اسلام آباد(صباح نیوز)
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے غربت کے خاتمے اور سماجی تحفظ میں انکشاف ہواہے کہ پاکستان کی کل آبادی 22کروڑ میں سے صرف1کروڑ62لاکھ لوگ ہی احساس پروگرام امداد کی شرائط پر پوارااترتے ہیں۔ ِمستحقین کو18ہزار 65مقامات پر لوگوں کو امداد دی گئی، کرپشن کے تدارک کیلئے ڈیجیٹل مانیٹرنگ کر رہے ہیں 366ایف آئی آر درج کی گئی اور 440لوگ جیلوں میں بھی ہیں۔ارکان کمیٹی کاکہناتھاکہ بلوچستان اور ملک کے دیگر پسماندہ علاقہ جات میں لاکھوں لوگ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں کرونا وبا کی وجہ سے روزگار کے مواقع بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔غریب عوام کی مدد کرنا حکومت کا فرض ہے اور عوامی نمائندے سے بھی نشاندہی میں مدد لی جائے ۔سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے غربت کے خاتمے اور سماجی تحفظ کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر ڈاکٹر جہانزیب جمال دینی کی سربراہی میں پارلیمنٹ ہاس میں منعقد ہو۔قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں احساس ایمرجنسی کیش پروگرام کے مجموعی بجٹ، صوبہ وائز تقسیم، چیلنجز اور مستقبل کے منصوبہ جات کے علاوہ سینیٹر عثمان خان کاکڑ کی طرف سے 10جون 2020کو سینیٹ اجلاس میں اٹھائے گئے سوال برائے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے غیر قانونی طور پر مستفید ہونے والے سرکاری ملازمین کے نام، عہدہ اور صوبہ وائز معلومات کے معاملات کا تفصیل سے جائز ہ لیا۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر ڈاکٹر جہانزیب جمال دینی نے کہا کہ صوبہ بلوچستان اور ملک کے دیگر پسماندہ علاقہ جات میں لاکھوں لوگ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں کرونا وبا کی وجہ سے روزگار کے مواقع بھی نہ ہونے کے برابر ہے پسماندہ علاقہ جات میں غریب عوام کی مدد کرنا حکومت کا فرض ہے اور عوامی نمائندے عوام کے منتخب لوگ ہوتے ہیں اور وہ اپنے علاقے کے بارے میں واضح معلومات رکھتے ہیں پارلیمنٹرین کی مدد سے بھی غریب لوگوں کی نشاندہی عمل میں لائی جا سکتی ہے تا کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو مشکل حالات سے نکالا جا سکے۔ وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے غربت کا خاتمہ اور سماجی تحفظ ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے قائمہ کمیٹی کو تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ احساس ایمرجنسی کیش پروگرام میں ان کی پوری ٹیم نے غیر معمولی حالات میں سخت محنت سے کام کیا اور غریب لوگوں کو امداد فراہم کرنے کیلئے دن رات ایک کیا۔ انہوں نے کہا کہ کل 16.2ملین لوگ احساس پروگرام کی امداد کی کیٹگری کے اندر شامل ہوتے ہیں۔ امداد کا یہ پروگرام 144ارب سے شروع ہوا جو اب 203ارب کا ہو چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ لوگوں کو کیش امداد دینے سے معیشت کو بھی فائدہ ہوا۔ 2019میں ایک پالیسی بنائی گئی جس میں بائیو میٹرک سسٹم، ڈیٹا سائٹ، ایس ایم ایس اینڈ ویب سروس اور ڈیٹا اینلٹک کو بنیاد بنایا گیا، امداد کیلئے ان تین ستونوں کو بنیاد بنایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ جلد ہی اگلے مرحلے کی امداد کا اعلان وزیراعظم پاکستان کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ یہ شفاف ترین پروگرام تھا جس میں بین الاقوامی معیار کے مختلف پیرامیٹرز متعین کئے گئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومتوں، مقامی انتظامیہ اور کمرشل بینکوں نے بھر پور ساتھ دیا اور باہمی مشاورت سے امدادی پروگرام پر عملدرآمد کیا گیا اس میکنزم میں انسانی مداخلت بلکل نہیں ہے وزیراعظم پاکستان تک اپنی مرضی سے کوئی نام شامل نہیں کر سکتے ایک پالیسی بنائی گئی جس میں ویلتھ پراکسی سیٹ کی گئی جس میں گاڑی والے، 50ہزار سے زائد انکم، بیرون ملک سفر کرنے والے، زمین کی ملکیت اور سرکاری ملازمین کو شامل نہیں کیا گیا اور چھ ماہ کے فون کے بل بھی مدنظر رکھے جاتے تھے۔ جس پر سینیٹر روبینہ خالد اور لیفٹینٹ جرنل(ر)عبدالقیوم (ہلال امتیاز ملٹری)نے کہا کہ کچھ لوگوں کو عمرہ یا حج کیلئے دیگر صاحب استطاعت بھیجواتے ہیں ان کو اس کیٹگری میں شامل نہیں کرنا چاہئے جس پر ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے کہا کہ اس حوالے سے وہ اکیلی فیصلہ نہیں کر سکتی اس کو چیلنج کیا جا سکتا ہے پراکسی کیلئے بورڈ، ای سی سی اور حکومت نے منظوری دی تھی۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ 1لاکھ 53ہزار پاسپورٹ والوں کو ایک امداد سے باہر کیا گیا۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ بینک الفلاح، حبیب بینک کے ساتھ کام کیا لوگوں کو کیمپوں میں بلایا گیا صوبائی حکومتوں نے کیمپوں کی نشاندہی کی۔ کرونا وائرس کی وجہ سے دوکانیں بند تھی ایزی کیش والوں کو بلایا تو انہوں نے ایڈونس ٹیکس ختم کرنے کا کہا تو وزیراعظم کی خصوصی ہدایت سے وہ بھی ختم کرایا گیا۔بائیو میٹرک کی وجہ سے مستحق لوگوں کو امداد فراہم کی گئی ہے اور بینکوں کی خدمات بھی قانونی تقاضوں کے مطابق عمل میں لائی گئی جس کی وجہ سے حکومت کو اربوں کی بچت ہوئی۔کمیٹی کو بتایا گیا کہ 18ہزار 65جگہوں سے لوگوں کو امداد دی گئی۔لمیٹیڈ اکانٹ بنائے گئے جس میں ہم رقم ڈال سکتے ہیں اور متعلقہ شناختی کارڈ ہولڈر چھ ماہ تک نکال سکتا ہے۔صوبہ سندھ کے لوگوں کو سب سے زیادہ امداد دی گئی وہاں غربت کا معیار سب سے زیادہ ہے معاملات کو شفاف بنانے کیلئے سائبر ویجلنس بنایا گیا۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ ایک نیا سروے کرایا جا رہا ہے جس میں صحیح مستحق افراد کی مزید موثر معلومات میسر ہونگی۔چیئرمین کمیٹی سینیٹر جہانزیب جمالدینی نے کہا کہ صوبہ بلوچستان کا علاقہ وڈ ھ میں لوگوں کے شناختی کارڈ کی کاپیاں حاصل کر کے رقم حاصل کی گئی اور مستحقین کو کم رقم دی گئی اس وقعہ کی انکوائری بھی کرائی گئی مانیٹر نگ سسٹم کو مزید بہتر کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں مہنگائی بہت زیادہ ہو چکی ہے پٹرول، بجلی اور گیس کی قیمتیں بھی بہت زیادہ ہیں 4ہزار فی ماہ امداد میں گزارہ بہت مشکل ہوتا ہے اس کو بھی بڑھانا چاہئے تا کہ لوگ آسانی سے اپنا گزر بسر کر سکیں۔ جس پر ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے کہا کہ کیش کے معاملات میں کرپشن کے تدارک کیلئے اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں ڈیجیٹل مانیٹرنگ کر رہے ہیں 366ایف آئی آر درج کی گئی اور 440لوگ جیلوں میں بھی ہیں۔ قائمہ کمیٹی نے ڈاکٹر ثانیہ نشتر اور ان کی پوری ٹیم کو کرونا وبا کے غیر معمولی حالات میں خدمات کو قابل تحسین قرار دیتے ہوئے حوصلہ افزائی کی اور ان کی کوششوں کو سراہا۔بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے مستفید ہونے والے سرکاری ملازمین کے معاملے کا کمیٹی اجلاس میں تفصیل سے جائزہ لیا گیا سینیٹر عثمان خان کاکڑ نے کہا کہ بی آئی ایس پی کا سروے بہت پرانا ہے اور قابل عمل بھی نہیں ہے جلد سے جلد سروے کرایا جائے اور معاملات میں بہتری لائی جائے اور اس پروگرام میں آبادی کی بنیاد کے بجائے غربت کے معیار کی بنیاد پر امداد فراہم کی جائے، فاٹا اور بلوچستان میں بے تحاشہ غربت ہے۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ 1لاکھ 40ہزار 4سو 88سرکاری ملازمین نے بی آئی ایس پی سے امداد حاصل کی جس میں سے 27سو گریڈ 17اور اس کے اوپر افسران شامل ہیں باقی ملازمین گریڈ1سے 16کے ہیں۔ 27سو افسران کی لسٹ اسٹبلشمنٹ ڈویژن اور صوبوں کے چیف سیکرٹریز کو کاروائی کیلئے بھیج دی گئی ہے۔ وفاقی حکومت نے ایف آئی اے کو قانونی چارہ جوئی کیلئے معاملہ بھیج دیا ہے۔ سینیٹر عثمان خان کاکڑ نے کہا کہ غریب لوگوں کا حق مارنے والوں کا نام عوام کے سامنے آنا چاہئے جس پر کمیٹی کو بتایا گیا کہ پریس کانفرنس میں تما م لوگوں کے نام بتائے گئے ہیں کمیٹی کو 27سو افسران کی لسٹ آج شام تک فراہم کر دی جائے گی اور کمیٹی اجلاس میں تمام ملازمین کے ناموں کی معلومات پر مشتمل سی ڈی بھی فراہم کر دی گئی۔سینیٹر عثمان خان کاکڑ نے قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں کنٹریکٹ اور ڈیلی ویجز میں کام کرنے والے ملازمین کو مستقل کرنے کے معاملے کو اٹھایا۔ انہوں نے کہا کہ کنٹریکٹ اور دیلی ویجز پر کام کرنے والے بے شمار ملازمین غریب گھروں سے تعلق رکھتے ہیں اور خاص طور پر صوبہ بلوچستان کے علاقوں کے ملازمین بہت غریب ہیں ان کو مستقل کیا جائے تا کہ لوگ اپنے گھروں کا بوجھ بغیر کسی پریشانی کے آسانی سے اٹھا سکیں۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر جہانزیب جمالدینی نے کہا کہ ہر علاقے کے اپنے مسائل ہیں مگر پسماندہ علاقوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی طرف حکومت کو خصوصی توجہ کرنی چاہئے اور ان علاقے کے بچوں کو روزگار فراہم کیا جائے۔ جس پر کمیٹی کو بتایا گیا کہ باہر سے ایک کنسلٹنٹ ہائر کیا جائے گا جو یہ رپورٹ فراہم کرے گا کہ ادارے کو کتنی ملازمین کی ضرورت ہے بیسپ میں گزشتہ ڈیڑھ سال سے کوئی نئی بھرتی نہیں کی گئی۔ چیئرمین کمیٹی نے نئی بھرتیوں کیلئے ٹیسٹنگ ایجیسیوں کی کارکردگی پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بہتر یہی ہے کہ ادارہ جاتی امتحان سسٹم لایا جائے ان ایجیسیوں کی شفافیت کے حوالے سے بے شمار مسائل سامنے آ رہے ہیں۔ کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹر ز روبینہ خالد، لیفٹینٹ جرنل (ر) عبدالقیوم (ہلال امتیاز ملٹری)، ثمینہ سعید مرزا محمد آفریدی کے علاوہ وزیراعظم کی معاون خصوصی ڈاکٹر ثانیہ نشتر، سیکرٹری انسداد غربت و سماجی تحفظ علی رضا بھٹہ و دیگر اعلی حکام نے شرکت کی