکے تحت اس عدالت کے آرڈر پر عمل نہیں کیا، ہم اپنی آنکھیں بند نہیں کرسکتے، یہ عدالت لوگوں کے بنیادی حقوق کی محافظ ہے، آئین سے انحراف کا سسٹم جو 76سال سے گورننس سسٹم میں جڑ پکڑ گیا ہے یہ خط اس سوال کے حوالہ سے ہے۔ جسٹس نعیم اخترافغان کا کہنا تھا کہ قول اورفعل میں تضاد نہیں ہونا چاہیئے، عدالتی احکامات کو فلائوٹ کرنے کے لئے حکومت ایم پی اوکاسہارا لیتی ہے۔ صدر سپریم کورٹ بار کا کہنا تھا کہ ہم انکوائری کمیشن کے ائیڈیا کی حمایت کرتے ہیں، کسی نے کوئی متبادل تجویز نہیں دی، وفاقی حکومت ہی کمیشن بناسکتی ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ ایگزیٹو پر الزام ہے ،الزام ہے کہ ایک پالیسی ہے جو کہ لمبے عرصہ سے جاری ہے، کون تحقیقات کرے گا، کیا ایگزیکٹو خود تحقیقات کرے گی، آگے بڑھیں، 2018کی بھی تحقیقات کرنا پڑے گی اورلوگوں کو ذمہ دار ٹھرانا پڑے گا، کیا یہ عدالت آج انسانی حقوق کی جاری خلاف ورزیوں کو جسٹیفائی کرسکتی ہے، ہم سب جانتے ہیں کہ یہ ہورہا ہے، ہمیں اپنی آنکھیں بند نہیں کرنی چاہیں اور نہ اپنا سرریت میں چھپنانا چاہیئے ، ہمیں حقیقت کاسامنا کرنا چاہیئے، یہ ہماری ذمہ داری ہے آئین کی بالادستی قائم کریں اوربنیادی حقوق کاتحفظ کریں،ہم اپنی آنکھیں بند نہیں کرسکتے، یہ ہورہا ہے، ہمیں مکر نہیں کرنا چاہیئے کہ کچھ نہیں ہورہا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر کوئی میرے دور میں تو میرے نوٹس میں لائیں دیکھیں میں کیا کرتا ہوں، ماضی کی چیزوں کا میں ذمہ دارنہیں۔ جسٹس سید منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ آگے چلیں، ہم نے ازخود نوٹس لیا ہے، کیسے چلنا ہے، اگر کوئی جج ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو بتاتا ہے اوراگر نہیں کرتا تو ہم اس کے بارے میں واضح کریں کہ کیوں نہیں کرتا، پہلے اپنے سسٹم کو برابر کرلیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ ہمیں اس خط کو موقع سمجھنا چاہیئے، پہلی مرتبہ پاکستان کی تاریخ میں اس معاملہ پر بیٹھے ہیں، اس سے اہم اورکوئی معاملہ نہیں کیونکہ جب تک عدلیہ آزاد نہیں ہوگی توکچھ نہیں ہوسکتا، ماضی کو چھوڑ دیں، ماضی سے ہم سیکھ سکتے ہیں، آج کم ازکم میں اس نیت سے تواٹھوں کہ میں آزاد ہوںاورمیرے بعد آنے والا سمجھے کہ میں آزاد ہوں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کہیں نہیں لکھا کہ سپریم کورٹ، ہائی کورٹ کے کام کوسپروائز کرے گی۔ جسٹس سیدمنصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ خط میں ججز نے لکھا اگرچیف جسٹس کچھ نہ کرے توپھر ہم کیا کریں، توہین عدالت کا اختیار ہے وہ کاروائی کریں، ہم ہائی کورٹ کو مزید مضبوط کرسکتے ہیں، ان کے کام میں مداخلت نہیں کرسکتے۔