انہوں نے یہ اعلان ہاؤسنگ اور تعمیرات کی قومی رابطہ کمیٹی اجلاس کے بعد میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے کیا۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان کو اس مشکل وقت سے نکلنے کے لئے کنسٹرکشن کی ضرورت ہے۔ ہم نے ٹیکسز کم کر دیے ہیں۔ ٹیکسز کم کرنے سے سستے گھر بنیں گے۔
وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ اس طرح کی سبسڈی اور فیصلے کبھی کسی حکومت نے کنسٹرکشن کے لیے نہیں کیے۔ میں چاہوں گا لوگ اس سے پورا فائدہ اٹھائیں۔ ہم نے کنسٹرکشن انڈسٹری کے لئے 330 ارب رکھے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہاؤسنگ اور تعمیراتی صنعت سے معیشت مضبوط کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ نیا پاکستان ہاؤسنگ کے لئے 30 ارب کی سبسڈی دی جا چکی ہے۔ ہر گھر پر 3 لاکھ روپے کی سبسڈی دی جائے گی۔ 10 مرلے کے گھر پر 7 فیصد جبکہ پانچ مرلے کے گھر پر 5 فیصد سود دینا پڑے گا۔ لوگ قرضوں کی قسطیں آسانی سے ادا کر سکیں گے۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ ہمارا عام لوگوں کے لیے گھر بنانے کا ارادہ تھا۔ اس لئے غریب طبقے کیلئے نیا پاکستان ہاؤسنگ منصوبہ شروع کیا لیکن اس میں بہت رکاوٹیں آئیں۔ تعمیراتی صنعت کے لیے بہت رکاوٹیں تھیں۔ کئی معاملات میں تعمیراتی صنعت کو اجازت نہیں ملتی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ اس معاملے پر تمام صوبوں کے ساتھ میٹنگ کی ہے۔ دنیا میں بینک سب سے زیادہ قرضہ گھروں کیلئے دیتے ہیں لیکن پاکستانی بینکوں کی جانب سے گھروں پر صرف 0.2 فیصد قرضہ دیا جاتا ہے۔
اس سے قبل وزیراعظم نے ایک اہم اجلاس میں سرکاری گوداموں میں پڑی گندم مارکیٹ میں لانے کا حکم دیتے ہوئے حکم دیا ہے کہ سستے پوائنٹس بنا کر لوگوں کو آٹا فراہم کیا جائے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ افسران کی جانب سے وزیراعظم کو گندم کی پیداوار کم ہونے کی وجہ سے اسے اکتوبر میں مارکیٹ میں لانے کا مشورہ دیا تھا۔
تاہم وزیراعظم نے اس کو نظر انداز کرتے ہوئے سرکاری گوداموں میں پڑی گندم کو مارکیٹ میں لانے کا حکم دیدیا ہے۔ انہوں نے ہدایات جاری کیں کہ آپ فوری طور پر گندم مارکیٹ لائیں، اکتوبر میں دیکھی جائے گی۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اگر اکتوبر میں ضرورت پڑی تو صورتحال کے مطابق گندم درآمد کر لیں گے۔ سستے بازار اور پوائنٹس بنا کر لوگوں کو سستا آٹا فراہم کیا جائے۔
دوسری جانب وزیراعظم نے وفاقی وزرا کو آخری وارننگ دیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ زبانی جمع خرچ سے کام نہیں چلے گا، کارکردگی دکھانا ہوگی، ناکامی پر حکومتی عہدیداروں کو گھر کی راہ لینا ہوگی۔
وزیراعظم عمران خان نے وزرا، مشیران اور معاونین خصوصی کو صاف بتا دیا ہے کہ اب اجلاسوں میں صرف بریفنگز سے کام نہیں چلے گا، حکومتی فیصلوں پر عملی اقدامات کا خود جائزہ لوں گا۔
ذرائع کے مطابق وزیراعظم نے سرکاری محکموں اور وزارتوں کی بریفنگز کی روشنی میں وزرا اور سیکرٹریز سے عملی ا قدامات سے متعلق باز پرس بھی شروع کر دی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے تاخیری حربوں پر کئی افسران کی سر زنش بھی کی۔
وزیراعظم نے واضح کیا کہ وزارتیں ہوں یا ڈویژن، حکومتی امور میں کوتاہی برداشت نہیں کی جائے گی، صوبائی کابینہ اور افسر شاہی کو بھی اب کارکردگی کے ترازو میں تولہ جائے گا۔
ادھر وزیراعظم نے وفاق اور صوبائی حکومتوں پر زور دیا ہے کہ ٹڈی دل کے خاتمے کیلئے مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ فصلوں کو نقصان سے بچایا جا سکے۔
تفصیل کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے نیشنل لوکسٹ کنٹرول سینٹر کا دورہ کیا جہاں ان کے زیر صدارت اجلاس میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، چئیرمین این ڈی ایم اے لیفٹننٹ جنرل محمد افضل، سید فخر امام، خسرو بختیار، شبلی فراز، اسد عمر اور چئیرمین سی پیک اتھارٹی عاصإ سلیم باجوہ بھی شریک ہوئے۔
دوران اجلاس وزیراعظم کو ٹڈی دل کے تدارک کے لیے کیے گئے اقدامات پر تفصیلی بریفنگ دی گئی۔ انھیں ٹڈی دل کے خاتمے کیلئے بنائے گئے ایکشن پلان کے فیز ون کی تکمیل سے متعلق آگاہ کیا گیا۔
وزیراعظم کو مانیٹرنگ سروے اور کنٹرول کی مربوط کوششوں، وسائل کی فراہمی، اداروں کے درمیان تعاون اور ٹڈی دل سے متعلق آگاہ مہم پر بھی بریفنگ دی گئی۔
انھیں ٹڈی دل کے خاتمے کے لیے قومی، صوبائی اور ضلعی سطح پر کیے اقدامات سے بھی آگاہ کیا گیا۔ اس موقع پر وزیراعظم کا کہنا تھا کہ پاک فوج اور صوبائی حکومتوں نے ٹڈی دل کے حملے کے خلاف موثر اقدامات کیے۔
اجلاس میں بلوچستان کی نمائندگی چیف سیکرٹری بلوچستان نے کی جبکہ پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا کے وزرائے اعلیٰ نے ویڈیو لنک کے ذریعے شرکت کی۔
وزیراعظم کا اجلاس سے خطامب میں کہنا تھا کہ ٹڈی دل اور کورونا وائرس کا ایک ساتھ حملہ پاکستان کیلئے ایک بہت بڑا چیلنج تھا۔ تاہم وفاق، صوبائی حکومتوں اور پاک فوج نے بروقت اس کا تدارک کرکے نمایاں کامیابی حاصل کی۔
اجلاس میں ٹڈی دل کنٹرول کرنے کیلئے نیشنل ایکشن پلان کے فیز ٹو کی بھی منظوری دی جبکہ فیصلہ کیا گیا کہ متاثرہ کسانوں کو ایک پیکج کے ذریعے معاوضہ دیا جائے گا۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ ملک کے غذائی تحفظ کے لئے ہر ممکن کوشش کریں گے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے مربوط قومی ردعمل کی ضرورت ہے۔ متوقع ٹڈی دل حملے سے فصلوں کی پیداوار متاثر نہیں ہونی چاہیے۔